دستہ دختران
زینب احمدی
7 بازدید
فلم "دستہ دختران" یعنی لڑکیوں کا گروہ، سنیما ڈائریکٹر منیر قیدی نے سنہ 2021 میں بنائی جس کا موضوع مقدس دفاع اور عراق کی جانب سے ایران پر مسلط کردہ جنگ کے دوران خواتین کے ایک گروہ کا محاذ جنگ میں داخل ہونا ہے۔
ڈائریکٹر منیر قیدی، پروڈیوسر محمدرضا منصوری (منیر قیدی کے شوہر)، فلم نامہ نگار منیر قیدی، میلاد اکبرنژاد اور ابراہیم امینی، ڈائریکٹر آف فوٹوگرافی سامان لطیفیان، پہلے اسسٹنٹ کیمرا مین ہومن خلیلی، ایڈیٹر حمید نجفی، موسیقار ستار اورکی، سیٹ اور کاسٹیوم ڈیزائنر محمدرضا شجاعی، میک اپ آرٹسٹ عباس عباسی، ساؤنڈ ریکارڈر مہدی ابراہیم زادہ، ساؤنڈ ایڈیٹر حسین ابوالصدق، پلانر افشین رضایی، پہلی اسسٹنٹ ڈائریکٹر پانتیا حسینی، سین سیکرٹری فائزہ فرزام، اسپیشل ایفیکٹس ڈیزائنر محسن روزبہانی، اسٹنٹ کوآرڈینیٹر علیرضا فتحی، پروڈکشن مینیجر علی اصغر صبوری راد، سٹل فوٹوگرافر مجید طالبی، سین مینیجر آرمان میربابایی اور اداکار نیکی کریمی، پانتیا پناہی ہا، فرشتہ حسینی، ہدی زین العابدین، صدف عسگری، حسین سلیمانی، یاسین مسعودی، مہدی حسینی نیا اور دیگران شامل ہیں۔
یہ 90 منٹ کی فلم بنیاد سینمائی فارابی اور سورہ فلمز کی پیشکش ہے[1] اور اس نے 4 ارب تومان سے زائد کا بزنس کیا۔[2] چالیسویں فجر فلم فیسٹیول میں اس فلم نے بہترین معاون اداکارہ کے لیے سفارتی اعزاز اور بہترین اسپیشل ویژول ایفیکٹس کے لیے سیمرغ ایوارڈحاصل کیا۔[3]
ان دنوں میں جب خرمشہر کا سقوط اور دشمن کے ہاتھوں اس پر قبضہ قریب تھا، مختلف سماجی پس منظر اور محرکات رکھنے والی خواتین نے فیصلہ کیا کہ وہ شہر کو نہیں چھوڑیں گی، بلکہ رکیں گی اور لڑیں گی۔ یہ بات اس ماحول، مردانہ ثقافت اور جنگ کی سنگدل اور بے رحم حقیقتوں کے پیش نظر نہایت ناقابل یقین اور ناقابل قبول تھی۔[4]
یہ فلم جنگ کے دوران خرمشہر کے 34 روزہ استقامت کو پیش کرتی ہے۔ ڈائریکٹر کا نقطہ نظر اس شہر میں جنگ کے ابتدائی دنوں میں خواتین اور لڑکیوں کی مزاحمت کی داستان بیان کرنا ہے۔ تنقید نگاروں کے مطابق "دستہ دختران" مزاحمت اور خواتین کی قربانی کے موضوع پر پہلی مکمل فیچر فلم ہے۔ "دستہ دختران" منیر قیدی کی دوسری فلم ہے جس کی فلم بندی خرمشہر، اہواز، آبادان اور تہران میں ہوئی۔ ڈائریکٹر کی پہلی فلم "ویلایی ھا" نے بھی جنگی معذور فوجیوں کی بیویوں کی قربانیوں کی عکاسی کی ہے۔[5]
فلم جنگ کےحوالے سے ایک مختلف نقطہ نظر اور زاویہ پیش کرتی ہے۔ اس نے جنگ کو مردوں کے دائرے سے نکال کر خواتین کی بھرپور موجودگی کے ساتھ جنگ کی داستان بیان کی ہے، جس کی وجہ سے یہ تنقید نگاروں کے لیے دلچسپ ثابت ہوئی ہے۔ البتہ اسے مردانہ جنگی فلموں کے مقابلے میں نہیں لانا چاہیے، بلکہ یہ ان کے مساوی اور جنگ کے دنوں کی تکمیلی داستان ہیں۔ جنگ میں ملوث آبادی کا نصف حصہ خواتین پر مشتمل تھا جو مردوں کے شانہ بشانہ شہر کی حفاظت کی کوشش میں مصروف تھیں، خواہ وہ رسد اور معاونت کے شعبے میں ہو یا محاذ جنگ پر۔[6]
بعض ناقدین خواتین کی موجودگی کو کامیاب نہیں سمجھتے، کیونکہ اس فلم کی خواتین اور لڑکیاں نہ تو ہالی ووڈ فلموں کی ہیروئن کی طرح محاذ جنگ پر لڑنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور نہ ہی آخر تک وہ کام جو وہ کرنے کی بات کرتی ہیں، درست طریقے سے انجام دیتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ایک گولہ بارود کا صندوق بھی منتقل نہیں کر سکتیں۔ ان کے خیال میں اس فلم کی لڑکیوں اور خواتین کا گروہ غیر مربوط اور بے مقصد ہے۔ بہتر ہوتا کہ وہ گولہ بارود اور کارتوس بھرے کچھ صندوق اور سادہ سازوسامان پہنچانے کی دوڑ میں شامل ہونے کے بجائے، ان مجاہدین کی بات مانتیں جو انہیں محاذ کے پیچھے دفاع کرنے کی تاکید کر رہے تھے اور زیادہ اہم کام یعنی بچوں اور زخمیوں کی جانیں بچانے کا کہہ رہے تھے، کیونکہ اس فلم کی خواتین کی محاذ پر موجودگی مجاہدین کے لیے کوئی خاص مؤثر یا مددگار ثابت نہیں ہوتی۔
