دکل

زینب احمدی
10 بازدید

فیچرفلم "دکل" یعنی ٹاور، 1995 میں عبدالحسین برزیده کی بنائی ہوئی فلم تھی اور اس کا موضوع عراقی فوج کے ایک ٹاور کو ایرانی دستوں کے ذریعے تباہ کرنا ہے۔

ہدایت کار اور منظر نویس عبدالحسین برزیده، معاون ہدایت کار حسن نجاریان اور محمدعلی باشہ آہنگر، تصویر کے نگران محمد داودی، عکاس محمد معدنی، سیکرٹری مقام رقیه ہندوانی، ناظم منتخبین منوچہر اسماعیلی، صوت بندی اسحاق خانزادی، خاص اثرات محمدرضا شرف الدین، تدوین کار حسین زندباف، پس منظر کی موسیقی محمدرضا علیقلی، چہرہ سازی کے مصور فرید کشن فلاح، نگران مناظر ماشاء اللہ شاہ مرادی زادہ، ڈریس ڈیزاینر   عبدالحسین برزیده، پرویز شیخ طادی اور محمدمہدی فقیه، عکاس مجید خمسہ اور مہناز نورالہی فرد، پروڈکشن مینیجر ابوالقاسم حسینی، پروڈکشن کنسلٹنٹ محسن علی اکبری، پراجیکٹ مینیجر سعید سعدی اور اداکار محمدرضا ایرانمنش، مہدی قلی پور، نیلوفر محمودی، علیرضا اسحاقی، محمدرضا ثانی، حسن روستائی، شہرام شریفی، جواد معروفی، قاسم حساوی، محمدرضا حدپور سراج، علی میثمی، علی اصغر بہشتی، محمد آہنگر، مجید نوابی، علی غلامی، فاطمہ نیک آزاد، رسول التجائی اور دیگران شامل ہیں۔

یہ 93 منٹ کی فلم  ادارہ رزمندگان اسلام کے ثقافتی اور ہنری ادارے، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ثقافتی مرکز اور دستاویزی اور تجرباتی سینما کے توسیعی مرکز کی پیشکش ہے، جو 12 جون 1996 کو مرکزی، مراد، فلسطین، سروش، آرش، فرخ اور دیگر سینما گھروں میں عوام کے لیے پیش کی گئی اور اس نے 32,784,400 ریال کا بزنس  کیا۔[1]

داستان ان دنوں کی ہے  جب آبادان شہر دشمن کی گولہ باری کی زد میں تھا، چند مقامی نوجوان حمید (محمدرضا ایرانمنش) کی کمان میں دشمن کے ایک جاسوسی ٹاور کو تباہ کرنے کی تیاری کرتے ہیں جو شہر کے اہم اور آباد مراکز کی اطلاعات عراقی فوج کو پہنچا رہا تھا۔ ایسی صورتحال میں جب شہر کے بے یار و مددگار لوگ شہر چھوڑ رہے ہیں، حمید کی بہن زہرا (نیلوفر محمودی) شہر چھوڑنے کی مخالف ہے اور اپنے بھائی کے شانہ بشانہ ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ زہرا زخمیوں کے علاج میں مدد کرتی ہے اور جب حمید کا دوست مہدی (مہدی قلی پور) زہرا کا رشتہ مانگتا ہے تو حمید دشمن سے لڑنا زیادہ اہم سمجھتا ہے۔ عوامی حلقوں کی کوششوں سے ٹاور تباہ ہو جاتا ہے اور زہرا جو زخمی ہو چکی ہے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہسپتال منتقل کر دی جاتی ہے۔ عین اسی وقت امیر بھی ایک اور کارروائی میں حصہ لینے کے لیے محاذ پر روانہ ہو جاتا ہے۔[2]

فلم "دکل" نے دفاع مقدس فلم فیسٹیول کے چھٹے دور میں 5 زمروں میں ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی۔ عبدالحسین برزیده نے بہترین منظر نامے کے ایوارڈ کے لیے، پرویز شیخ طادی اور محمدمہدی فقیہ نے بہترین سین اور ڈریس ڈیزائنر ، حسین زندباف نے بہترین تدوین اور محمدرضا شرف الدین نے بہترین اسپیشل ایفیکٹس کے ایوارڈ کے لیے اندراج کیا۔[3]

ہدایت کار اس فلم کے بنانےکی ایک وجہ اس دور کی نوجوان نسل کی جنگی معاملات میں مشغولیت بتاتے ہیں: "میں خود محسوس کرتا ہوں کہ میری تربیت جنگ کی آغوش میں ہوئی... وہ تمام حقیقی نمونہ ہائے عمل جن میں انسان کی تعریف سما سکتی ہے، مجاہدین میں موجود تھے اور یہی چیز انسان کو اپنی طرف کھینچتی تھی... جنگی فلم بنانے کا محرک میرے اندر جنگ کے انہی ایام میں پیدا ہوا اور یہ کہ ان خوبصورت اور بے مثال تجربات کو آگے منتقل کیا جائے۔ فلم "دکل" کے منظر نامے کا کچھ حصہ میرے اپنے اور جنگ کے چند دیگر مجاہدین کے واقعات پر مبنی ہے"۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فلم میں عراقی دکھائی نہیں دیتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہدایت کار اپنے لوگوں (ایرانی دستوں) کے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا؛ یعنی یہ کہ وہ کیسے لڑتے ہیں اور ایک ایرانی مجاہد کے لیے عراقیوں کا سامنا کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ دشمن جسمانی طور پر موجود نہیں ہے لیکن اس کے اثرات واضح طور پر نظر آتے ہیں، جیسے دشمن کے مسلسل حملوں سے ہونے والی تباہیوں کے آثار۔

