اشخاص
آزادی، غلام رضا
معصومہ عابدینی
5 بازدید
غلام رضا اآزادی (1961-1987)، دفاع مقدس کے دوران قدس کمانڈنگ سینٹر میں آپریشنز کے ڈپٹی [1]کمانڈرتھے۔
غلام رضا ، 1961 ء میں اصفہان کے شہرضا کے ایک گاؤں جر قویہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد اپنے گھر والوں کے ہمراہ تہران ہجرت کر گئے۔1976-77 کے تعلیمی سال میں اپنی دنیاوی تعلیم کے ہمراہ وہ رات کے وقت امام بارگاہ انصار المہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ، تہران میں علم دین بھی حاصل کیا کرتے تھے۔
غلام رضا آزادی، 1977-78 کی شاہ مخالف جھڑپوں میں بھی سرگرم رہے۔ امام خمینی کے بیانات و اعلانات کو اپنے جاننے والوں اور کاروباری طبقہ میں تقسیم کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔اسی طرح تہران یونیورسٹی میں طلاب کے قید ہونے جانے کے واقعہ (4، نومبر 1978) میں بھی آپ کئی بار پہلوی حکومت کی جانب سے ہراسانی اور زدکوب کا شکار ہوئے۔
اسلامی تحریک کے عروج کے ساتھ ہی غلام رضا آزادی بھی پہلے سے زیادہ سرگرم عمل ہوگئے۔ وہ فو جیوں کی عوامی تحریک میں شمولیت اور فوجی مراکز کی آزادی کے سلسلے میں بھی سرگرم تھے ۔ بالخصوص قانون نافذ کرنے والے اداروں خاص طور پر پولیس اسٹیشن نمبر 16 پر عوامی قبضے کے لئے کوششوں میں ان کا کردار انتہائی اہم تھا۔
انہوں نے اپریل 1979 میں سپاہ پاسداران انقلاب میں شمولیت اختیار کی۔ جس وقت عراق نے سرحدی علاقوں میں اپنی جارحیت شروع کی تو غلام رضا آزادی کو بھی پاسداران کے ایک گروہ کے ہمراہ خوزستان اور خرمشہر روانہ کر دیا گیا۔ انہوں نے ان لوگوں سے مقابلہ کیا جو ’’خلقِ عرب‘‘ کے نام پر خوزستان کے مختلف علاقوں میں کشیدگی پھیلا رہے تھے۔ غلام رضا، سقوط خرمشہر تک وہیں رہے۔ اس کے بعد وہ تہران واپس آگئے اور جس وقت مئی 1982 میں منافقین [2] نے مسلح جنگ شروع کی تو ایک جھڑپ میں غلام رضا منافقین کے نشانہ بنے اور زخمی ہو کر ایک ماہ تک اسپتال میں زیر علاج رہے۔ صحت یابی کی بعد وہ دوبارہ جنگی علاقوں میں پہنچ گئے اور ہویزہ، بستان اور خرم شہر کے مورچوں پر خدمات انجام دیں۔
1982 میں ہی وہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ایک گروہ کے ہمراہ لبنان چلے گئے ۔ لبنان سے واپسی پر کردستان آئے اور کمانڈنگ سینٹر حمزہ سید الشہداء کے آپریشنز کے شعبہ میں محمد بروجردی (شہادت 1983) کے ہمراہ مصروف عمل ہوگئے۔ جنوبی محاذ پر جنگ میں تیزی آنے کے ساتھ ہی وہ خوزستان چلے گئے اور کافی عرصہ تک حمیدیہ اور سوسن گرد کے محاذوں پر مصروف عمل رہے۔
1982 کی دوسری ششماہی میں جنگی مہارتیں حاصل کرنے کے لئے سپاہ کے پہلے گروہ کے ہمراہ دافوس کالج آف کمانڈ اینڈ آرمی گراؤنڈ فورسز کے ہیڈ کوارٹر[3] میں داخلہ لیا اور 1983 کے اوائل میں اپنی ٹرینگ مکمل کی۔