دوسرے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ مقدس دفاع کا سینما کہاں گیا جس میں ایک تذبذب میں مبتلا فوجی کی آنکھوں سے نکلتے آنسو تماشائی کی آنکھیں نم کر دیتے تھے؟ یہی وہ سینما تھا جس نے بغیر شور و غوغا اور بڑے دھماکوں کے، جنگ کے ہولناک اور جارح دشمن کے خوف کو تماشائی کی رگ رگ میں اتار دیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ اس فلم کی ساخت "تنگہ ابوقریب" کی یاد دلاتی ہے، وہاں لڑکوں کا گروہ اور یہاں لڑکیوں کا گروہ۔ دھماکوں، شور و غل اور چیخ و پکار کے لحاظ سے فلم شاید قابل قبول ہو، لیکن یہ فلم مقدس دفاع کے سینما کے وقار میں کوئی اضافہ نہیں کرتی۔
بعض کا خیال ہے کہ اس فلم کی ہر خاتون مختلف محرکات کے ساتھ محاذوں پر مدد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ خواتین قابل اعتماد اور سادہ ہیں اور ناظر خود کو ان میں سےایک محسوس کرتا ہے اور فلم کے اختتام تک ان کے انجام کے بارے میں فکرمند رہتا ہے۔ راستے میں ان پر جو مشکلات آتی ہیں وہ بھی قابل یقین ہیں، لیکن اداکاروں کی اداکاری، اچھی اور بری دو قسموں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ پانتیا پناہی ہا اور حسین سلیمانی نے بہت اچھی اداکاری کی ہے، لیکن نیکی کریمی کے چہرے پر خشکی اور غیر حقیقی پن ہے اور وہ اپنے جذبات تماشائی تک منتقل نہیں کر سکتیں۔ فرشتہ حسینی اور ہدی زین العابدین کی اداکاری بھی معمولی ہے۔[7]
دوسرے ناقدین کہتے ہیں کہ اس فلم میں خواتین کوشش کرتی ہیں کہ گولہ بارود مجاہدین تک پہنچائیں اور ساری فلم اسی کوشش کی عکاسی کرتی ہے۔ درحقیقت ڈائریکٹر نے اس راستے میں خواتین کو درپیش مشکلات و حادثات کو اپنی فلم کے پیغام کی بنیاد بنایا ہے۔ ان کے خیال میں ڈائریکٹر جنگ کی تباہ کاری اور گھر برباد کرنے والی اس آفت کے حقیقی معنوں کا ادراک رکھتا ہے، ورنہ نہ تو اس فلم کی کوئی خاتون ہیرو کے طور پر متعارف کروائی جاتی ہے، نہ ہی وہ مجاہدین کی کوئی خاص مدد کر پاتی ہیں اور آخر میں ہمیں ایرانی افواج کی ناکامی کے مناظر دیکھنا پڑتے ہیں۔ فلم کے مختلف حصوں میں مردوں اور عورتوں کا بمباری میں گھرے ہوئے دکھائی دینا، خواتین اور بچوں کے کراہنے اور چیخنے کی آوازیں، موت اور بے بسی کا راج اور بے گھر ہوتے لوگ نیز وہ اسپیشل ایفیکٹس جو جنگ کی آگ کو مزید بھڑکاوے کے انداز میں پیش کرتے ہیں، اس بات کی دلیل ہیں۔ ہماری ثقافت میں گھر، تحفظ اور عورت ایک دوسرے کے ہم معنی ہیں اور سکون کی علامت ہیں، اس فلم میں اس تحفظ کے ضائع ہونے کوہدف بنایا گیا ہے۔ فلم کے آخر میں خواتین آہستہ آہستہ ایک دوسرے سے جدا ہو جاتی ہیں اور اپنی اپنی تقدیر کی طرف چل پڑتی ہیں، لیکن یہ جنگ کا تلخ پیغام تماشائی کے دل و دماغ پر نقش ہو کر رہ جاتا ہے۔ درحقیقت ڈائریکٹر نے اپنی فلم کی لڑکیوں اور خواتین کے گروہ کو اس پیغام کے لیے وسیلہ اور ذریعہ بنایا ہے۔ ڈائریکٹر کا مقصد جنگ کی تکلیف اور تلخی اور بار بار ہونے والی بمباری کے عظیم خوف کو تماشائی کے دل پر نقش کرنا ہے۔[8]
تنقید نگاروں کے ان مختلف نقطہ ہائے نظر کے پیش نظر، ایسا لگتا ہے کہ میدان مقدس دفاع کے ڈائریکٹر ہر ایک ایک الگ مقصد کے ساتھ جنگی فلم سازی کے میدان میں قدم رکھتے ہیں اور شاید اس طرح کی ہر فلم کا پیغام دوسری فلم کے پیغام کے متضاد ہو۔
[1] ماہنامہ فلم، شمارہ 587، جنوری 2022، صفحات 46 اور 47
[2] /http://cinemaetemad.ir
[3] /http://www.sourehcinema.com
[4] سابق
[5] ماہنامہ فلم، شمارہ 587، جنوری 2022، صفحات 46 اور 47
[6] سابق، شمارہ 588، فروری 2022، صفحات 76 اور 77
[7] روزنامہ اعتماد، شمارہ 5144، 7 فروری 2022، صفحہ 5
[8] ماہنامہ فلم، شمارہ 588، فروری 2022، صفحات 76 اور 77
