23 نفر
مریم آخوندیان
1 بازدید
فلم 23 نفر یعنی تئیس افراد ، مہدی جعفری نے 2018 میں بنائی تھی اور یہ ان ایرانی نوجوان مجاہدین کے ایک گروپ کی داستان کو بیان کرتی ہے جو عراق کی جانب سے ایران پر مسلط کردہ جنگ کے دوران عراقی افواج کے ہاتھوں قید ہو گئے تھے۔
فلم نامہ نگار اور ہدایت کار مہدی جعفری، پروڈیوسر مجتبی فرآوردہ، سنیماٹوگرافر مرتضی قیدی، سیٹ ڈیزائنر کامیاب امین عشایری، کاسٹیوم ڈیزائنر سارا سمیعی، میک اپ آرٹسٹ عباس عباسی، ویژول ایفیکٹس ڈیزائنر ہادی اسلامی اور امیر سحرخیز ہیں، ایڈیٹر میثم مولائی، ساؤنڈ ریکارڈسٹ اور ساؤنڈ ایڈیٹر بہمن اردلان، موسیقار آریا عظیمی نژاد، اسپیشل ایفیکٹس محسن روزبهانی، جبکہ اداکاروں میں رضا نوری، مجید پتکی، سعید آلبوعبادی، محمد رشنو، عبدالحلیم تقبلی اور دیگر شامل ہیں۔
103 منٹ کی یہ فلم ادارہ اوج نے کی پیشکش ہے جسے 11 دسمبر 2019 سے عوامی نمائش کے لیے پیش کیا گیا ہے۔[1]
یہ فلم "نیشنل فجر فلم فیسٹیول" کے 37ویں پروگرام میں بہترین فلم کا سیمرغ ایوارڈ لینے میں کامیاب ہوئی اور اصفہان چلڈرن اینڈ یوتھ فلم فیسٹیول میں بھی بہترین فلم اور بہترین ہدایت کاری کا گولڈن تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی اور اسے ایران میں یونیسکو کی منتخب فلم بھی قرار دیا گیا۔[2]
ایرانی نوجوان مجاہدین کا ایک گروپ جن کی عمریں 13 سے 17 سال کے درمیان تھیں اور جو زیادہ تر ثارالله برگیڈکرمان سے بھیجے گئے تھے، مئی 1982 میں بیت المقدس کے ابتدائی مرحلے میں محاذ کے مختلف علاقوں میں قید ہوئے اور عراق کے ایک کیمپ میں منتقل کر دیے گئے۔ صدام حسین،جو حال ہی میں خرمشهرسے ہاتھ دھو بیٹھا تھا، نے ان نوجوان قیدیوں کے موضوع سے پروپیگنڈے کے لیے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا، لیکن جب ان نوجوانوں کو پتہ چلا کہ کیا ہونے والا ہے، تو انہوں نے دشمن کے ساتھ تعاون سے انکار کر دیا اور قید کی تکالیف کو برداشت کیا۔
جیسا کہ ہم فلم کے ایک حصے میں دیکھتے ہیں، صدام حسین نے انہیں ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں مدعو کیا اور کہا: "دنیا کے تمام بچے ہمارے بچے ہیں"، لیکن ان تئیس نوجوانوں نے اس غلط استعمال کو قبول نہیں کیا اور ہڑتال پر جانے کا فیصلہ کیا تاکہ ان کے ساتھ دوسرے قیدیوں جیسا سلوک کیا جائے۔[3]
فلم "تئیس افراد" انہی نوجوانوں کی کہانی ہے؛ یہ ایسی کہانی ہے جسے فلم بنانے کے لیے مختلف ہدایت کاروں نے کئی بار فیصلہ کیا، لیکن یہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکی یہاں تک کہ جولائی 2015 میں یہ تئیس افراد ٹی وی کے پروگرام "ماہ عسل" میں شریک ہوئے جس کے بعد ان کی زندگی میں بڑی تبدیلی آ گئی۔ اس پروگرام کے بعد سردار قاسم سلیمانی (شہید) نے ابراہیم حاتمی کیا کو ایک خط لکھا اور انہیں کتاب "آن بیست و سه نفر" متعارف کرائی اور اس کتاب سے فلم بنانے کے لیے انہیں کچھ تجاویز دیں۔ ابراہیم حاتمی کیا نے بھی یہ کہانی ادارہ اوج کے حوالے کی اور مہدی جعفری کو اس کام کی ہدایت کاری کے لیے منتخب کیا گیا۔[4]
