مقامات
آبادان
معصومہ عابدینی
5 بازدید
آبادان خوزستان کا ایک بڑا شہر ہے اور چونکہ یہ دریائے کارون، بہمنشیر، اروندرود اور خلیج فارس کے درمیان محصور ہے اس وجہ سے اسے جزیرہ آبادان بھی کہا جاتا ہے۔ یہ جزیرہ جنوب میں خلیج فارس، شمال میں کارون دریا، مشرق میں بہمنشیر دریا اور مغرب میں اروندرود سے محدود ہے۔
اس شہر کا پرانا نام عبادان تھا، جو 1935 میں تبدیل ہو کر آبادان میں تبدیل ہوگیا۔ ماضی میں یہ شہر اپنی مشاہدہ گاہوں، شدید گرمی، نمی، معابد اور مچھلیوں کی وجہ سے مشہور تھا، لیکن جدید تاریخ میں اسے دو خصوصیات کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے؛ تیل اور جنگ۔
جب 26 مئی 1908 کو مسجد سلیمان میں تیل کے پہلے کنوئیں کی دریافت ہوئی، تو اس کے نزدیک ایک ریفائنری بنانے کی ضرورت پیش آئی۔ چونکہ آبادان تیل کے جہازوں کے لئے بہترین لنگرگاہ بن سکتا تھا، اس لئے ایران کی پہلی ریفائنری یہاں بنائی گئی۔ 1912 میں آبادان ریفائنری نے کام شروع کیا اور چند سال بعد یہ دنیا کی سب سے بڑی ریفائنری بن گئی۔
1967 میں جب عراق میں بعث پارٹی کی حکومت آئی، تو خوزستان کو عراق کا حصہ بنانے کی کوششیں دوبارہ شروع ہو گئیں اور عراق نے خوزستان کے جغرافیائی ناموں کو کتابوں اور نقشوں میں تبدیل کر دیا۔ ان نقشوں میں آبادان کو عبادان لکھا جاتا تھا۔
19 اگست 1978 کو آبادان کے ریکس سینما کے حادثے نے شاہ کے خلاف بڑے مظاہروں کو جنم دیا۔ آبادان ریفائنری کے ملازمین اور کارکنوں کی ہڑتال بھی اسلامی انقلاب کی کامیابی میں ایک اہم عنصر تھی۔
1979 سے 1980 کی درمیانی مدت میں، مخالفین نے شہر میں کئی تخریبی کارروائیاں انجام دیں۔ 13 جون 1979 کو آبادان ریفائنری کے احاطے میں ایک بم دھماکا ہوا۔ 24 دسمبر 1979 کو نہر محربی اور نہر ابوالفضل پر واقع پل کو دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ 6 مارچ 1980 کو بھی شمالی آبادان میں چند گیس اور تیل کی پائپ لائنوں کو دھماکے سے اڑا دیا گیا۔
آبادان، اپنی سرحد کے قریب ہونے اور ریفائنری کی موجودگی کی وجہ سے، ایران-عراق جنگ کے آغاز سے اختتام تک جنگ میں مبتلا رہا۔ جنگ کے پہلے دن، یعنی 22 ستمبر 1980 کو دشمن نے آبادان ریفائنری پر فضائی حملہ کیا۔ 23 ستمبر کو، دشمن کی جانب سے بھاری توپ خانے کی گولہ باری نے آبادان کو شدید نقصان پہنچایا۔ ان حملوں کے نتیجے میں، ریفائنری کی تقریبا ایک چوتھائی تنصیبات تباہ ہو گئیں۔ 25 ستمبر کو حملوں میں مزید شدت آگئی اور دن کے اختتام پر اہواز-خرمشہر مرکزی شاہراہ کا رابطہ مکمل طور پر منقطع ہو گیا۔
30 ستمبر کو، دشمن کے حملوں میں مزید شدت آگئی۔ شہر کی پانی اور بجلی منقطع ہو گئی اور آبادان ریڈیو بند ہو گیا۔ 11 اکتوبر کو عراقی فوج نے آبادان کا محاصرہ کر لیا اور دریائے کارون عبور کر کے مشرقی کارون کے علاقے پر قبضہ کر لیا اور اہواز-آبادان-ماہشہر شاہراہ کا آپس میں رابطہ کاٹ دیا گیا۔
13 اکتوبر کو عراقی بکتر بند بریگیڈ نمبر 6 اس علاقے میں داخل ہو گئی اور اس نے اپنی پیشرفت دریائے بہمنشیر اور آبادان کی جانب جاری رکھی۔ ایران کے بکتر بند بریگیڈ نمبر 92 کے پہلے امدادی دستے چند دن بعد آبادان پہنچے۔
