آخرین شناسائی
زینب احمدی
1 بازدید
فلم "آخرین شناسایی" 1993ء میں علی شاہ حاتمی نے بنائی جس کا موضوع ایک ماہر ٹیم کے ذریعے میدان جنگ سے بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانا ہے۔
اس فلم کے ڈائریکٹر علی شاہ حاتمی، اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمدرضا فرزین، مہدی جعفری اور شاہپور عظیمی، حمیدعلی فارسی کے ایک خاکے پر مبنی اسکرپٹ رائٹنگ بہزاد بہزادپور اور علی شاہ حاتمی ، سینماٹوگرافی محمدتقی پاک سیما، کیمرہ مین محمد ابراہیمیان، محسن غنیمی جابر ،اسسٹنٹس علی رضا نوین نژاد اور روح اللہ جعفر بیگلو، اسپشل ایفیکٹس محسن روزبهانی، ایڈیٹر بہزاد بہزادپور، میوزیک فریبرز لاچینی، فوٹوگرافی محمد احمدی، لینڈ اسکیپ پینٹر مشاء اللہ شاہ مرادی، مینیجر مجتبی فرآوردہ ہیں اور یہ فلم "حوزہ هنری سازمان تبلیغات اسلامی اور مرکز گسترش سینمای تجربی و نیمه حرفه ای"کی پیشکش ہے۔ یہ فلم 17 اگست 1994ء کو سینما قدس، سایہ، وینس، تہران، توسکا، جمہوری، ستارہ، سپیدہ اور دیگر سینما گھروں میں دکھائی گئی۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانےوالی ایک ماہر ٹیم کو دو راستوں کو صاف کرنے کا مشن سونپا جاتا ہے جہاں دشمن نے بارودی سرنگیں دبائی تھیں۔ اس کارروائی کے دوران دشمن کی جانب سے فائرنگ کی زد میں آکر پوری ٹیم شہید ہو جاتی ہے اورصرف دو افراد سید (فرزین اژدری) اور حسین (پیمان شریعتی) جو زخمی ہو چکے ہیں، اپنے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ بارودی سرنگوں کے نیچے سے گزرنے کے لیے سرنگ کھودتے ہیں اور دشمن کے ٹھکانے تک پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے کمانڈر (غلامرضا علی اکبری) جو سید اور حسین کے حوالے سے فکر مند ہیں، کارروائی کو ملتوی کر دیتے ہیں۔ سید اور حسین کو پتہ چلتا ہے کہ عراقی فوجی ساز و سامان ان کے تصور سے کہیں زیادہ ہے اور وہ یہ معلومات اپنے دستوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن جس لمحے حسین دشمن کے اڈوں اور ساز و سامان کی پوزیشن رپورٹ کر رہا ہوتا ہے، عراقیوں کو ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے ان کی چھپی ہوئی جگہ کا پتہ چل جاتا ہے اور وہ ان کا رابطہ منقطع کر دیتے ہیں۔ سید زخمی حالت میں موٹر سائیکل پر سوار ہوکر ہیلی کاپٹر کو اپنے تعاقب پر لگا لیتا ہے اور دشمن کو حسین سے دور لے جاتا ہے۔ جب حسین اپنی معلومات کمانڈر کو پہنچا رہا ہوتا ہے تو اس دوران سید زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو جاتا ہے اور پھر اس کے ساتھ ہی عراقیوں کے ہیڈ کوارٹر پر گولہ باری شروع ہو جاتی ہے۔[1]
یہ فلم شہید حسین سوری کی یادداشتوں سے ماخوذ ہے جو "دفتری از آسمان" نامی کتاب میں موجود ہیں۔[2]
اس فلم کو 1994ء میں 676,813 ناظرین نے دیکھا اوراس نے 372,462,250 ریال کابزنس کیا۔[3]
فلم "آخرین شناسایی" مجموعی طور پر ایک ہی ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی؛ پیمان شریعتی اس فلم میں بہترین معاون اداکار کے ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئے۔[4]
بعض تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ فلم شاید بہترین جنگی فلموں میں سے ایک تھی جو بارہویں فجر فلم فیسٹیول میں دکھائی گئی اور اگرچہ اس میں کچھ خامیاں ہیں لیکن یہ ایک ایسی فلم ہے جو ناظرین کو بور کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ اس فلم کی خوبیوں میں اداکاروں کی بہترین پرفارمنس، مضبوط اسکرین پلے جس میں فوجیوں کے جذبے، عشق، ایمان اور قربانی کے عناصر کو خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے، شامل ہیں۔ یہ فلم خاص اثرات اور پرتشدد مناظر کے ذریعے جنگ کو بناوٹی انداز میں پیش نہیں کرتی؛ بلکہ ان عناصر کی مدد سے وہ جنگ کے دوران موجود حقیقی حماسوں کو ناظر کے لیے قابل فہم بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اس قسم کی فلمیں ایران کے جنگی سینما کو مالا مال کردیں گی۔[5]
