اشخاص
احمد پور، محمد ابراہیم
معصومہ عابدینی
11 بازدید
محمد ابراہیم احمد پور30 نومبر 1954 کو قم میں پیدا ہوئے اور جب دو سال کے تھے تو ان کا خاندان تہران ہجرت کر گیا۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم صفا اسکول اور پھر ہائی اسکول کی تعلیم شمیران کے علاقے میں واقع نراقی اور پیمان سیکنڈری اسکولز سے ریاضی کے شعبے میں مکمل کی۔ اسکے علاوہ انہوں نے مختلف کلاسوں میں حصہ لیا جن میں شیخوہ اسکول (تہران) میں انگریزی زبان اور قطریہ کی جعفری مسجد سے عربی زبان کی تعلیم شامل ہے۔ دوران تعلیم مذہبی مسائل میں دلچسپی کی وجہ سے وہ مذہبی مجالس میں شرکت کرتے تھے۔ وہ اپنی تعلیم کے تمام مراحل میں ایک کامیاب اور ممتاز شخصیت تھے۔
1974 میں، وہ تہران کی تربیت معلم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس میں داخل ہوئے۔ یونیورسٹی کے دوسرے سال میں، انہیں ساواک نے گرفتار کر لیا اور سیاسی سرگرمیوں کے جرم میں جیل بھیج دیا۔ لیکن ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل سکا جس کی وجہ سے تقریباً تین ماہ بعد جیل سے رہا ہو گئے۔ اس کے باوجود، یونیورسٹی نے انہیں اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے قبول کرنے سے انکار کر دیا لیکن ان کی ذہانت اور علمی قابلیت اور انکے کچھ اساتذہ کی وساطت کی وجہ انہیں داخلہ دے دیا گیا اور پھر انہوں نے ثقافتی انقلاب (1981) تک اپنی تعلیم جاری رکھی۔
1976 میں، انہوں نے اپنی ماموں زاد سے نہاوند میں شادی کی۔ لیکن ان کی شادی کے پانچ سال کے دوران ان کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
اسلامی انقلاب کے دوران جب عوام نے اوین جیل پر قبضہ کیا تو وہ اپنے دوستوں کی مدد سے لوگوں میں ہتھیاروں کی تقسیم کی نگرانی کرتے تھےتاکہ کوئی ہتھیار اوباشوں کے ہاتھ نہ لگ جائے۔
اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد کچھ عرصہ وزارت عظمیٰ کے دفتر میں ذمہ داریاں نبھائیں لیکن انقلاب مخالف سیاسی گروہوں کی بغاوت کے آغاز کے ساتھ ہی وہ چمران گروپ کے ساتھ کردستان چلے گئے اور علاقے میں اپنی موثر سرگرمیوں کی وجہ سے کوملہ گروہ نے ان پر نظر رکھنا شروع کر دی ۔
جب امام خمینی نے تعمیراتی جہاد (1979) کے ادارے کےقیام کا حکم دیا تو محمد ابراہیم تہران چلے گئے اور شیمیرانات تعمیراتی جہاد گروہ کے سربراہ بن گئے۔ جب مجاہدین کے لیے سامان فرنٹ پر لے جایا جاتا تو وہ گودام میں جاتے، اپنے کندھوں پر بوجھ اٹھا کر ٹرک میں لادتے۔
ایران کے خلاف عراق کی مسلط کردہ جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی وہ تہران کے تعمیراتی جہاد کے عہدیداروں میں سے ہونے کے باوجود خوزستان چلے گئے اور چند ماہ کے بعدیکم جنوری 1981 کو اس وقت کے خوزستان کےگورنر (سید محمد غریحی) نے ان کو ماہ شہر کا ناظم بھی مقرر کر دیا۔
ان پر بیک وقت فرنٹ لائن اور فرنٹ لائن کے پیچھے دووں جگہ کی ذمہ داریاں تھیں۔ آبادان میں وہ ثامن الائمہ آپریشن کی فضائی مدد کے لیے ایک نئے ہوائی اڈے کے رن وے کی تعمیر میں مصروف تھے اور ماہ شہر میں بیس ہزار جنگی پناہ گزینوں کو آباد کرنے اور ان کو وسائل کی فراہمی انکے ذمہ تھی۔ اس کے علاوہ، ماہ شہر کینال کی کھدائی، دلدلی علاقوں کی تعمیر نو، ایک کوآپریٹو اسٹور، مسافر بسوں کے ٹرمینلز ، 2 آئس فیکٹریاں، اور ایک گیسٹ ہاؤس کا قیام وہ دیگر کام تھے جو انہوں نے انجام دیے۔
ثامن الائمہ آپریشن کے آغاز کے ساتھ ہی، وہ ماہ شہر میونسپلٹی چھوڑ کر وہ مارٹر پگولہ چلانے والے جنگجو کی حیثیت سے مجاہدین سے ملحق ہوگئے۔
احمد پور شہر کے معاملات کو سنبھالنے میں کامیاب رہے اور اس وقت کے گورنر نے انہیں ماہ شہر کی گورنری بھی دے دی۔
محمد ابراہیم10جنوری 1982کو آبادان ماہ شہر روڈ پر گاڑی چلاتے ہوئے ٹریفک حادثے میں زخمی ہو گئے تھے اور کچھ عرصہ اسپتال میں بھی داخل رہے۔ لیکن کام کی فکر کی وجہ سے وہ مکمل صحت یاب ہونے سے پہلے ہی ماہ شہر چلے گئے۔ لیکن ان کا جسم روز بروز کمزور ہوتا جا رہا تھا۔ کچھ عرصے بعد دل اور پھیپھڑوں کے مرض کی پیچیدگیوں کی وجہ سے انہیں تہران کے لبافی نژاد ہسپتال میں داخل کیا گیا اور پھر 18مارچ 1982 کو انہیں علاج کے لیے جرمنی منتقل کر دیا گیا ۔ لیکن جرمنی میں ڈاکٹروں کی کوششیں کارگر ثابت نہ ہوئیں اور بالآخر10اپریل1982 کو انہوں نے جام شہادت نوش کرلیا۔ ایران منتقل ہونے کے بعد ان کی میت کو تہران میں گلزار بہشت زہراسلام اللہ علیھا میں سپرد خاک کیا گیا۔
محمد ابراہیم احمد پور نے اپنی وصیت کے ایک حصے میں لکھا ہے: "شہادت ہمارا مقصد نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک وسیلہ ہے کہ ہم حق کی وحدانیت پر یقین اور مصیبت میں اپنی استقامت کا اعلان کریں..."[1]
[1] دفاع مقدس کے انسائیکلوپیڈیاکے ایک مقالہ کی تلخیص، دائرۃ المعارف دفاع مقدس جلد ۱ ص ۳۵۸أ۳۶۰، ناشر: مرکز دائرۃ المعارف پژوہشگاہ (ریسرچ سینٹر) علوم و معارف دفاع مقدس، ۲۰۱۱