آپریشن خیبر میں ، حنین کمانڈنگ سینٹر میں منصوبہ بندی اور اس کے آپریشنز کی ذمہ داری غلام رضا کے کاندھوں پر تھی۔ اسی طرح آپریشن محرم اور آپریشن بدر میں غلام رضا کربلا کمانڈنگ سینٹر کے آپریشنز کی منصوبہ بندی پر مامور تھے۔ وہ اپنی اسی ذمہ داری کے ساتھ سلمان کمانڈنگ سینٹر بھیج دیئے گئے جس کا نام بعد میں قدس کمانڈنگ سینٹر رکھ دیا گیا تھا۔ آپ نے والفجر8، کربلا 1، کربلا 4، کربلا 5 اور کربلا 8 آپریشنز میں شرکت کی۔[4]
1987 میں قدس کمانڈنگ سینٹر کے اعلیٰ قیادت کی جانب سے ، سردشت کے علاقہ میں آپ کی خدمات کو سراہتے ہوئے حج کے لئے منتخب کیا گیا۔ ابھی آپ حج کے سفر کے لئے تیار ی میں ہی کمشغول تھے کہ 23، جون 1987 کو نصر 4کے آپریشن والے علاقہ میں ، شہید بروجردی کی چھاؤنی پر عراقی ہوائی جہازوں کی بمباری کی زد میں آکر شہید ہوگئے۔ غلام رضا آزادی کا مرقد ، تہران کے قبرستان گلزار بہشت زہرا سلام اللہ علیہا میں ہے۔
[1] Adjutant
[2] سازمان مجاہدین خلق ایران، ایران میں منافقین کی ایک تنظیم کا نام
[3] بری افواج کے مرکز کی جانب سے قائم کردہ جنگی مہارتوں کا کالج
[4] دفاع مقدس کے انسائیکلو پیڈیا کے ایک مقالہ کی تلخیص، دائرۃ المعارف دفاع مقدس جلد ۱، صفحہ ۱۵۱ اور ۱۵۲، ناشر مرکز دائرۃ المعارف پژوہشگاہ (ریسرچ سینٹر) علوم و معارف دفاع مقدس،م تہران، ۲۰۱۱۔
غلام رضا اآزادی (1961-1987)، دفاع مقدس کے دوران قدس کمانڈنگ سینٹر میں آپریشنز کے ڈپٹی [1]کمانڈرتھے۔
غلام رضا ، 1961 ء میں اصفہان کے شہرضا کے ایک گاؤں جر قویہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد اپنے گھر والوں کے ہمراہ تہران ہجرت کر گئے۔1976-77 کے تعلیمی سال میں اپنی دنیاوی تعلیم کے ہمراہ وہ رات کے وقت امام بارگاہ انصار المہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ، تہران میں علم دین بھی حاصل کیا کرتے تھے۔
غلام رضا آزادی، 1977-78 کی شاہ مخالف جھڑپوں میں بھی سرگرم رہے۔ امام خمینی کے بیانات و اعلانات کو اپنے جاننے والوں اور کاروباری طبقہ میں تقسیم کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔اسی طرح تہران یونیورسٹی میں طلاب کے قید ہونے جانے کے واقعہ (4، نومبر 1978) میں بھی آپ کئی بار پہلوی حکومت کی جانب سے ہراسانی اور زدکوب کا شکار ہوئے۔
اسلامی تحریک کے عروج کے ساتھ ہی غلام رضا آزادی بھی پہلے سے زیادہ سرگرم عمل ہوگئے۔ وہ فو جیوں کی عوامی تحریک میں شمولیت اور فوجی مراکز کی آزادی کے سلسلے میں بھی سرگرم تھے ۔ بالخصوص قانون نافذ کرنے والے اداروں خاص طور پر پولیس اسٹیشن نمبر 16 پر عوامی قبضے کے لئے کوششوں میں ان کا کردار انتہائی اہم تھا۔