اس فلم کے تجزیے اور تنقید کے ایک حصے میں کہا گیا ہے کہ "تئیس نفر" قید اور استقامت کے بارے میں ایک مختلف فلم ہے؛ یہ قربانی دینے والے ان نوجوانوں کی کہانی ہے جو اپنی غیرت اور اہداف کو آرام و آسایش کے بدلے دینے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ ڈٹ جاتے ہیں، اس کی قیمت چکاتے ہیں اور چھوٹے ہیرو بن کر سامنے آتے ہیں جن کے جرات مندانہ اقدامات پر یہ ملک ان کا مرہون منت ہے؛ یہ ایسی بہادری ہے جو دکھائی دینے کے مقصد سے نہیں، بلکہ خلوص نیت اور تنہائی میں واقع ہوئی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ہدایت کار اس فلم میں ان نوجوانوں کے انفرادی کرداروں کو پیش کرنے کے بجائے ان کی اجتماعی زندگی کی تصویر کشی کرتا ہے جو یکجہتی اور وحدت کا مظہر ہے؛ ایک ایسا "سیمرغ" جو ان نوجوانوں کے اکٹھے ہونے سے پرواز کرتاہے اور صدام کو اس کمزور پوزیشن سے فائدہ اٹھانے سے روکتا ہے جس کا ان بچوں میں سے ہر ایک انفرادی طور پر سامنا کر رہا ہے۔ تنقید گزاروں کے مطابق اگر فلم کو اس زاویے سے دیکھا جائے تو ہمیں فلم کے نان ایکٹرز کی اچھی اداکاری اور مناظر کی جان بوجھ کر کی گئی سادگی کا احساس ہوگا۔ نقادوں کے خیال میں، ہدایت کار نے ان نوجوانوں کے اقدامات کو ڈرامائی انداز یا تشدد کے معیار کو پیش کرنے میں مبالغہ آرائی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ تاکہ ان کی حالت زار دیکھ کر ہمیں ان پر زیادہ افسوس ہوتا۔ وہ صرف ایک اجتماعی بھر اور وقار کی کا عکاس ہے؛ یہ وقار جو پہلے ان بچوں کے انفرادی طور پر موجود ہوتا ہے، لیکن آہستہ آہستہ خاموشی سے پروان چڑھتا ہے تاکہ ایک مزاحمت کی آواز بن جائے جو بیک وقت ان تئیس افراد کے منہ سے نکلتی ہے۔[5]
اس فلم پرکی گئی ایک تنقید میں کہا گیا ہے کہ فلم کا مواد خشک اور فکر انگیز ہے، لیکن اپنی روایت کے بیان میں یہ بالکل بھی خشک نہیں ہے اور یہاں تک کہ کچھ لمحات میں طنزیہ لہجے اور فلسفیانہ اشاروں کے ساتھ، یہ صورتحال کی عجیب و غریب کیفیت اور بے معنائی کو ناظر کی آنکھوں کے سامنے مجسم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔[6]
دیگر ناقدین کا کہنا ہے کہ فلم کی کہانی دلچسپ ہے اور اس کے واقعات کا ایک حصہ محاذ جنگ اور بعثی حکومت کی جیل پر مشتمل ہے جو ڈرامے میں بھی اور اس سے ہٹ کر بھی دلچسپ ہیں۔ اگرچہ کرداروں کی کثرت نے ان کی انفرادی خصوصیات کو بہت سے معاملات میں خاموش کر دیا ہے، لیکن اس گروپ کی مجموعی طور پر موجودگی ایک مشترکہ اتحاد کو ظاہر کرتی ہے جسے ناظر آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔ فلم ساز کئی بچوں کو لہجے کے انتخاب، ترکی زبان میں مزاحیہ باتوں یا رہنما تک پہنچنے کی ذاتی خواہشات کے ذریعے انفرادیت دینے کی کوشش کرتا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس خاص معاملے میں ایسی کوشش ضروری نہیں ہے۔
