دیوار ہای بغداد

بهناز باقرپور
1 بازدید

"دیوارهای بغداد" عراق کی جانب سے  ایران پرمسلط کردہ جنگ کے دوران ایرانی اسیروں کی جانب سے جواد محمدپور کی اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی یادداشتوں پر مشتمل کتاب کا نام ہے۔

یہ کتاب دو جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں جواد محمدپور کی جنوری 1982 سے لے کر جولائی 1990 تک کی اسیری کے دوران کی یادداشتیں قلمبند ہیں۔محمدپور جیل میں سگریٹ کے ان  باریک کاغذوں سے نوٹ بک تیار کرتے تھے جنہیں "لف" کہا جاتا ہے[1] اور اپنی یادداشتیں اس پر تحریر کیا کرتے تھے۔[2] انہوں نے پہلی جلد میں اپنی اسیری کی یادداشتیں 11 عناوین کے تحت 48 صفحات میں بیان کی ہیں۔ پہلی جلد کے "مصنف کی یادداشت" میں انہوں نے امید ظاہر کی تھی کہ "اپنی روازانہ کی ڈائریاں دوسری جلد میں آپ تک پہنچاوں گا"[3] اور دوسری جلد  اسی وعدے کی تکمیل ہے۔ یہ جلد قید کے دوران ان کی یومیہ ڈائری پر مشتمل ہے جس میں بیان کیے گئے انداز کے فرق کی وجہ سے صفحات کی تعداد پہلی جلد سے زیادہ ہے۔ ان دو جلدوں میں یادداشتوں کے بیان کے دو مختلف اسالیب کے استعمال کی وجہ سے ہر جلد دوسری سے الگ اور مستقل محسوس ہوتی ہے۔

"دیوارهای بغداد" کی پہلی جلد 1992 میں 78 صفحات پر مشتمل، رقعی سائز میں، نرم جلد کے ساتھ، 260 ریال قیمت اور 6600 کاپیوں کی اشاعت کے ساتھ حوزہ هنری کی جانب سے شائع ہوئی۔ کتاب کے سرورق پر  کانٹے دار تاروں کے پیچھے کھڑے ایک شخص کی تصویر ہے۔ سرورق کا رنگ جامنی اور نارنجی کا مرکب ہے۔ عنوان سبز رنگ میں سرورق کے اوپر دائیں جانب عمودی طور پر لکھا گیا ہے۔ کتاب کے آغاز میں اصل متن سے پہلے بالترتیب عنوان کا صفحہ، تعارفی صفحہ، تقدیم کا صفحہ اور مصنف کی یادداشت جو خزاں 1991 کی ہے، موجود ہیں۔ کتاب کے متن کو یادداشتوں کے عناوین کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا ہے۔ یادداشتوں کے عناوین کچھ اس طرح سے ہیں: سال 60، گیلان غرب (دسمبر 1981 میں اسارت کے وقت کی یادداشت)؛ سال 63، کیمپ (عراقیوں کی جانب سے کسی نامعلوم مقام پر عقوبت خانے میں اذیت دیے جانے کی یادداشت)؛ سنگ صبور (سید علی اکبر ابوترابی کی کیمپ میں موجودگی کی یادداشت)؛ رسالہ اسرا (شرعی سوالات کے حل کی کوشش کی یادداشت)؛ باتلاق (موصل-1 کیمپ سے دو قیدیوں اور ایک عراقی سپاہی کے فرار کی یادداشت)؛ زیارت کربلا و نجف (جنوری 1989 میں قیدیوں کی زیارت کی یادداشت)؛ خورد و خوراک ما (قید میں خوراک کے معیار و مقدار کی یادداشت)؛ تشکیلات داخلی اسرا (مختلف سرگرمیوں کے انعقاد کی منصوبہ بندی کی یادداشت)؛ رادیو (ریڈیو حاصل کرنے اور اسے محفوظ رکھنے کی یادداشت)؛ ورزش در اسارت (محافظوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہ کر  انفرادی  اوراجتماعی ورزشوں کی یادداشت)؛ آزادی (19 اگست 1990 کو آزادی کے لمحات کی یادداشت)۔ کتاب کے آخر میں دو ضمیمے (خطوط) اور تصاویر کے عنوانات شامل ہیں۔

دوسری جلد 1993 میں 176 صفحات میں شائع ہوئی۔ دوسری جلد کا سرورق پہلی جلد سے ملتا جلتا ہے لیکن اس کا رنگ سبز اور نارنجی کا مرکب ہے۔ عنوان اور تعارفی صفحے کے بعد یادداشتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا، محمدپور نے اپنی یادداشتیں یومیہ ڈائری کی شکل میں ترتیب دی ہیں۔ یادداشتوں کا دورانیہ 11 دسمبر 1981 (یوم اسیری) سے لے کر 19 اگست 1990 (یوم آزادی) تک ہے۔ کتاب کے آخری صفحے پر "لف" سے بنی ڈائریوں کی تصویر دکھائی گئی ہے۔

