گروہ، ادارے، آرگنائزیشنز
الجزائر معاہدہ 1975
مرضیہ عابدینی
27 دورہ
ایران اور عراق کے مابین دریائے اَروَند کے پانیوں کی مالکیت کے حوالے سے معاہدہ الجزائر 6 مارچ 1975 طے پایا جس میں ثالثی کے فرائض الجزائر کے وزیراعظم نے انجام دیئے۔ اس معاہدے کو 1981 میں ایران پر عراقی حملے کے بعد صدام نے ٹی وی پر آکر پھاڑ دیا۔
ایران اور عراق کی سرحد تو ملتی ہے مگر دونوں ممالک میں اختلافات کی تاریخ بہت پرانی ہے جس میں کافی موضوعات زیر بحث ہیں جن میں شط العرب یعنی دریائے اروَند، نظریاتی اختلاف اور سپر پاورز ممالک کے ساتھ رابطے، سرحدی اختلافات، خلیج فارس پر دونوں ملکوں کی رقابت، اور کُرد اور دیگر اقلیتوں جیسے موضوعات قابل ذکر ہیں اور انہی مسائل اور موضوعات کو حل کرنے کی خاطر مندرجہ ذیل معاہدے مختلف ادوار میں انجام پاتے رہے:
1۔ معاہدہ 1639 عیسوی جو تمام صفوی اور عثمانی حکومتوں کے درمیان ہوا جس نے ان دونوں ممالک کی سرحدوں کو مبہم انداز مین تعیین کیا۔
2۔ معاہدہ 1746 عیسوی، جو نادر شاہ افشار اور سلطان عثمانی کے درمیان ہوا۔
3۔ "ارزروم" کا امن معاہدہ۔ اس معاہدے پر دوسالہ (1821 سے 1823 عیسوی) جنگ کے بعد دستخط کئے گئے اور 1746 عیسوی کے معاہدے کی شرایط کی تائيد کی اور نتیجتا سرحدی اختلاف حل نہ ہو سکا۔
4۔ "ارزروم" کا دوسرا معاہدہ جو 1847 عیسوی میں ہوا اور اس میں برطانیہ نے ایرانی اور عثمانی حکومتوں کے درمیان ثالثی کی اور اس میں یہ طے پایا کہ دونوں ممالک کے نمائندوں کا ایک گروہ بانڈری لائنز کی دقیق اور بالکل درست تعیین کرنے کی ذمہ داری لے۔
5۔ معاہدہ 21 دسمبر 1911 عیسوی، یہ معاہدہ تہران میں ہوا اور اس میں لکھی گئی قرار داد قسطنطنیہ 1913 عیسوی کے مطابق ایرانی، عثمانی، روسی اور برطانوی نمائندوں نے ان دونوں ممالک کی سرحدوں کی تعیین کرنے کی بیڑا اٹھایا۔
6۔ معاہدہ 4 جولائی 1937 عیسوی، اس وقت عراق کا یہ دعوٰی تھا کہ ارزروم کی 1847 کی دوسری قرارداد کے مطابق پروٹیکل 1911 اور 1913 میں شط العرب یعنی دریائے اروَند کی حاکمیت عثمانی حکومت کو دی گئی ہے۔ جب کہ ایران کا یہ کہنا تھا کہ اس قرارداد اور اس پروٹیکل کی کوئی حیثیت باقی نہیں۔1937 عیسوی کی قرارداد کے باعث عراق مذکورہ حاکمیت سے پیچھے ہٹ گیا اور اسی قرارداد کے پیش نظر ایران اور عراق نے توافق کر لیا کہ دونوں ملکوں کی سرحدیں وہ بانڈری لائنز ہونی چاہیئں جو قسطنطنیہ کے پروٹیکل 1913 اور 1914 میں مذکور ہیں۔ لیکن 1937 کی قرارداد بھی سرحدی اختلاف کو حل نہ کر سکی جس کی وجہ اس اختلاف کا حقوقی اور فنی ہونا تھا اور یوں سرحد کے حوالے سے ابہام اور اختلاف آراء باقی رہ گیا۔
1957 عیسوی میں ایران اور عراق کے وزرائے اعظم نے کراچی میں مذاکرات کئے اور اس بات پر اتفاق رائے ہوا کہ سویڈن سے ایک جج کی خدمات لی جائیں جو سرحد کی درست تعیین کرئے اور یہ تنازعہ ختم کیا جائے۔ یہ تنازعہ دراصل عراق میں کی جانے والے سازش کا نتیجہ تھا جس نے دونوں ممالک کے روابط کو خراب کر کے رکھا ہوا تھا۔
1958 عیسوی میں کی جانے والی عراقی سازش، جو عبد الکریم قاسم کے برسر اقتدار آنے پر منتہی ہوئی، نے دونوں ممالک کے مابین روابط کو بگاڑ دیا (البتہ یہ تعلقات زیادہ تر سلطنتی حکومتوں جیسے تھے)، اور پھر چھپے اختلافات سامنے آگئے اور کچھ اختلافات میں کشیدگی بھی آئی جس کے نتیجے میں سرحد پر جھڑپوں کی نوبت آگئی۔ عبدالرحمن عارف کے حکومت سنبھالنے کے بعد ان تعلقات میں کچھ بہتری آئی لیکن 1968 میں جب بغداد میں بائیں بازو کی جماعت (اپوزیشن) نے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیا تو ایران عراق کے اختلافات دوبارہ پہلے کی طرح ہو گئے۔
