در کوچہ ہای عشق
زینب احمدی
8 بازدید
در کوچہ ہای عشق" یعنی عشق کی گلیوں میں، خسرو سینائی کی تخلیق کردہ فلم ہے جو 1990 میں ریلیز ہوئی۔ اس کا موضوع آبادان کایک نوجوان ہے جو عراق کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کے بعد اپنے والد کے ہمراہ اپنے شہر آبادان واپس آتا ہے۔
اس فلم کے ہدایت کار، پروڈیوسر، منظر نویس اور موسیقار خسرو سینائی ہیں۔ معاون ہدایت کار بہرام عظیمپور اور حمید فرخنژاد ہیں، جبکہ منظرنامہ محمد خدادادی اور بهروز صمد مطلق کے یادداشتوں پر مبنی ہے۔ عکس بند علی لقمانی، صدا بردار محمدعلی عبیری اور موسیقی خوزستان کی مقامی موسیقی سے ماخوذ ہے۔ موسیقی کی ریکارڈنگ اسٹوڈیو بل میں ہوئی۔ معاون عکس بردار فریدون شیردل اور محمود ثانی، پروڈکشن مینیجر قاسم قلیپور اور پوسٹر ڈیزائنر ابراہیم حقیقی ہیں۔ اداکاروں میں مہدی احمدی، یوسف جوکار، بہرام زندی، محمدابراہیم جعفری، حمید فرخنژاد، علی گلہدری، بہناز رودانی، لوون خانکدیان، رضا پژوهی، فرہاد فرخنژاد اور ترانہ اصولی اور دیگر شامل ہیں۔
یہ 82 منٹ کی فلم تجرباتی اور نیم پیشہ ورانہ سینما کے مرکز، وزارت ثقافت و اسلامی ارشاد کی پیشکش ہے، جو 17 جون 1992 کو سینما شہر قصہ، عصر جدید اور کرسٹل میں نمائش کے لیے پیش کی گئی اور اس نے 4,738,040 ریال کی کمائی کی۔[1] چوتھے مقدس دفاع فلم فیسٹیول میں اس فلم نے بہترین ہدایت کار کا اعزاز حاصل کیا اور کئی بین الاقوامی فلمی فیسٹیولزمیں بھی اس کی نمائش ہوئی۔
آبادان کا ایک نوجوان (مہدی احمدی) عراق کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کے خاتمے کے بعد اپنے والد کے ساتھ آبادان واپس آتا ہے تاکہ اپنے جزوی طور پر تباہ شدہ گھر کی سر نوتعمیر کرسکے۔ شہر کی ویرانی اس نوجوان کو مستقل طور پر رہنے کے بارے میں متذبذب بناتی ہے۔ جس دوران اس کا باپ گھر کی مرمت میں مصروف ہوتا ہے، وہ شہر کے سنسان گلی کوچوں، دریائے کارون کے کنارے اور سینما گھروں کےآس پاس پھرتا ہے اور اپنے بچپن کے دوستوں، کھیلوں اور معصوم محبت کی یادیں تازہ کرتا ہے۔ شہر میں جنگ کے سخت دور میں ڈٹے رہنے والے بزرگوں سے ملاقات اور دوسرے شہروں میں اپنے ہم وطنوں کی رسوائیوں کو یاد کرنے کے بعد وہ یہاں رہنے کے بارے میں زیادہ پرعزم ہوجاتا ہے۔[2]
یہ فلم آبادان کے ایک مہاجر نوجوان کے یادداشتوں پر مبنی ہے اور اس کی داستان ہے جو جنگ کے خاتمے کے بعد تہران میں رہنے یا اپنے شہر واپس جانے کے درمیان تذبذب کا شکار ہے۔[3]
مرتضی آوینی (شہید) نے اس فلم کا نام "کوچہ ھای ھوسبازی" قرار دیا اور لکھا کہ جو لوگ آسمان کی طرف رجوع کرتے ہیں، ان کے مقابلے میں کچھ لوگ زمین اور اس کی مادی لذتوں کی طرف بلاتے ہیں۔ اس فلم کے بنانے والے دنیا پرست ہیں جنہوں نے تاریخ کی تحریف کا راستہ اختیار کیا ہے۔ ہمارے اپنے ٹیلی ویژن پر آبادان کے بارے میں دستاویزی فلمیں بنی ہیں جنہوں نے تجربہ پسندی اور جدیت کا دعویٰ نہیں کیا، اسی لیے دانشوروں نے انہیں سراہا نہیں، لیکن یہ فلم اپنے تمام تر تجربہ پسندی کے دعووں کے باوجود جنگ کے دوران آبادان کی حقیقت کو پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ فلم کی تکنیکی استعداد ابتدائی اور کمزور ہے اور اس کمزور تکنیک کے ساتھ ساتھ آبادان کے بارے میں اس کا متن بھی کمزور ہے۔ آبادان وہ شہر ہے جہاں میں خود جنگ کے سالوں میں رہا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ جنگ کے ان دنوں میں اس شہر کی فضا کتنی روحانی اور آسمانی تھی۔ وہ مجاہدین جو آبادان میں دشمن سے ٹکرانے آئے تھے، نہ جوانی کے جذبات کی نمایش کے لیے آئے تھے اور نہ ہی اس کے فٹبال اور سینما کی وجہ سے، بلکہ ان کا مقصد دنیا سے آزادی اور شہادت کی تمنا تھا۔ آوینی کے نزدیک اس فلم کے ہدایت کار نے آبادان کی تاریخ کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔
بعض ماہرین کے خیال میں یہ کہانی جنگ کے دوران آبادان کی منفی عکاسی ہے اور اسی وجہ سے یہ بین الاقوامی فلمی میلے میں پسند کی گئی اور انہوں نے اسے اپنے میلے میں نمائش کے لیے قبول کیا۔[4]
[1] ایرانی سینما اور فلم کی مالیاتی سالانہ رپورٹ 1991، خزاں 2016، صفحہ 13
[2] عباس بہارلو، فیلم شناخت ایران – فیلم شناسی سینمای ایران (1993-1979)، تہران، قطرہ، 2004، صفحہ 240
[3] ماہنامہ فلم، شمارہ 102، نواں سال، جنوری 1991، صفحہ 14
[4] مسعود فراستی، فرھنگ فیلم ھای جنگ و دفاع ایران (2012-1980)، تہران، ساقی، 2013، صفحہ 128