انہوں نے اپریل 1979 میں سپاہ پاسداران انقلاب میں شمولیت اختیار کی۔ جس وقت عراق نے سرحدی علاقوں میں اپنی جارحیت شروع کی تو غلام رضا آزادی کو بھی پاسداران کے ایک گروہ کے ہمراہ خوزستان اور خرمشہر روانہ کر دیا گیا۔ انہوں نے ان لوگوں سے مقابلہ کیا جو ’’خلقِ عرب‘‘ کے نام پر خوزستان کے مختلف علاقوں میں کشیدگی پھیلا رہے تھے۔ غلام رضا، سقوط خرمشہر تک وہیں رہے۔ اس کے بعد وہ تہران واپس آگئے اور جس وقت مئی 1982 میں منافقین [2] نے مسلح جنگ شروع کی تو ایک جھڑپ میں غلام رضا منافقین کے نشانہ بنے اور زخمی ہو کر ایک ماہ تک اسپتال میں زیر علاج رہے۔ صحت یابی کی بعد وہ دوبارہ جنگی علاقوں میں پہنچ گئے اور ہویزہ، بستان اور خرم شہر کے مورچوں پر خدمات انجام دیں۔
1982 میں ہی وہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ایک گروہ کے ہمراہ لبنان چلے گئے ۔ لبنان سے واپسی پر کردستان آئے اور کمانڈنگ سینٹر حمزہ سید الشہداء کے آپریشنز کے شعبہ میں محمد بروجردی (شہادت 1983) کے ہمراہ مصروف عمل ہوگئے۔ جنوبی محاذ پر جنگ میں تیزی آنے کے ساتھ ہی وہ خوزستان چلے گئے اور کافی عرصہ تک حمیدیہ اور سوسن گرد کے محاذوں پر مصروف عمل رہے۔
1982 کی دوسری ششماہی میں جنگی مہارتیں حاصل کرنے کے لئے سپاہ کے پہلے گروہ کے ہمراہ دافوس کالج آف کمانڈ اینڈ آرمی گراؤنڈ فورسز کے ہیڈ کوارٹر[3] میں داخلہ لیا اور 1983 کے اوائل میں اپنی ٹرینگ مکمل کی۔
آپریشن خیبر میں ، حنین کمانڈنگ سینٹر میں منصوبہ بندی اور اس کے آپریشنز کی ذمہ داری غلام رضا کے کاندھوں پر تھی۔ اسی طرح آپریشن محرم اور آپریشن بدر میں غلام رضا کربلا کمانڈنگ سینٹر کے آپریشنز کی منصوبہ بندی پر مامور تھے۔ وہ اپنی اسی ذمہ داری کے ساتھ سلمان کمانڈنگ سینٹر بھیج دیئے گئے جس کا نام بعد میں قدس کمانڈنگ سینٹر رکھ دیا گیا تھا۔ آپ نے والفجر8، کربلا 1، کربلا 4، کربلا 5 اور کربلا 8 آپریشنز میں شرکت کی۔[4]
1987 میں قدس کمانڈنگ سینٹر کے اعلیٰ قیادت کی جانب سے ، سردشت کے علاقہ میں آپ کی خدمات کو سراہتے ہوئے حج کے لئے منتخب کیا گیا۔ ابھی آپ حج کے سفر کے لئے تیار ی میں ہی کمشغول تھے کہ 23، جون 1987 کو نصر 4کے آپریشن والے علاقہ میں ، شہید بروجردی کی چھاؤنی پر عراقی ہوائی جہازوں کی بمباری کی زد میں آکر شہید ہوگئے۔ غلام رضا آزادی کا مرقد ، تہران کے قبرستان گلزار بہشت زہرا سلام اللہ علیہا میں ہے۔
[1] Adjutant
[2] سازمان مجاہدین خلق ایران، ایران میں منافقین کی ایک تنظیم کا نام
[3] بری افواج کے مرکز کی جانب سے قائم کردہ جنگی مہارتوں کا کالج
[4] دفاع مقدس کے انسائیکلو پیڈیا کے ایک مقالہ کی تلخیص، دائرۃ المعارف دفاع مقدس جلد ۱، صفحہ ۱۵۱ اور ۱۵۲، ناشر مرکز دائرۃ المعارف پژوہشگاہ (ریسرچ سینٹر) علوم و معارف دفاع مقدس،م تہران، ۲۰۱۱۔