عراق میں جب حسن البکر صدر بنے اور بعثی پارٹی حاکم بنی تو انہوں نے عرب دنیا کی رہبری کرنے کا دعوٰی کر دیا جس سے مسائل مزید پیچیدہ ہوگئے۔ عراق کا دعوٰی تھا کہ دریائے اروَند عراق کی ملکیت ہے اور "ابو موسی"، "چھوٹے تنب" اور "بڑے تنب" کے جزائر عرب دنیا کا حصہ ہیں۔
1970 سے 1980 کی دہائی میں ایران اور عراق کے تعلقات زیادہ تر خطے کی سپر پاورز کی سیاست کے زیر سایہ تھے۔ پہلوی دوم کے زمانے میں ایران، امریکہ کے زیر اثر تھا جس کی بنا پر ایران مغرب کی ایک چھاؤنی بن کر رہ گیا تھا جبکہ اس کے مقابلے میں عراق روز بروز روس کے قریب ہو رہا تھا۔
1972 اور 1973 میں ایران_عراق سرحد پر شدید جھڑپیں ہوئیں جن میں دونوں طرف کافی سپاہی زخمی ہوئے۔ اس پر عراق نے فروری 1974 میں اقوام متحدہ کی امن کمیٹی سے ہنگامی اجلاس منعقد کرنے کا مطالبہ کیا تا کہ عراق اپنی شکایت درج کروا سکے۔ امن کمیٹی نے اس بحران کو حل کرنے کے لئے کئی اجلاس بلوائے اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کو یہ تنازعہ حل کرنے کے لئے سرحد پر بھیجنے کا عندیہ بھی دیا۔ اور بالآخر 7 مارچ 1974 کو دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کی صورت میں کامیابی حاصل ہوئی۔ اس نمائندے کے تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ ایک تو یہ کہ دونوں ممالک سرحد کے متعلق مختلف نقشہ استعمال کرتے رہے ہیں جس کی وجہ سے جھڑپوں اور کشیدگی تک نوبت پہنچی۔ اور دوسرا یہ کہ دونوں ممالک نے ضرورت سے زیادہ فورسز سرحد پر بھیجی ہوئی ہیں جو بذات خود ایک اشتغال انگیز امر ہے۔ ان نتائج کے پیش نظر اقوام متحدہ کا نمائندہ فریقین کو ایک نیا کمشن تشکیل دینے پر راضی کرنے میں کامیاب ہوا تا کہ وہ کمشن اس سرحدی مسئلے کو حل کرے اور فریقین کو براہ راست مداخلت سے روک کر رکھے۔ اس کے بعد ایران اور عراق کے تعلقات میں کشیدگی میں کمی آئی اور 1974 کے اوخر اور 1975 کے اوائل میں پر امن مذاکرات سامنے آئے۔
الجزیرہ میں 4 سے 6 مارچ 1975 کو (اوپک) تیل صادر کرنے والے بين الاقوامی ادارے کے رکن ممالک نے کانفرنس تشکیل دی جس میں یہ طے پایا کہ الجزایر کے صدر "ھواری بومدین"، شاہ ایران محمد رضا اور معاون صدر عراق صدام حسین کی ملاقات کروائیں گے۔ اس ملاقات کے نتیجے میں حل اختلاف کا کلی مسودہ سامنے آیا جو درج ذیل ہے:
1۔ فریقین(ایران اور عراق) قرارداد قسطنطنیہ کے ایکٹ 1913 اور 1914 کے تحت اپنی سرحد کی تعیین کریں گے۔
2۔ سمندری حدود کو (خط القعر) "تالوگ" کی لاین کے مطابق تعیین کریں گے۔
3۔ اس ملاقات اور مذاکرات کے نتیجے میں فریقین ایک دوسرے کا اعتماد بحال رکھتے ہوئے مشرکہ سرحد پر امن قائم کریں گے۔ فریقین اس بات کا عہد کریں گے کہ سرحد پر کسی قسم کی رخنہ اندازی نہیں ہوگی اور سرحدی امن کے لیےسنجیدگی دکھائیں گے۔
4۔ مذکورہ قوانین سے ایک کلی راہ حل نکلتا تھا اور کسی بھی فریق کی جانب سے خلاف ورزی، معاہدہ الجزائر کی مخالفت تھی۔