ماہرین کے مطابق فلم کی توانائی کا ایک بڑا حصہ جیل میں قید کے مناظر کی فضا بنانے پر صرف ہوا ہے اور اس لحاظ سے اس فلم کو جنگ اور اس کے نتائج کے بارے میں ایک فلم سمجھنا چاہیے؛ شاید اسی لیے محاذ کے مناظر نہ چاہتے ہوئے الگ ہو گئے ہیں اور جنگ کےچند فزیکل فیچررز صرف چند مناظر میں ہی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ اسی طرح خرمشهر کی آزادی پران نوجوان مجاہدین کی خوشی جیسے مناظر بھی ہیں جو کچھ ہلکے پھلکے انداز میں بنے ہیں اور ان میں قید کے مناظر کی مضبوطی نہیں ہے۔ کچھ مقامات پر فلم کا لہجہ جذباتی ہو جاتا ہے، اگرچہ ایڈیٹنگ میں ان مناظر کے جذباتی اثرات کو پھیلنے سے روکنے اور فلم کے یکسانیت اور توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ویڈیو کلپ جیسے مناظر اور سلو موشن شاٹس کو بھاری موسیقی اور سنگین ساؤنڈ سکیپ کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے فلم میں بار بار دہرایا گیا ہے، لیکن کہانی کی پرجوش روایت اور معاملے میں شامل حقیقی کرداروں کے بیانات کے ساتھ وفاداری بنا پر آخر کار فلم کی داستان اور موضوع کے مابین اختلاف کے باوجود ہم آہنگی ممکن ہو ہی جاتی ہے جس کے نتیجے میں انفرادی خامیوں کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔[7]
سنیما اور ٹیلی ویژن کے کچھناقدین کا خیال ہے کہ یہ فلم جنگ کے بعد کی بہترین جنگی فلم ہے اور ایرانی سنیما کی، اسارت پر مشتمل بہترین فلم ہے جس میں قید اورصعوبت میں رہنے والوں کی صعوبتیں اور سربلندی دونوں دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے خیال میں کوئی بھی ایرانی اس فلم سے لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور اس فلم سے لطف اندوز ہونا درحقیقت فن سے لطف اندوز ہونا ہے ۔ البتہ فلم ساز کا لا شعوری پہلو دلچسپ ہے اور اس کا رجحان، مناظر کی طرف درست ہے جو اس فلم کو بے مثال بنانے کا باعث بنتا ہے۔[8]
[1] مجله فیلم، سال 38، ش 566، جنوری 2020، ص 46؛ روزنامه جامجم، ش ۵۵۳۸، 1 دسمبر 2019، ص1.
[2] سابق، ص1.
[3] مجله دنیای تصویر، سال 27، ش 302، دسمبر 2019، ص 28؛ روزنامه جامجم، ش ۵۵۳۸، 1 دسمبر 2019، ص11
[4] روزنامه جامجم، ش ۵۵۳۸، 10آذر1398، ص11
[5] مجله دنیای تصویر، سال 27، ش 302، دسمبر2019، ص 28
[6] مجله فیلم، سال 38، شماره 566، جنوری 2020، ص
[7] سابق، ص 47.
[8].https://www.salamcinama.ir/critic/ZRjm/%D9%87%D9%85%D9%87-%D9%86%D9%82%D8%AF%D9%87%D8%A7%DB%8C-%D9%81%DB%8C%D9%84%D9%85-23-%D9%86%D9%81%D8%B1
