دیدار
زینب احمدی
1 بازدید
فیچرفلم "دیدار" جو کہ محمدرضا ہنرمند نے 1995 میں بنائی، ایک رضاکار فوجی (بسیجی) کی ایک عیسائی لڑکی سے محبت کو بیان کرتی ہے۔
اس فلم کے ڈائریکٹر اور اسکرپٹ رائٹر محمدرضا ہنرمند، سینماٹوگرافر میرداد فخیمی، میوزیشن بابک بیات اور ایڈیٹڑ محمدرضا موئینی ہیں؛ جبکہ اداکاروں میں مینا لاکانی، مهران مدیری، جمشید شاہ محمدی، کیومرث ملک مطیعی، سہراب سلیمی، حسن شیرزاد، داؤد اسدی، ژاله شعاری، اسماعیل بختیاری، حمید عبدالملکی، زہرہ صفوی، عبداللہ ہنردار، آمنہ یزدان مقدم، حمید لولائی، شراره طالبزاده اور دیگر شامل ہیں۔
97 منٹ کی یہ فلم "مہاب فلم" اور اسلامی تبلیغات کے ادارے کے ثقافتی مرکز کے زیرِ انتظام تیار ہوئی اور 18 مارچ 1998 کو ثقافت، بہمن، استقلال، تہران، ارم، پیروزی اور آستارا کے سینما گھروں میں دکھائی گئی۔[1]
ژانت پطروسی (مینا لاکانی)، فوٹوگرافی کی ایک طالبہ، جو پھولوں کی دکان میں پھولوں کی تصاویربنا رہی ہے، کا کیمرہ چوری ہو جاتا ہے۔ امیر (مهران مدیری) – ایک نوجوان اور اس کا باپ ، جن کا اپنا پھولوں کا باغ ہوتاہے اور بازار میں پھول بیچتے ہیں – چور کا پیچھا کرتا ہے اور ژانت کا کیمرہ واپس لے آتا ہے۔ امیر، ژانت کے کیمرے سے بنی ہوئی اپنی اور اپنے والد کی تصاویر لینے کے بہانے، اس عیسائی لڑکی کے پاس پہنچتا ہے۔ رفتہ رفتہ ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھنے لگتا ہے تو امیر، ژانت سے شادی کا پیغام بھیجتا ہے، لیکن ژانت اس مسلمان لڑکے کے پیغام کو قبول نہیں کرتی، اور اس کے والدین بھی اس رشتے کے مخالف ہیں۔ ماتیوس (داؤد اسدی)، ژانت کا بھائی، بطور سپاہی محاذ پر چلا جاتا ہے اور تھوڑے ہی عرصے بعد امیر بھی محاذ کے لیے روانہ ہو جاتا ہے۔ ژانت، جو اب گھر کی واحد اولاد ہونے کی وجہ سے توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے، فضائی بمباری میں اپنے والدین کو کھو دیتی ہے اور ماتیوس کے ساتھ، جو محاذ سے واپس آ چکا ہوتا ہے، ملک کے شمالی علاقے میں اپنی بڑی بہن کے پاس چلی جاتی ہے۔ ماتیوس، جس کا مزاج حساس ہے اور جو اپنے والدین کی موت سے ذہنی صدمے کا شکار ہو چکا ہے، کو فوجی طبی مرکز (ہسپتال) منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ژانت، اپنی بہن کے گھر کی سخت تنہائی میں، امیر کو خط لکھتی ہے اور شادی کے لیے اپنی رضامندی کا اعلان کرتی ہے۔ امیر فوری طور پر چھٹی لے کر شادی کے لیے تہران آتا ہے۔ شادی کے بعد، ژانت کی بڑی بہن اور اس کے شوہر کی مخالفت کے باوجود، امیر محاذ پر واپس چلا جاتا ہے اور جنگی قیدی بنا لیا جاتا ہے۔ آٹھ سال بعد جب امیر واپس آتا ہے، ژانت – جسے اب "گلاب خانم" کہا جاتا ہے – کا ایک نوجوان لڑکا ہے اور اب وہ اپنی پھولوں کی چھوٹی دکان سےبڑی دکان بنا چکی ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ پھول ایکسپورٹ بھی کر رہی ہوتی ہے۔ آخرکار، جب قیدی رہا ہو کر وطن واپس آتے ہیں تو امیر بھی گھر لوٹ آتا ہے اور ژانت، جو اپنے بیٹے کے ساتھ اس کے استقبال کے لیے آئی ہوتی ہے، برسوں بعد کیمرہ اٹھاتی ہے اور باپ اور بیٹے کی ایک ساتھ تصویر کھینچتی ہے۔
یہ فلم پہلی بار فجر کے تیرہویں بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں دکھائی گئی اور "مینا لاکانی" نے "بہترین اداکارہ" کا اعزاز حاصل کیا۔ فلم کو کچھ بارڈر لاینز کراس کرنے کی بنا پر ایک عرصہ تک عوامی نمائش کے لیے پیش نہیں کیا گیا۔
اس فلم کے حامی بھی ہیں اور مخالف بھی۔ کچھ کا خیال ہے کہ فلم کی کہانی کا آغاز مضبوط رہا ہے اور فلم کرداروں کے پیچھے چلنے کے احساس کوناظر پر بخوبی طاری کرتی ہے، کہانی کا تسلسل ناظر کو مناسب رفتار کے ساتھ اور وقت ضائع کیے بغیر اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے۔ اس کہانی میں خاتون کاکردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور مصائب و مشکلات کا سنگین بوجھ اٹھاتا ہے۔ کہانی میں واقعات کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ ناظر واقعات کو ژانت کی نگاہ سے دیکھنے پر مجبور ہے تاکہ وہ اس سے ہم آہنگ رہ سکے۔ اس فلم میں کہانی کے پیچ و خم برتنے کا وقت بہت مناسب رکھا گیا ہے۔ اس فلم کی نمایاں خصوصیت، جو اسے اپنے ہم پلہ دیگر رومانی ڈراموں سے ممتاز کرتی ہے، کرداروں کی تقدیر میں معاشرتی تبدیلیوں کو شامل کرنا ہے۔ ڈائریکٹر اپنے کرداروں کی زندگیوں کو جنگ میں ضم کر دیتا ہے اور خطرے کے سایرن پر بار بار زور دے کر، بمباری کے وقت لوگوں کی گھبراہٹ اور خوف اور ژانت کی بے چینیوں کو دکھا کر معاشرتی مسائل کو ناظر کی آنکھوں کے سامنے لاتا ہے۔ ژانت اور امیر کے محبت بھرےتعلقات کا آغاز بمباری کے دوران، جو ایک خوفناک صورت حال میں دکھایا گیا ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ڈائریکٹر ناظر کو یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ جنگ ان دو عاشقوں کے ما بین وصال میں رکاوٹ بن گئی ہے۔
البته بعض کا خیال ہے کہ کچھ دیگر دلچسپ موضوعات بھی موجود ہیں جو ایک رومانی ڈراما کی بنیاد بن سکتے ہیں اور ایسے موضوعات پر زور دینا جو عوام کے عمومی عقائد سے ٹکراتے ہوں، مناسب نہیں ہوگا۔[2]
دیگر ناقدین کے خیال میں، اس فلم میں ایک مسلمان پھول فروش لڑکے کی ایک عیسائی لڑکی کے ساتھ محبت کو فلم ساز نے موضوع بنایا ہے۔ اگرچہ اس ممنوعہ محبت (مذہبی اختلاف کی وجہ سے) کی کشمکش باکس آفس پر اثرانداز ہوتی ہے لیکن محاذ اور جنگ کے تقدس کو اس ہلکی پھلکی کشمکش سے مجروح کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ فلم ساز نے اس سطحی عشقیہ داستان کو محاذ اور جنگ سے کیوں جوڑا، حالانکہ وہ ایک رومانی فلم میں اس کہانی کو بیان کر سکتا تھا۔ ناقدین کے مطابق، یہ فلم ایک سطحی عشق کی کہانی ہے اور فارسی فلم کی نقل ہے۔[3]
کچھ تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ امیر کا رویہ اس فلم میں سطحی ہے اور واضح نہیں کہ وہ جنگ پر کیوں جاتا ہے؛ ظاہراً محض اس لیے کہ وہ جنگ کے زمانے میں زندگی گزار رہا ہے۔ مثال کے طور پر، جب ژانت، امیر کی منگیتر، اسے خط لکھتی ہے، تو وہ خط موصول ہوتے ہی فوراً محاذ کوچھوڑ کر ژانت کی خاطر واپس آجاتا ہے۔ یہ واپسی اس طرح ہے کہ جنگ میں مردوں کی بہادری اور ان کے استقلال پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔
فلم میں یہ بات بھی عجیب ہے کہ جب امیر محاذ پر ہوتا ہے تو اس کا لباس اور چہرہ مکمل طور پر رضاکاروں (بسیجیوں) جیسا ہوتا ہے لیکن محاذ کے علاوہ اس کا چہرہ اور لباس یکسر مختلف ہوتا ہے جس کی وجہ واضح نہیں ہے۔ رویے میں یہ دوہرا پن ناظر کے ذہن میں ایک بسیجی مجاہد کی سوچ اور عمل میں ناپختگی کو ظاہر کرتی ہے۔[4]
[1] بہارلو، عباس، فیلم شناخت ایران (فیلشناسی سینمای ایران 2004-2011)، تہران، قطرہ، 2011، صفحہ 17
[2] ماہنامہ فرہنگ و سینما، شمارہ 75، سال ہشتم، اپریل 1998، صفحات 24 اور 25
[3] روزنامہ رسالت، شمارہ 2632، 21 جنوری 1995، صفحہ 4
[4] سابق، شمارہ 2630، 5 فروری 1995، صفحہ 4