اس توافق کے نتیجے میں الجزایر کے وزیر خارجہ عبدالعزیز بوتفلیقہ کی وساطت سے ايرانی وزیر خارجہ عباس علی خلعتری اور عراقی وزیر خارجہ سعدون حمادی کے مابین 15 مارچ 1975 کو تہران میں نشست ہوئی اور پھر اگلی ملاقاتیں بغداد اور الجزائر میں ہوئیں جس کے نتیجے میں 13 جولایی 1975 کو عہد نامہ تصويب ہوا جس میں فریقین کی ہمسایگی اور حکومتی سرحد پر بات ہوئی اور تین ایکٹ مزید اضافہ ہوئے جن کی بدولت فریقین کے مابین سمندری اور زمینی سرحد کے اختلاف کا خاتمہ ہوا۔
معاہدہ الجزیرہ کے بعد فریقین کے تعلقات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ ایرانی وزیر اعظم امیر عباس ہویدا نے مارچ 1975 میں عراق کا دورہ کیا اور اس کے مد مقابل اسی سال عراقی صدر کے معاون نے ایران کا دورہ کیا۔ معاہدہ الجزیرہ کے اجرا پر فریقین نے ان اختلافات کے خاتمے، دونوں ممالک کی مذہبی و تاريخي ثقافت کی حفاظت اور تعلقات میں وسعت آنے پر خوشی اور مسرت کا اظہار کیا۔
اس وقت کی دونوں سپر پاورز امریکہ اور روس کی بھی خواہش یہی تھی کہ ان فریقین کے اختلافات حل ہوں۔ کیونکہ در اصل ان اختلافات کے نتیجے میں خلیج فارس سے تیل کی تجارت کو خطرہ لاحق تھا جو بذات خود امریکہ کے لئے ڈراؤنا خواب تھا جس کی تعبیر سے بچنے کے لئے وہ خود بھی خلیج فارس کے اس بحران کو حل کرنے کے لیے کوشاں رہتا تھا۔ بغداد کی حکومت سیاسی انزوا کا شکار تھی، جس سے بچنے اور عرب دنیا پر چھا جانے کی بھی خواہش مند تھی، تو اس توافق کے حصول پر اسے اپنی تمنا پوری ہوتی دکھائی دے رہی تھی جس کو سامنے رکھ کر بغداد نے روس سے فاصلہ بڑھانا شروع کر دیا۔ یہی وجہ تھی کہ امریکا نے اس معاہدے کا استقبال کیا۔ البتہ روس کے ان دونوں ممالک سے اچھے اقتصادی اور فوجی تعلقات تھے، سو روس بھی اپنی جگہ پر ان اختلافات کے حل کا خواہاں تھا۔
علاقائی اعتبار سے بھی ایران اور عراق اپنی آرزوؤں کے پورا ہونے کے خواہش مند تھے۔ شاہ ایران کی خواہش تھی کہ خطے میں طاقت کی چھڑی اس کے ہاتھ میں ہو اور خلیج فارس میں اس کی اجارہ داری قائم ہو اور دوسری جانب عراق بھی ان پرانے اختلافات کے خاتمے کو عرب دنیا پر اپنی حاکمیت کی چابی سمجھ رہا تھا۔
1979 میں جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو نہ صرف مشرق وسطی بلکہ پوری دنیا میں طاقت کا توازن بگڑ گیا اور عالمی سپر پاورز کے لیےنئے مسائل نے جنم لے لیا اور یہ انقلاب ان کے لیےاتنی بڑی رکاوٹ بن گیا کہ وہ اس نظام کوصفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہوگئے۔ صدام حسین کو اس وقت تک ایرانی آرمی کے بارے میں ناکافی اور غلط اطلاعات ملتی تھیں جس پر اس کو یہ یقین ہو گیا تھا ایرانی افواج انتہائی کمزور اور بے کار ہیں۔ اسی خوش فہمی میں آکر اس نے معاہدہ الجزائر 1975 کی قرارداد کو یک طرفہ منسوخ کر دیا جس پر خود اس نے عراق کی نمایندگی میں دستخط کئے تھے اور منسوخ کرنے کے فورا بعد ایران پر حملہ کر دیا ۔
17 ستمبر 1980 کو یعنی حملے سے پانچ روز قبل صدام نے عراقی پارلیمنٹ میں ایک ہنگامی اجلاس بلایا اور کہا: "میں آپ کے سامنے یہ اعلان کرتا ہوں کہ ہم نے 6 مارچ1975 کی الجزائر قرارداد کو منسوخ کرتے ہیں اور انقلاب کی کمان کمیٹی اس زمینے میں اپنا فیصلہ خود کرے گی۔"
ایران پر عراقی حملے کے بعد صدام نے ٹی وی پر آکر یہ قرارداد پھاڑ دی اور یہ اعلان بھی کیا: "یہ قرارداد اس وقت کی ہے جب ہم کمزور تھے۔ اب ہم طاقتور ہیں اور اس قرارداد کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔"