اشخاص
احمدی بی غش، داؤد
معصومہ عابدینی
9 بازدید
وہ 22 مئی 1963کو صوبہ اراک کے ایک گاؤں تورہ میں پیدا ہوئے۔ پرائمری اسکول جانے سے پہلے انہوں نے قرآن پڑھنا سیکھا۔ انہوں نے ابتدائی اور مڈل اسکول کی تعلیم 1977 تک ضلع ملایر کے زنگنہ گاؤں میں مکمل کی، اسکے بعد ہائی اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اراک چلے گئے۔ اپنی تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کے لئے وہ چھٹیوں کے ایام میں مزدوری کیا کرتے تھے۔
ان کی تعلیم حاصل کرنے کے زمانے میں پہلوی حکومت کے خلاف ایرانی عوام کی تحریک کاپنے عروج پرتھی۔ انہوں نے اپنی کم عمری کے باوجود امام خمینیؒ کے کتابچے تقسیم کیے اور سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں میں شرکت کی۔
وہ 1981 میں ڈپلومہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور6 نومبر 1981 کو وہ کیڈٹ یونیورسٹی میں داخل ہوگئے۔1983 میں انہیں رینجر کاخصوصی تربیتی کورس سے گزارنے کے لیے شیراز بھیجا گیا اور اسی سال وہ سیکنڈ لیفٹیننٹ کے عہدے پر پہنچ گئے۔ اس کے بعد وہ ملک کے جنوب میں جنگی محاذ کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہنچنے پر وہ قدس بٹالین کی فرسٹ کمپنی کے کمانڈر بن گئے۔
8جنوری 1985 کو، انہوں نے صحراؤں میں جنگ اور زندگی گذارنے اور بحری و بری آپریشنز کا تین ماہ کا تربیتی کورس مکمل کرکے اس دورے میں پہلی پوزیشن حاصل کرلی۔23 جون 1885 کو ان کا تبادلہ اہواز کردیا گیا اور تربیت کے دوران اپنی قابلیت، بہادری اور شجاعت کے باعث 58 ویں ذوالفقار رینجرز ڈویژن کی سپیشل ریکونینس بٹالین کے کمانڈر بن گئے۔
7 ستمبر 1985 کو متعلقہ یونٹ کے ساتھ اانہیں چنگولہ (مہران کے جنوب مشرق میں ایک علاقہ) بھیج دیا گیا۔ دفاعی خطوط کو برقرار رکھتے ہوئے اور علاقے کی نشاندہی کرتے ہوئے، انہوں نے اپنے ماتحت یونٹ کے ایک حصے کو، جو کہ ایک مضبوط اور خود مختار یونٹ تھا، مہران دہلران سڑک کے محور پر راتوں کو فوجی گاڑیوں کی حفاظت کے لیے تعینات کیا۔ دن یا رات کے جاسوسی مشنوں میں، وہ اکثر گشت کے انچارج ہوا کرتے تھے۔ جاسوسی کے دوران ان کے اور بعثی گشتوں یا سازمان مجاہدین خلق (منافقین) کے درمیان شدید جھڑپیں ہوتی تھیں جن میں وہ کئی بار زخمی بھی ہوئے۔
اسی سال5اپریل اور10مئی کو انہوں نے اپنی کمان میں موجود یونٹ کے ساتھ مل کر بعثی افواج کے 2 شدید حملوں کا مقابلہ کیا اور آپریشنل ایریا کو سقوط سے بچاتے ہوئے اپنی فوج کے حوصلے کو مضبوط کیا۔ بہادری کے ان کارناموں کی بدولت وہ6 نومبر 1986کو فرسٹ لیفٹیننٹ کے عہدے تک پہنچے۔ اسی طرح ، 30جنوری 1987 کو، 58 ویں ڈویژن کی اسپیشل جاسوسی بٹالین ذوالفقار کے کمانڈر کی حیثیت سے، انہوں نے اپنی یونٹ کے ساتھ چھٹے کربلا آپریشن میں حصہ لیا اور اس آپریشن میں زخمی ہوئے لیکن علاج کے بعد وہ واپس محاذ پر آگئے۔
3 دسمبر 1987 کو دشمن کی صفوں کی نشاندہی کرتے ہوئے وہ عراق کے زیر کنٹرول علاقے میں داخل ہوئے لیکن انہیں انکے ساتھیوں سمیت دشمن نے گھیر لیا۔ محاصرہ توڑنے کی کوشش کے دوران ان کی بائیں ٹانگ میں زخم آئے اور انہیں تہران بھیج دیا گیا۔ اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد، اگرچہ ڈاکٹر نے انہیں چند دن آرام کا مشورہ دیا تھا، لیکن وہ فوراً اہواز کی فرنٹ لائن میں واپس آگئے جس کی وجہ سے اس وقت کی بری فوج کے سربراہ نے انہیں ڈیڑھ سال کی سینیارٹی کے اعزاز سے نوازا۔ .