14 اکتوبر کو دشمن کی افواج شمالی آبادان سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر پہنچ گئیں۔ ایک پیادہ بٹالین اور خراسان بریگیڈ نمبر 77کے توپ خانے کی گولہ باری اور فضائیہ کی حمایت کے سبب، شمالی آبادان میں عراقیوں کی پیش قدمی عارضی طور پر تھم گئی۔
26 اکتوبر کو خرمشہر کے شمالی حصے پر قبضے کے بعد، آبادان پر فضائی حملے اور بمباری میں شدت آ گئی۔ 30 اکتوبر کو دشمن نے پیش قدمی کرکے بہمنشیر کے شمالی کنارے پر آبادان کا مکمل محاصرہ کر لیا۔ دشمن کی افواج نے 30 اور 31 اکتوبر کی درمیانی رات کو ذوالفقاری نامی علاقے میں دریائے بہمنشیر پر ایک پل تعمیر کیا اور پہلی بار آبادان میں داخل ہو گئے اور الوانیہ اور ثوامر گاؤں کے کئی لوگوں کو یرغمال بنالیا۔
ایک بوڑھے شخص، دریاقلی نے، اس علاقے میں عراقیوں کو دیکھتے ہی مسجد الرسول آبادان میں موجود فوجیوں کو اطلاع دی۔ یہ خبر فوجیوں کے بروقت دفاع کا سبب بنی جس کی وجہ سے عراقیوں کی پیش قدمی کا سدباب کیا گیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے اس وقت کے وزیر پٹرولیم، محمد جواد تندگویان، اس بات سے بے خبر کے اس علاقے میں عراقی موجود ہیں 31 اکتوبر 1980 کو اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ آبادان میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے، سادات گاؤں میں گرفتار ہو گئے اور پھر کئی سالوں کے تشدد کے نتیجے میں شہید ہو گئے۔
امام خمینی نے آبادان کے محاصرے کے چند دن بعد، اپنے ایک خطاب میں مسلح افواج کو خبردار کیا کہ یہ محاصرہ توڑنا ضروری ہے اور تاکید کی کہ: "میں منتظر ہوں کہ یہ محاصرہ ختم ہو جائے... یہ نہ سمجھیں کہ اگر یہ لوگ [شہر پر قابض ہوئے] تو پھر ہم انہیں نکال باہر کریں گے۔ اگر یہ لوگ آبادان میں داخل ہو گئے تو یہ ہمیں نقصان پہنچائیں گے۔ انہیں اس بات کی اجازت مت دیں کہ یہ لوگ آئیں اور آبادان میں داخل ہوجائیں۔"
آبادان ایک سال تک دشمن کے محاصرے میں رہا اور بار بار فضائی اور توپ خانے کے حملوں کا نشانہ بنتا رہا۔ آیت اللہ جمی، آبادان کے امام جمعہ، کی موجودگی اور دشمن کے خلاف مقابلے کی حوصلہ افزائی نے مدافعین کے حوصلے کو بڑھایا۔ مجاہدین نے آبادان، دارخوین اور ماہشہر کے تین محاذ پر دفاعی لائنیں بنائیں اور اپنے محدود وسائل پر تکیہ کرتے ہوئے چند حملے اور اقدامات کیے۔
تقریبا گیارہ ماہ بعد، 27 ستمبر 1981کو، آپریشن ثامن الائمہ (ع) میں، آبادان کا محاصرہ توڑ کر اسے آزاد کرا لیا گیا۔ لیکن توپ خانوں سے گولہ باری اور فضائی حملے جنگ کے اختتام تک شہر آبادان پر جاری رہے۔ آبادان کے 897 شہری انقلاب کے دوران پیش آنے والے حادثات اور آٹھ سالہ جنگ میں شہید ہوئے۔
جنگ کے دوران ہونے والے نقصانات کے بعد آبادان کی تعمیر نو 1983 میں شروع ہوئی۔ لیکن زیادہ تر تعمیر نو جنگ کے اختتام کے بعد اور 1990 سے 1998 تک کے درمیان ہوئی۔ آبادان ریفائنری کی تعمیر نو بھی 1988 کے درمیان شروع ہوئی اور اس کا پہلا فیز یکم اپریل 1989 کو پیداوار شروع کرنے کے لیئے تیار ہوگیا۔