ان یادداشتوں سے قیدیوں کے ساتھ عراقی فوجیوں کے سلوک کے طریقے، قیدیوں کے مختلف طریقوسے  سہولیات حاصل کرنے اور انہیں محفوظ رکھنے کی کوششیں، محدود سہولیات کے استعمال میں قیدیوں کی تخلیقی صلاحیت، کیمپ میں قومی و مذہبی تقاریب اور جشنوں کے انعقاد کی کوششیں وغیرہ کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر "رادیو"[4] کی یادداشت میں موصل-1 کیمپ کے گوداموں میں قیدیوں کی جانب سے لگائی جانے والی آگ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ اس کارنامے کے ذریعے قیدی آگ بجھانے کے بہانے گودام سے متعدد اشیاء بشمول 8 ریڈیو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ "تشکیلات داخلی اسرا"[5] کی یادداشت میں مذہبی تقریبات، ثقافتی پروگراموں کے انعقاد یا صفائی کے انچارج اور بیرک کے انچارج کے انتخاب کا ذکر ہے جو کسی حد تک عراقیوں اور قیدیوں کے درمیان رابطے کا کام کرتا تھا۔ یہ یادداشت قیدیوں کی کیمپ میں نظم و ضبط قائم کرنے اور قید کی زندگی کو برداشت کرنے کی کوششوں کی عکاسی کرتی ہے۔ بعض یادداشتیں راوی کی باریک بینی اور ذوق کی غماز ہیں، جیسے 8 جولائی 1985 کی یومیہ یادداشت: "...تمام ساتھیوں نے اپنے پیلے کپڑے پہن رکھے تھے...کیمپ کے درودیوار پیلے رنگ کا روپ دھارے ہوئے تھے...آندھی چلی اور پیلے رنگ کی دھول نے سارے کیمپ کو گھیر لیا...ہم ناشتے کی میز پر پہنچے تاکہ اپنی روزمرہ کی دیسی حلیم (آش) کھا سکیں...حلیم (آش) نے بھی اپنے پیلے لباس میں خود کو آراستہ کر رکھا تھا...باورچیوں نے ٹماٹر کا پیسٹ ختم ہونے کی وجہ سے حلیم (آش) میں ہلدی ڈال دی تھی..."۔[6]

قیدیوں کے خوش رہنے کے پروگرام بھی اس کتاب کی یادداشتوں کا حصہ ہیں، جیسے 29 ستمبر 1988 کی یادداشت: "ہاشم کی سالگرہ کا جشن تھا...ایک دو ساتھیوں نے باغیچے کے پاس سے ایک مینڈک پکڑا اور اسے  ایک ڈبے میں پیک کر دیا...کچھ لوگوں نے خفیہ طور پر ہاشم کو تحفہ دینے کی غرض سے اسی  کے کپڑے اس کے بیگ سے نکال لیے...ہاشم نے اپنے حصے کی چینی سے میٹھا بنایا...ایک ساتھی نے تحائف کھولنا شروع کیے۔ ہر تحفہ ہاشم کو دیتے وقت ہاشم حیرت سے کہتا: ارے یہ تو میری قمیض جیسا ہے...آخری تحفہ جب کھولا گیا تو سب قہقہے مار کر ہنس پڑے۔"[7]

"دیوارهای بغداد"، حوزہ هنری کے دفتر ادبیات و هنر مقاومت کی جانب سےرہا ہونے والے قیدیوں کی یادداشتوں کی سلسلہ وار کتابوں میں چودہویں کتاب ہے۔ یہ کتاب دوبارہ شائع نہیں ہوئی۔[8] دوسری جلد کی یادداشتوں کے چند صفحات ماہانہ  مجلے "انشاء و نویسندگی" میں نومبر 2012 میں شائع ہوئے۔[9]

 

[1] یہ باریک اور چھوٹے کاغذ جن کا سائز 4x7 سینٹی میٹر تھا، ایرانی قیدیوں کو سگریٹ کا تمباکو لپیٹنے کے لیے دیے جاتے تھے۔ اسے "سیگار پیچی" بھی کہا جاتا تھا (محمدپور، جواد، دیوارهای بغداد، ج1، تہران: سازمان تبلیغات اسلامی، حوزہ هنری، 1992، ص7)

[2] محمدپور، جواد، دیوارهای بغداد، ج2، تہران: سازمان تبلیغات اسلامی، حوزہ هنری، 1993، ص175

[3] جواد محمدپور نے دوسری جلد کے آخر میں بیان کیا ہے کہ وہ قید کے دوران متعلقہ دن کی تاریخ درج کر کے یادداشتیں لکھا کرتے تھے۔

[4] محمدپور، جواد،سابق، ج1، ص51

[5]  سابق ، ص45

[6] محمدپور، جواد، سابق ، ج2، ص115 و 116

[7] سابق ، ص142

[8] قومی لائبریری، خانہ کتاب اور سورہ مہر کی سائٹ جیسے ڈیٹا بیس میں تلاش کرنے کے باوجود کتاب کے دوبارہ شائع ہونے کے بارے میں کوئی معلومات نہیں مل سکیں

[9] انشاء و نویسندگی، پیاپی 25، نومبر 2012، ص115-112