فروری 1988 میں ان کی شادی ہوئی اور شادی کے چند دنوں بعد محاذ پر واپس آگئے۔ کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے ان کی کوششوں اور انتظام سے جنگی محاذ پر نماز خانے کے ساتھ ساتھ اسپورٹس کلب بنایا گیا۔
داؤد احمدی بی غش نے دشتِ سومار کے علاقے کی نشاندہی کے بعد5 مارچ 1988 کو کیمپ کے کمانڈر اور لشکر ذوالفقار کے کمانڈر کے ہمراہ ایک آپریشن کے مختلف پہلوؤں کا حتمی جائزہ لینے کے لیے اس علاقے کا دورہ کیا۔ جاسوسی کے دوران، ان میں سے کئی ایک کو دشمن کے مارٹر سے نشانہ بنایا گیا احمدی بی غش بھی اپنے سر پر مارٹر کے گولے سے شہید ہو گئے۔
شہید احمدی بیغش کا جسد خاکی6 مارچ 1988 کو اراک منتقل کیا گیا اور7 مارچ 1988کو ان کے آبائی گاؤں تورہ میں سپرد خاک کیا گیا۔
ان کی شہادت کے بعد اس وقت کی بری فوج کے سربراہ شہید لیفٹیننٹ جنرل صیاد شیرازی نے اپنے ایک پیغام میں کہا: "یہ شہید اسلامی جمہوریہ ایران اور مقدس اسلامی نظام کے لیے ایک قیمتی اثاثہ تھے۔" انشاء اللہ، ان کے خون کی عظمت سینکڑوں نئے احمدی بی غش کو جنم دے گی، اور اانکا عزم، ہمت اور ذمہ داری نوجوانوں کے لیے نمونہ بن جائے گی۔"
ان کی وصیت کے ایک حصے میں لکھا ہے : ’’راہِ خدا میں لڑنا پسندیدہ ہے اور شہادتاس سے کہیں زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘ شہادت وہ عظیم نعمت ہے جسے انسان اور زمینی لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ جو لوگ سرخرو ہوکر حق تک جا پہنچے ہیں وہ اس امرِ عظیم کی خوشی کو درک کرچکے ہیں... عزیزو! میرے سوگ میں غمگین مت ہونا اور بس یہ کہنا کہ ایک لاچار انسان چلا گیا ہے۔ کیونکہ شہادت فانی دنیا سے جانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ ہر کسی کو جانا ہے اور سب ہی اپنے اپنے انداز سے کسی خاص راستے سے،لیکن یہ تو [شہادت] بہترین اور کامل راستہ ہے۔[1]
[1] دفاع مقدس کے انسائیکلو پیڈیا کے ایک مقالہ کی تلخیص، دائرۃ المعارف دفاع مقدس جلد ۱ صفحہ ۳۶۵ تا ۳۶۷، مرکز دائرۃ المعارف پژوہشگاہ (ریسرچ سینٹر) علوم و معارف دفاع مقدس تہران ۲۰۱۱