دیار عاشقان
زینب احمدی
1 بازدید
فلم "دیار عاشقان" یا عاشقوں کا دیار،حسن کاربخش نے 1983 میں بنائی تھی اور اس کا موضوع انسانوں پر ماحول کی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی روحانی تبدیلیوں کو پیش کرنا ہے۔
اس فلم کے ڈائریکٹر اور اسکرپٹ رائٹر حسن کاربخش ، کیمرہ مین مسعود صدیق ، سیٹ ڈیزائنر منصور حاجیان ، میوزک انچارج ایرج ناظریان ، ساونڈ ایفیکٹس محمد رضا دل پاک اور محمد ویسیان، اسپیشل ایفیکٹس ناصر محمدیان، ایڈیٹر صمد تواضعی، اور بیک گراونڈ میوزک کامبیز روشن روان نے ترتیب دیا ہے، لیبارٹری وزارت ثقافت و ارشاد اسلامی کی ہے، شاعری پرویز بیگی حبیب آبادی کی ہے اور اداکاروں میں محسن صادقی نسب، پرویز پرستویی، قدرت الله لطیفی، جلال عزیزی مشفق، علی دائی، منصورہ جوہری، بہزاد کلہر، شمسی کاظمی، علی اصغر دمیرچی، بہرام محمدی، احمد رضا اکبری، الیزا جوہری، ناصر محمدیان اور دیگر شامل ہیں۔
یہ 103 منٹ کی فلم وزارت ثقافت و ارشاد اسلامی کے سینمائی امور اور انقلاب اسلامی کے دہہ فجر کے انعقاد کے ہیڈ کوارٹر کی پیشکش ہے جو 13 فروری 1985 کو سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔
علی (محسن صادقی نسب) جو ایک ریزرو فوجی ہے، کومحاذ پر بلا لیا جاتا ہے۔چونکہ وہ ناز و نعم میں پلا ہوتا ہے اس لیے محاذ جنگ پر جانے سے کتراتا ہے، دن بھر محاذ کے باورچی خانے میں کام میں مصروف رہتا ہے یہاں تک کہ اس کی ملاقات اپنے پرانے بسیجی دوست مجتبیٰ (پرویز پرستویی) سے ہوتی ہے ۔ طویل عرصے بعدعلی اور مجتبیٰ ملاقات اور پھر مجتبیٰ کی شہادت، علی میں ایک بڑی تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔[1]
"دیار عاشقان" حسن کاربخش کی پہلی طویل فلم ہے اور یہ انسانوں پر ماحول کی تبدیلی کے اثرات سے ہونے والی روحانی تبدیلی کی داستان ہے۔ وہ نوجوان جو فلم کے آغاز میں من موجی دکھائی دیتا ہےاور روزمرہ کی عام زندگی میں مصروف ہے، محاذ پر ایسے افراد سے روبرو ہوتا ہے جن کی زندگی کے مقاصد کچھ اور ہیں۔ حملہ آور غیرملکی دشمن کی حقیقت کو سمجھنے کے بعد، وہ باورچی خانے (محاذ پر اپنے کام کی جگہ) سے نکلتا ہے اور یہ خبر سن کر وہ آرام و آسایش والا ماضی بھول جاتا ہے۔ فلم کا مرکزی خیال اس نوجوان کے ساتھی مجاہد کی شہادت والے لمحے پر مبنی ہے جو اس میں انقلاب برپا کردیتا ہے اور اب وہ خود کو وطن کے محافظ کے عنوان سے دیکھتا ہے فلم کے آخری حصوں میں یہ نوجوان محاذ جنگ پر موجود قبائل کے قریب پہنچتا ہے اور ان سے دوستی کر لیتا ہے جو اس میں تبدیلی اور اس کے پر سکون ماضی کی زندگی سے علیحدگی کا آغاز ہے۔ اس نوجوان کی تبدیلی کی داستان آہستہ اور بتدریج پیش کی گئی ہے اور تبدیلی کی یہی سست رفتار اس عمل کو ناظرین کے لیے قابل قبول بنا دیتی ہے۔[2]
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اگرچہ محاذ جنگ پر روحانی تبدیلی ایک حقیقی اور مالا مال موضوع ہے، لیکن اس فلم میں اسے کمزور اور بے ربط پیش کیا گیا ہے اور اس پر ٹھوس انداز سےکام نہیں ہوا ہے۔[3]
