اشخاص
محمد آرمان
معصومہ عابدینی
14 بازدید
محمد آرمان نومبر۔دسمبر ۱۹۶۴ میں، جیرفت[1] میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک غریب مزدور تھے جو گھر کے سات افراد کا خرچ بمشکل پورا کر پاتے تھے۔ گھر کی مالی مشکلات کے سبب محمد آرمان کے سب گھر والے جیرفت کے ہی ایک اور گاؤں ’’دشت کوچ‘‘ ہجرت کر گئے۔ اس وقت محمد کی عمر دو سال تھی۔ محمد کی عمر چھ سال ہوئی تو ان کے والد نے محمد کو ان کے دو بڑے بھائیوں کے ہمراہ تعلیم کے حصول کے لئے جیرفت بھیج دیا۔
محمد آرمان چوتھی جماعت میں تھے کہ ان کے والد محترم اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔والد کے انتقال کے سبب ان کے خاندان کے لئے زندگی گذارنا انتہائی مشکل ہوگیا۔ محمد کی والدہ محترمہ کی کاوشوں کا ثمر تھا اور تعلیم کے ہمراہ کام کرنے کا نتیجہ کہ محمد نے ابتدائی اور ثانوی تعلیم مکمل کی۔
ایام نوجوانی میں، اپنے ایک استاد کے وسیلہ سے محمد آرمان کا رابطہ جیرفت کی ایک مسجد سے ہوگیا تھا اور انہی ایام میں وہ اس مسجد میں امام خمینیؒ کے پوسٹرز کی تقسیم پر مامور ہوگئے تھے۔ اپنے بھائی کے ہمراہ انہوں نے دشت کوچ کے لوگوں کو شہنشاہی حکومت کے خلاف احتجاج سے آگاہ کیا اور سب کے ساتھ مل کر جیرفت کے ایک شراب خانہ کو آگ لگائی۔
انہیں کشتی اور فٹبال سے خاص لگاؤ تھا اور کشتی کے میدان میں انہوں نے خاصی ترقی کی تھی۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد انہوں نے ’’حزب جمہوری اسلامی جیرفت‘‘ میں اپنے کام کا آغاز کیا اور کافی عرصہ تک اس کے دفتر میں کام میں مشغول رہے۔
ایران عراق کی جنگ شروع ہونے کے ایک سال بعد وہ بسیج کے رکن بنے اور ان کی تعیناتی خوزستان میں ہوئی۔ اس وقت وہ اعلیٰ ثانوی کے پہلے سال میں تھے۔ انہوں نے ’’ آپریشن فتح المبین‘‘ میں شرکت کی ۔ اس آپریشن کے دوران ، ایک بمب کے گولے کا ٹکڑا لگنے اور RPG کے بیگ میں آگ لگنے کی وجہ سے ان کا ہاتھ زخمی ہوگیا۔ ان کو علاج کے لئے یزد کے ایک اسپتال روانہ کر دیا گیا۔ حالت کچھ سنبھلی تو مزید علاج معالجہ کے لئے محمد آرمان جیرفت آگئے اور یہاں وہ کرمان ڈیویلپمنٹ کے رکن بن گئے۔
محمد آرمان کئی بار محاذ جنگ پر گئے اور انہوں نے کئی ایک جگہ مختلف مشاغل میں اپنی خدمات انجام دیں۔ وہ ’’آپریشن رمضان میں ’’وائرلیس مین‘‘ رہے اور ’’آپریشن والفجر‘‘ ،میں مجاہد۔ ’’آپریشن خیبر‘‘ میں قاصد کا فریضہ انجام دیتے ہوئے ہی زخمی ہوگئے۔ ’’بدر‘‘، ’’والفجر۸‘‘ اور ’’کربلا۵‘‘ کے آپریشنز میں شامل رہے۔ جس وقت شلمچہ کے جنگی میدان میں کرمان انجینئرنگ کو مشکل ذمہ داریاں سونپی گئیں تو محمد آرمان کو اس جنگ کے اسسٹنٹ کمانڈر کی حیثیت سے حمایت کی ذمہ داری سونپی گئی۔
