اشخاص

مہدی احسان نیا

معصومہ عابدینی
9 بازدید

مہدی احسان نیا 17 جون 1957 کو شہر شوش دانیال میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم شوش میں مکمل کی اور پھر اپنے خاندان کے ساتھ اہواز منتقل ہو گئے۔ انہوں نے اہواز میں طبیعیات میں ثانوی تعلیم مکمل کی اور 1979 میں شیراز یونیورسٹی میں میڈیکل کے شعبے میں داخلہ لیا۔ 1978 کے عوامی جدوجہد کے دوران، وہ بار بار تہران کا سفر کرتے تھے تاکہ امام خمینی کی تقاریر کی ریکارڈنگز اور پیغامات حاصل کرکے انہیں خوزستان میں تقسیم کریں۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد، وہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی خوزستان (اہواز) کے رکن بنے۔

جنگ کے ابتدائی ایام کے دوران، جب سوسنگرد عراقی افواج کے محاصرے میں تھا، وہ دیگر مجاہدین کے ساتھ دشمن کے ٹینکوں کا شکار کرنے جاتے تھے۔

اسکے بعد، رضاکارانہ افواج کو منظم کرنے کی ضرورت کے باعث، انہیں جنوبی علاقوں کے آپریشنل اسٹاف کے شعبہ میں منتقل کر دیا گیا۔ انہوں نے تعمیری اور تخلیقی منصوبے پیش کر کے فوجیوں کے معیار کو بہتر بنانے میں خاص کردار ادا کیا۔کچھ عرصے کے بعد، وہ 19 فجر بریگیڈ(صوبہ فارس) میں چلے گئے اور پھر قدس بریگیڈ(صوبہ گیلان) میں ذمہ داری سنبھالی۔

سپاہ کے انتظامی ڈھانچے میں تبدیلی کے ساتھ، 1983 میں وہ سپاہ کے زیر انتظام تقسیم شدہ 8ویں علاقے کے جنگجو عملہ کے سربراہ بن گئے اور آپریشنل علاقوں سے اہواز واپس آ گئے۔ اسکے بعد، انہوں نے تیسرے علاقے کے عملہ کے سربراہ کی ذمہ داری سنبھالی۔اپنی ذمہ داریوں کے باوجود، جب بھی جنوب میں کوئی آپریشن ہوتا، وہ اس میں شرکت کرتے۔

1985 میں، وہ قرارگاہ مقدم کربلا کے منصوبہ اور عملیات کے یونٹ میں کام کرنے لگے اور پھر انہیں ڈپٹی کمانڈر مقرر کیا گیا۔

احسان نیا، مختلف انتظامی اور فوجی شعبوں میں طویل عرصے تک خدمات انجام دینے کے بعد، 20 اپریل 1986 کو والفجر 8 (فاو) کے آپریشنل علاقے میں شہید ہو گئے اور ان کا جسد خاکی، تشییع کے بعد، گلزار شہداء اہواز میں دفن کیا گیا۔ ان کی والدہ بھی 1987 میں حج کے دوران سعودی عناصر کے ہاتھوں شہید ہو گئیں۔

ان کی ہاتھ سے لکھی گئی ایک تحریر میں لکھا ہے: "نفس کا محاسبہ اور ہمیشہ کے لیے کردار، گفتار اور اعمال کا جائزہ ہمیں اس راستے پر غلطی کرنے سے بچاتا ہے جس پر ہم نے قدم رکھا ہے۔ خدایا! میں اپنی وعدہ پر قائم رہنا چاہتا ہوں؛ میری مدد کر تاکہ کم سے کم غلطیاں کروں اور زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکوں۔ خدایا، ہمارا یار و مددگار بن تاکہ ہم ثابت قدم رہ سکیں۔ تمام مصائب میں، ہمارے ساتھ رہ کہ تیرے ساتھ رہنے سے ہمارے پاس سب کچھ ہے، اور تیرے بغیر، ہم بے یار و مددگار ہیں۔ اے رحم کرنے والے، اگر موت میرا مقدر ہے، تو تجھے تیرے حق کی قسم دیتا ہوں کہ میری موت تیرے راستے میں شہادت ہو۔ خدایا، تو خود گواہ ہے، اور میرے وجود سے آگاہ ہے کہ میں موت سے نہیں ڈرتا؛ دنیا سے ڈرتا ہوں؛ اپنے اعمال کی حالت زار سے اور ہوائے نفس سے کہ جو شاید ہمارے درمیان جدائی کا سبب بن جائے۔ مجھے موت سے خوف نہیں ہے؛ مرنے کے انداز سے ہے؛ کہ کہیں میری زندگی کی آخری لمحات بھی گناہ سے آلودہ نہ ہوں۔"[1]

 

 

[1] [1]. تلخیص مقاله از دایرةالمعارف دفاع مقدس، ج1، تهران، مرکز دایرةالمعارف پژوهشگاه علوم و معارف دفاع مقدس، 1390، ص358ـ354.