دیگر ناقدین کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ پہلی جنگی فلم ہے جس میں جنگ کے علاوہ جنگ میں شامل ہونے والے افراد کی اندرونی کیفیات پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ اس فلم کی دلکشی کی ایک وجہ اس کے فلم ساز کا خلوص اور سادہ انداز بیان ہے۔ البتہ اس فلم کا موضوع کچھ کمزور ہے اور فلم ساز مرکزی کردار کی روحانی تشکیل نو کو مربوط طریقے سے پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کے باوجود، مناسب مکالموں، حرکات و سکنات اور فلم کی موسیقی کے استعمال نے کسی حد تک ان کمزوریوں کو دور کر دیا ہے۔ چونکہ فلم کا موضوع دو افراد (مرکزی اداکاروں) کے جذباتی تعلقات پر مبنی ہے، اس لیے اس نے محاذ جنگ کی بہت سی واضح اور ناقابل انکار حقایق کو پس منظر میں ڈال دیا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کوشش کی گئی ہے کہ ایک مقصد (اسلام کے دفاع) کے لیے تمام عوامی اتحاد کو دکھایا جائے۔ فلم دیکھتے ہوئے ناظر کی توجہ فلم کے ان دو مرکزی کرداروں پر مرکوز رہتی ہے اور مجتبیٰ کی شہادت کے بعد وہ نمائش کو ختم سمجھتا ہے، حالانکہ فلم کی نمائش اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک کہ علی اسلام اور کربلا کے عاشق مجاہدین کے جھرمٹ میں شامل ہو کر محاذ جنگ کی طرف نہیں نکل جاتا۔ ایسی صورت حال اور اس داستان میں عدم تسلسل کی وجہ سے ناظر فلم کو ادھورا چھوڑ دیتا ہے۔ اسی وجہ سے فلم کا آخری حصہ جو مجتبیٰ کی شہادت کے بعد شروع ہوتا ہے اور جس میں علی کی اندرونی تبدیلی کا اہم پیام ہے، بہت سے ناظرین کے لیے غیر ضروری اور غیر واضح محسوس ہوتا ہے۔
مجتبیٰ کی شہادت کے بعد، علی جو مجتبیٰ اور دیگر مجاہدین کی شخصیات سے متاثر ہوا ہے، اپنے دوست کی ایک یاد اور محاذ جنگ پر غیبی پیغامات کو یاد کرتا ہے۔ مجتبیٰ اپنی شہادت سے پہلے ایک پرندہ پاتا ہے جس کے پنجے میں کاغذ کا ایک ٹکڑا بندھا ہوا ہے۔ وہ پرندے کو پکڑتا ہے اور کاغذ پر دو الفاظ "مسافر کربلا" پڑھتا ہے جن کا مطلب ہے کہ وہ عنقریب شہید ہو جائےگا۔ یہ واقعہ اور محاذ جنگ کی
روحانی فضا میں دیگر پر معنی الہام، علی میں شہادت کی خواہش پیدا کرنے میں مؤثر ثابت ہوتے ہیں اور بالآخر وہ دیگر مجاہدین کے ساتھ محاذ جنگ کی طرف چل پڑتا ہے۔ البتہ بعض ناظرین شاید اس تبدیلی کو نہ سمجھ سکیں اور اسے غیر ضروری قرار دیں؛ صرف وہ ناظرین ہی اس حصے کو سمجھ پاتے ہیں جو خود قربانی اور شہادت کی خواہش کے تصور سے واقف ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود یہ فلم ناظر پر شہادت کی خواہش اور قربانی کے جذبے کو مؤثر طریقے سے منتقل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ ان تمام باتوں کو اداکاروں کے بہترین کردار ادا کرنے اور ان کے مناسب مکالموں نے مزید مکمل کر دیا ہے۔
اس فلم نے نعروں پر مبنی پروپیگنڈے سے پرہیز کرتے ہوئے شہادت کی ثقافت کی ترویج کے فرائض کو بخوبی انجام دیا ہے۔[4]
[1] بہار لو، عباس، فلیمشناخت ایران 1979-1993، تہران، قطرہ، 2004، صفحہ 44
[2] اخبار اطلاعات، شمارہ 17231، 13 فروری 1984، صفحہ 18
[3] اخبار کیہان، شمارہ 12085، 8 فروری 1984، صفحہ 3
[4] امید، جمال، تاریخ سینمای ایران 1979-1990، تہران، روزنہ، 2004، صفحات 174 اور 175