جب علی شاہ حاتمی سے ایک انٹرویو میں اس فلم کو بنانے کے مقصد کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا: "میں بسیجی کے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا، لیکن زبان قاصر ہے اور قلم عاجز۔ جنگ کے دوران کے بسیجی کا کردار ایک خیالی اور تصوری ہیرو جتنا تھا... اور جنگ کے بعد ہماری فلموں میں بسیجی ذلیل، عاشق اور دلال بن گئے ہیں۔ فلم ساز افرادی قوت کی کمی، احساس محرومی اور ذلت کو فلموں میں بسیجی کے کردار میں ڈھال دیتا ہے اور وہ باتیں جو کسی دوسرے انداز میں کہنے کی جرات نہیں رکھتا بسیجی کی زبان سے کہہ دیا کرتا ہے تاکہ اس پر کسی چیز کا الزام نہ لگے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نےبسیجی کو ایک بے لگام فرد اور گلی کوچوں کے آوارہ اور شکستہ دل عاشق کے انداز میں پیش کیا۔ اگر کوئی درد تھا تو وہ فلم ساز کا اپنا درد تھا؛ اس کی شہرت کا درد تھا نہ کہ بسیجی کا..."[6]
تجزیہ نگاروں کے خیال میں تقریباً پوری فلم کا کوئی بھی حصہ جوش و تجسس سے خالی نہیں ہے۔ ایکشنز،اشعار اور کرداروں کی حرکات و سکنات فوجیوں کی بلند ہمتی اور حوصلے کو پیش کرتی ہیں ۔ مناظر کی کارکردگی اور حرکات و سکنات کی رنگ آمیزی ناظر پرقریب الوقوع واقعہ کے انتظار اور احساس کی کیفیت طاری کرتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کم ترین منظر بارودی سرنگوں کے میدان اور صفائی کی کارروائی سے متعلق ہے۔ دشمن کے محافظ کو پہاڑ کی چوٹی پر تعینات کرنا، اس کی شناخت اورگرفتاری کی کارروائی، دو فوجیوں کا دشمن کے ٹھکانے میں داخل ہونا اور دشمن کو اپنے اجنبی نہ ہونے کا احساس دلانا اور ضرورت سے زیادہ وضاحت سے پرہز... یہ سب اس فلم کے امتیازات میں شمار ہوتے ہیں جو اسکرپٹ رائٹر اور ڈائریکٹر کے مرہون منت ہیں۔ یہ فلم، "سجاده آتش" اور "حماسه مجنون" نامی فلموں کے ساتھ مل کر جنگی سنیما میں سنجیدہ اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں کا آغاز ہیں۔[7]
بعض ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس فلم کا سب سے اہم اور کامیاب حصہ سید اور حسین کے واقعات ہیں جو نادانستہ طور پر دشمن کے کیمپ میں داخل ہو جاتے ہیں اور بالآخر "حاجی" کو معلومات پہنچا کر اپنے دستوں کے لیے کامیاب کارروائی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ فلم کا دو تہائی حصہ اسی موضوع پر مشتمل ہے جس نے ایک کامیاب سینمائی تفریح تشکیل دی ہے۔ اس فلم میں خون، آگ اور دھماکوں کے مناظر خوف و ہراس پھیلانے کی بجائے زیادہ پرجوش ہیں۔ مثال کے طور پر اگر اس منظر پر غور کیا جائے جس میں حسین اور سید کو لاشوں والی گاڑی میں ڈال دیا جاتا ہے تو یہ منظر نہ صرف موت کا سامنا کرنے کے خوف کو ناظر کے لیے بیان نہیں کرتا بلکہ گپ شپ اور موت کے ساتھ ہنسی مذاق کرنے کا ماحول منتقل کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مذاق کا یہ انداز پوری فلم میں دوسرے واقعات میں اس طرح ضم ہے کہ اب دیکھنے والے کے لئے تکلیف دہ نہیں ہے؛ اور یہ ایک مضبوط اسکرین پلے کی برکات میں سے ہے۔ اس فلم کے اسکرین پلے میں سید اور حسین کی دوستی کو خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے اور ان دونوں کے مذاق اور طنز پر مبنی مکالمے فلم کے خوبصورت پہلوؤں میں سے ہیں۔ مجموعی طور پر تجسس اور سنسنی خیزواقعہ ڈرامائی انداز کے ساتھ مخلوط ہے؛ اس طرح سے کہ ناظر شوق سے متعلقہ کرداروں کے انجام کے بارے میں فکر مند رہتا ہے۔[8]
[1] بہارلو، عباس، فیلم شناخت ایران، فیلم شناسی سینمای ایران، تہران، قطره، ص 330 و 331
[2] https://www.isna.ir/news
[3] سالنامه آماری فروش فیلم و سینمای ایران، سال 1994ء، ص 7
[4] سینمائی ویب سائٹ منظوم https://www.manzoom.ir
[5] مجلہ فرهنگ و سینما، شماره 33، ص 26
[6] مجلہ فیلم، ویژه دوازدهمین جشنواره فیلم فجر، شماره 154، ص 12
[7] مجلہ فیلم، شماره 155، ص 15
[8] فراستی، مسعود، فرهنگ فیلمهای جنگ و دفاع ایران، تہران، نشر ساقی، 2014ء، ص 17 و 18 و 20
