آخرین پرواز
زینب احمدی
1 بازدید
فیچر فلم "آخرین پرواز" سن 1989 میں احمدرضا درویش کی ہدایتکاری میں بنائی گئی جس کا مرکزی خیال ایرانی ایئر فورس کے ایک میجرپائلٹ کی فیملی کو ایک دہشت گرد گروہ کی جانب سے یرغمال بنا نے پر مبنی ہے۔
فلم کے ڈائریکٹر اور اسکرپٹ رایٹر احمدرضا درویش، اسسٹنٹ ڈائریکٹر نصرت کریمی اور علی رضا آقابالائی، پروڈیوسر محمدرضا رجائی اور فرہاد کی نژاد اور رحمان خدادادی اور دیگران، سینماٹوگرافر اصغر رفیعی جم، اسکرپٹ سپروایزر سہیلا علوی زادہ، ڈبنگ سپروایزر علی کسمائی، ساونڈ اینڈ مکسنگ اسحاق خانزادی، انچارج ساونڈ ریکارڈنگ احمد کلانتری، انچارج اسپیشل ایفیکٹس علی رستگار، مصطفیٰ الہی اور رضا ابوالقاسمی، ایڈیٹر روح اللہ امامی، میوزک مجید انتظامی، انچارج پروڈکٹ محسن علی اکبری، میک اپ عبداللہ اسکندری اور سیٹ اینڈ کاسٹیوم ڈیزائنر مجید میرفخرائی شامل ہیں۔ اداکاروں میں فرامرز صدیقی، سرور رجائی، مہدی وثوقی نژاد، حسین نجفی، عباس مرادی، فرشتہ صبوری، کیمیا سماکار، عبدالرضا اکبری، مہشید افشارزادہ، علی اصغر قزلباش، علی اصغر گرمسیری، اکبر سنگی، حسین خانی بیک، ملیحہ نظری، منصورہ جہری اور دیگران شامل ہیں۔ یہ فیچر فلم "ادارہ امور سینمائی بنیاد امور مستضعفان و جانبازان" کی پیشکش ہے۔ فلم کا کل دورانیہ 110 منٹ ہے اور اس کی نمائش 6 جون 1990 سے شروع ہوئی۔
فلم کی داستان کچھ یوں ہے کہ ایک میجرپائیلٹ ناصر خرسندی (فرامرز صدیقی) اپنے فالج زدہ بیٹے حامد کو اس کی ماں اکرم کے ہمراہ علاج کے لئے فرانس بھیجتا ہے۔ وہ اکرم کے بھائی مجید کے گھر قیام پذیر ہوتے ہیں۔ ایک دہشت گرد گروہ ان تینوں اور مالک مکان بوڑھی عورت کو اپارٹمنٹ میں یرغمال بنا لیتا ہے اور ناصر کے پاس ایک ریکارڈنگ بھیج کر اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ یرغمالوں کی رہائی کے لئے اپنا جنگی طیارہ عراقی سرزمین پر اتار دے۔ دوسری طرف، بوڑھی مالک مکان کے شوہر کو اس کے لا پتہ ہونے پر تشویش لاحق ہوتی ہے اور وہ پولیس کو مطلع کر دیتا ہے۔ یرغمالوں کو چھڑانے کے ایک آپریشن کے دوران، حملہ آور اور مجید ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ناصر، جو اپنا طیارہ اڑا چکا ہوتا ہے اور اس واقعے سے بے خبر ہوتا ہے، دشمن کے اڈے پر بمباری کر دیتا ہے۔[1]
یہ فلم سن 1990 میں 1,936,627 ناظرین کے ساتھ 33,577,275 ریال کا بزنس کرنے میں کامیاب رہی۔[2]فجر فیسٹیول میں فلم "آخرین پرواز" دو ایوارڈ کے لئے نامزد ہوئی جبکہ ایک اور مورد میں ایوارڈ جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ اسحاق خانزادی بہترین ساونڈ مکسنگ کے ایوارڈ کے لئے نامزد ہوئے، علی رستگار بہترین اسپیشل ایفیکٹس کے ایوارڈ کے لئے نامزد ہوئے، جبکہ مجید میرفخرائی نے بہترین سیٹ اینڈ کاسٹیوم ڈیزائنر کا ایوارڈ فلم "آخرین پرواز" کے لئے جیتا۔[3]
اگرچہ یہ فلم ایک نئے ہدایت کار کی پہلی کاوش ہے، تاہم ماہرین کے نزدیک یہ قابل تحسین فلم ہے اور یہ اپنے نمائشی سال میں سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلموں کی فہرست میں ساتویں نمبر پر رہی۔
اس فلم کے کردار عام لوگ ہیں جنہیں ہم اپنی روزمرہ زندگی میں دیکھ سکتے ہیں۔ ان کرداروں کا تعارف ان کے ڈایلاگز کی بجائے، فلم کے واقعات کے دوران ان کے جذبات اور رویوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ فلم کی کہانی بظاہر جنگ کے بارے میں ہے لیکن وہ جنگ کے مخصوص مسائل کو براہ راست موضوع نہیں بناتی۔ ڈائریکٹر کا مقصد ایک تخیلاتی لیکن پرتجسس واقعہ بیان کرنا ہے جسے دلچسپ مناظر کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ وطن سے محبت، قربانی کا جذبہ اور دہشت گردوں سے نفرت جیسے احساسات اس فلم میں پوری طرح موجود ہیں اور ناظر آسانی سے ان سے انس محسوس کرتا ہے۔ فلم کی کہانی میں ناظرین کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرنے کی غیر معمولی صلاحیت موجود ہے اور اداکاروں کی برجستہ ادائیگی، خصوصاً فرامرز صدیقی کی میجر پائلٹ کے کردار میں کارکردگی، اور مجید انتظامی کی پرکشش موسیقی اس میں چار چاند لگا دیتی ہے۔[4] نیز بعض تجزیہ نگاروں کے نزدیک اس فلم کی ساخت اور ردہم میں باہم تناسب موجود ہے۔[5]
[1] بہارلو، عباس، فیلم شناخت، تہران، قطرہ، 2011، ص 195؛ فراستی، مسعود، فرهنگ فیلمهای جنگ و دفاع ایران، تہران: نشر ساقی، 2014، ص 15
[2] سالنامه آماری فروش فیلم و سینمای ایران، سال 1990، ص 7 و 20
[3] سایت سینمایی منظوم https://www.manzoom.ir
[4] امید، جمال، تاریخ سینمای ایران، تہران، روزنہ، 2004، ص 991، 993، 994
[5] فراستی، مسعود، سابق، ص 15، 16