فلم کے ہدایت کار کا خیال ہے کہ اگر مثبت کرداروں کی دلکشی کو ان کے باطن کے ساتھ پیش کیا جائے تو یہ اتنا پرکشش ہوتا ہے کہ کہانی خود بخود آگے بڑھنے لگتی ہے۔ جنگی فلم بنانے کے لیے شاید ضروری نہیں کہ ہدایت کار خود محاذ  جنگ کا حصہ رہا ہو، ہاں لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ بہت محنت اور مشقت کرے تاکہ وہ ان تجربات سے آراستہ ہو سکے جو صرف محاذ پر موجود ہونے سےہی حاصل ہوتے ہیں، تاکہ وہ اس فضا اور ان کرداروں کو بہتر طور پر سمجھ سکے اور اس کے حقائق کو دریافت کر سکے اور پیشگی رائے قائم نہ کرے۔ افسوس کہ بعض ہدایت کار،حتی  وہ جو جنگ میں موجود تھے، پیشگی رائے کے ساتھ اس طرح کے معاملے میں رویہ اختیار کرتے ہیں اور ماں سے بھی زیادہ پیار کرنے والی دائی بن جاتے ہیں یعنی دیگ سے زیادہ چمچہ گرم! اور مجاہدین کے لیے ہمدردی اور گریہ و زاری کرتے ہیں اور آخر کار انہیں ذلیل بھی کرتےہیں اور یہ سب ان حقایق سے یکسر مختلف ہے میں نے خود محاذ پر دیکھا ۔[4]

ناقدین کے مطابق فلم "دکل" حیرت انگیز اور انتہائی موثر ہے۔ اس فلم کے ہیرو عام آدمی ہیں اور ان ریمبوؤں کا کوئی نشان نہیں جو تن تنہا لڑتے ہیں اور سارے جنگی علاقوں کو تہس نہس کر دیتے ہیں، بلکہ ان عام مجاہدین کا ایران کے لیے اصلی ہتھیار ان کا ایمان، عقیدہ اور محبت ہے اور اگر وہ اچھی طرح لڑتے ہیں اور نہیں ڈرتے تو یہ ان کے قلبی عقیدے اور مذہبی یقین سے متعلق ہے۔ فلم کے مناظر زیادہ تر ایکشن پر مشتمل ہیں۔ ایک ایسا ایکشن جو شعوری طور پر نقش آفرینی کے لیے آگے بڑھتا ہے۔ فلم میں ہم یہ نہیں دیکھتے کہ دشمن کی خندق یا اڈے یکدم ایرانی دستوں کے ہاتھوں تباہ ہو جائیں۔ ہدایت کار انسانی طاقت کی بات نہیں کرنا چاہتا بلکہ مجاہدین کے ایمان کی طاقت اور اللہ پر بھروسے کو کامیابی کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ ہدایت کار جنگی مناظر میں  ایمان کی تاثیرکو اس طرح پیش کرتا ہے کہ اس فتح کی اصل وجہ ایمان ہی نظر آئے۔ اس فلم کے اداکار صرف اداکاری نہیں کرتے بلکہ اپنے کرداروں میں جیتے ہیں اور اسی وجہ سے ناظرین ان پر یقین کرتے ہیں۔[5]

بعض دیگر تجزیہ نگاروں کا اس فلم کے بارے میں مختلف خیال ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ہدایت کار جنگ سے ہٹ کر ایک مختلف فضا دکھانے کی کوشش کر رہا ہے اور خاص اثرات اور رات کے وقت فائرنگ اور گولہ باری کی تصاویر دکھا کر پرجوش مناظر تخلیق کرنا چاہتا ہے، لیکن ایک مختلف فضا کی تعمیر بصری اثرات کی نمائش کے مرہون منت نہیں ہے، بلکہ وہ چیز جو اس فضا کو گہرائی اور سنجیدگی فراہم کر سکتی ہے وہ ان بصری اثرات کا ایسے مناظر میں موجود احساس کے ساتھ منطقی امتزاج ہے۔ بہر حال بنیادی کہانی اور منظر نامے کا خاکہ جنگی فلموں کے بہت سے دہرائے جانے والے اور ایک جیسے بیانیوں کے مقابلے میں نیا اور پرکشش ہے۔ ہدایت کار خود آبادان کا رہنے والا ہے اور اس مقام کو اچھی طرح جانتا ہے اور جنگ کی تباہی کے مناظر کے انتخاب میں معقول اور بروقت عمل کیا ہے اور اپنی فلم کے مقامی حالات کو حقیقی اور دستاویزاتی انداز کے قریب کیا ہے تاکہ فلم کے مفید و موثر ہونے کا امتیاز حاصل کر سکے۔

بعض ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس فلم کا ردھم طویل اور بے کشش ہے اور وہ سنیما کی صنف میں پورا نہیں اترتی اور ظرف و مظروف کے تناسب کی ضرورت کے پیش نظر اگر ایک درمیانی دورانیے کی ٹیلی ویژن سیریز کے طور پر پیش کی جاتی تو زیادہ پرکشش ہوتی۔[6]

 

[1] سالنامه آماری فروش فیلم و سینمای ایران، خزاں 2017، ص 8

[2] بہارلو، عباس، فیلمشناخت ایران- فیلم‌شناسی سینمای ایران (1994-2003)، تہران، قطره، 2011، ص 71 اور 72

[3] https://www.manzoom.ir/

[4] روزنامه رسالت، ش 3013، 17 جون 1996، ص 3

[5]  روزنامه رسالت، ش 3024، ہفتہ 29 جون 1996، ص 3

[6] فراستی، مسعود، فرهنگ فیلم‌های جنگ و دفاع ایران، تہران، ساقی، 2013، ص 130-133