وہ نڈر اور بہادر صفت تھے۔ ’’جزیرہ مجنون‘‘ میں آفیسر ہونے کے باوجود بھی اپنے دوستوں کے ہمراہ دشمن کی بھڑکائی ہوئی آگ کے نیچے راستہ بنانے کی کام میں مشغول ہوگئے۔ ان کے اس کام نے باقی فوجیوں کو بھی ہمت و حوصلہ فراہم کیا۔
ان کے دوستوں اور جنگی ساتھیوں کے اقوال کے مطابق وہ جنگ کے میدان میں ایک فوق العادہ شخصیت تھے۔ وہ اپنی ذمہ داری کو پوری طرح نبھانے کے ساتھ ہی کبھی رضاکار بن جاتے اور کبھی ایمبولینس کے ڈرائیور۔ غرض جیسی ضرورت ہوتی وہ اس کو پورا کرتے۔
محاذ جنگ پر زیادہ رہنے کی سبب ان میں اس بات کی صلاحیت پیدا ہوگئی تھی کہ وہ گولی کی آواز سن کر اس کے چلنے کے مقامل کا تعین کر دیتے تھے۔ اس باب میں ان سے کئی ایک قصہ نقل کئے گئے ہیں۔
محمد آرمان اپنی پڑھائی کو گرمیوں کی چھٹیوں یا دوسرے فرصت و فراغت کے مواقع پر جاری رکھتے تھے جس کے سبب وہ کامرس میں انٹرمیڈیٹ پاس کرنے میں کامیاب ہوئے۔ سال ۱۹۸۶ء کی ابتدا میں وہ شادی کی بندھن میں بندھے اور شادی کے صرف دو ہفتہ بعد ہی محاذ جنگ پر واپس پلٹ آئے۔
ان کے زخمی ہونے کے بعد ان کو ایک بار جیرفت کے زراعتی امور کی دیکھ بھال کی ذمہ داری کی پیشکش بھی کی گئی لیکن اس شعبہ کے دوسرے عہدہ داروں سے مشاورت کے بعد آپ نے اس کو قبول نہ کیا اور دوبارہ فرنٹ لائن کی جانب پلٹ آئے۔ ۲۸ نومبر ۱۹۸۷ کو ’’جزا ئر مجنوں میں، محمد آرمان جس وقت دشمن کے پوشیدہ مورچہ سے کچھ آگے راستہ بنانےمیں مصروف تھے ، کہ ٹینک کا ایک گولہ لگنے کے باعث شہید ہوگئے۔
اپنی شہادت سے قبل ، انہوں نے اہواز کے اپنے آخری سفر میں اپنی زوجہ، بہن(اور اس کے گھر والوں ) اور اپنے بیٹے کو بھی اپنے ہمراہ کرلیا اور ان کو اہواز میں لا کر بسا دیا۔
اپنی شہادت سے ایک رات پہلے محمد آرمان اپنے گھر آئے اور اپنے چند ماہ کے اکلوتے بیٹے کو ، فوجی چھاونی لے گئے تاکہ ان کے دوست بھی ان کے بیٹے کو دیکھ لیں۔ گھر واپس آئے تو اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھ گئے اور سب کو اپنی والدہ کے بارے میں وصیت کی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ شہادت کے وقت ان کے لبوں پر جو آخری کلمہ تھا وہ ’’یا زہرا‘‘ سلام اللہ علیہا تھا۔[2]
[1] ایران کے ایک صوبہ کرمان کا ایک شہر۔
[2] دفاع مقدس کے انسائیکلوپیڈیا کے ایک مقالہ کی تلخیص، دائرۃ المعارف دفاع مقدس، جلد ۱، صفحہ ۱۴۱ اور ۱۴۲، ناشر مرکز دائرۃ المعارف پژوہشکاہ علوم و معارف دفاع مقدس، تہران ۲۰۱۰،۲۰۱۱