دشت شقائق ھا

محمدرضا بایرامی
9 بازدید

کتاب "دشت شقایق‌ها" یعنی گلِ شقائق کی وادی، محمدرضا بایرامی کی فوج میں نوکری میں گزرے دنوں کی یادیں ہیں جو ڈائری کی صورت میں قلمبند کی گئی ہیں اور 1999 میں شائع ہوئی۔ یہ یادداشتیں بہار سے لے کر موسمِ سرما 1987 تک کے عرصے پر محیط ہیں اور ایک فوجی سپاہی کی آپریشن کے دوران کی کیفیت، فارغ اوقات کے واقعات اور محاذ پر زندگی کے احوال پر مشتمل ہیں۔

محمدرضا بایرامی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں: "جس دن عراق کی جانب سے مسلط کردہ جنگ شروع ہوئی، میں نے ایک ٹارچ، ایک سیکو ریڈیو اور ایک دو سو صفحات کی نوٹ بک خریدی۔ میرے خیال میں ایک بہت بڑا واقعہ رونما ہو رہا تھا اور میں چاہتا تھا کہ اپنے حصے کا کردار ادا کرتے ہوئے اسے محفوظ کر لوں۔ اس لیے میں نے پابندی سےروزانہ ڈائری لکھنا شروع کر دی ۔ یہ یادداشتیں ہزاروں صفحات پر پھیلی ہوئی تھیں اور جنگ ختم ہونے کے بعد بھی جاری رہیں۔ سترہ اٹھارہ سو صفحات پر انتہائی باریک حروف میں لکھی گئی تھیں جن میں سطروں کے درمیان فاصلے بھی پر تھے۔ لیکن برسوں بعد ایک دن میں ان سب سے تنگ آ گیا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرا کوئی نشان باقی رہے، یہاں تک کہ نام و پتہ بھی نہ رہے۔ اس لیے، باوجود اس بات کے کہ "مردگان باغ سبز" میں کہا گیا ہے کہ گھوڑے کے مرنے پر اس کی زین باقی رہ جاتی ہے اور آدمی کے مرنے پر اس کا نام، میں نے ساری یادداشتیں جلا ڈالیں ؛ تین دہائیوں کی محنت سے لکھی گئی تمام تحریروں کو نظر آتش کر دیا۔ نہ تو میں اب مصنف بننا چاہتا تھا اور نہ ہی اپنا کوئی نشان چھوڑنا چاہتا تھا۔ "دشت شقایق‌ها" اور "هفت روز آخر" خوش قسمتی سے اس واقعے سے پہلے ہی چھپ کر آ چکی تھیں، ورنہ وہ بھی آگ کی نذر ہو جاتیں۔ اور اگر قانون اور روایت کو معیار بنایا جاتا تو مجھے فوجی خدمت انجام ہی نہیں دینی چاہیے تھی، کیونکہ میں اپنی ماں کا واحد کفیل تھا۔ سو پر سوا سیر ان برسوں کی سخت معاشی حالت، بے گھر ہونے کا رنج اور کرائے  کے مکانوں میں رہنے کے سخت حالات تھے۔ دوسری طرف، میرے ہم عمر سبھی فوجی خدمت کی بجائے ایک جگہ جسے حوزۂ ہنری کہا جاتا تھا، جمع ہو گئے تھے۔ لیکن میں نے فوج میں جانا پسند کیا کیونکہ ایک تو میں کسی کا احسان نہیں لینا چاہتا تھا اور دوسرا یہ کہ جنگ کا تجربہ حاصل کرنا چاہتا تھا ۔ البتہ آخر کار میں پچھتایا، کیونکہ ہر طرف جمود اور خاموشی تھی، لیکن تب بہت دیر ہو چکی تھی۔ گھر واپسی کا راستہ، جانے کے راستے سے کہیں زیادہ مشکل تھا۔۔۔

اس دور کے بارے میں میری دو ڈائریاں چھپی ہیں: ایک "دشت شقایق‌ها" اور دوسری "هفت روز آخر"۔ پہلی کتاب بطور سپاہی جنگ میں میرے داخلے کی عکاس ہے اور دوسری اس کے آخری ایام کی تصویر پیش کرتی ہے۔ ان دونوں میں بنیادی فرق ہے۔ پہلی کتاب انتہائی پرامید اور شاعرانہ ہے جبکہ دوسری ڈایری تلخ  ہے، بہت تلخ، شاید آخری دنوں کے تقاضے کے مطابق۔

دشت شقایق‌ها، بہار سے موسمِ سرما 1987 تک کی یادداشتوں پر محیط ہے۔ ٹرین جو ہمیں جنوبی محاذ پر لے جانے والی تھی، جمعرات کو روانہ ہونی تھی، لیکن میں اور کچھ دوسرے لوگ ہفتے کو روانہ ہوئے۔ اسی لیے ہم بٹالین کی اصل تقسیم میں شامل نہ ہو سکے۔ ہم آپریشن نصر 4 کے بعد پہنچے تھے اور علاقے میں ہر چیز درہم برہم اور کافی حد تک بکھری ہوئی تھی۔ ہم نے اپنی باری آنے کا انتظار کرتے ہوئے گھنٹوں دھوپ میں بیٹھے رہے، اور پھر مزید  کئی گھنٹے بریگیڈ کے ہیڈ کوارٹر میں۔

پہلے میں انفنٹری میں تھا، پھر میں سگنل کور میں چلا گیا، اور کچھ عرصے بعد اسلحہ بردار بن گیا۔ سگنل کور کا دور میرے لیے سب سے زیادہ پرجوش تھا۔ ایک سگنل کور کے سپاہی کے طور پر میں ہر کسی سے رابطہ کر سکتا تھا اور دور دراز کے علاقوں سے بھی خبریں حاصل کر سکتا تھا۔ لائن مرمت کرنا ہمارے لیے سب سے زیادہ پرلطف اور خطرناک کاموں میں سے ایک تھا، خاص طور پر اس وقت جب بھاری گولہ باری ہو رہی تھی اور ہر چیز تباہ ہو رہی تھی۔

"دشت شقایق‌ها "مختصر اور ٹیلی گرافی انداز میں لکھی گئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ مصنف کے پاس وقت کی کمی تھی۔ یہ یادداشتیں دو پہریداروں کی ڈیوٹیوں کے درمیان وقفوں میں یا رات کے وقت فانوس کی مدھم روشنی میں لکھی گئی تھیں۔ دشت شقایق‌ها جنوبی علاقے، شوش سے لے کر فکہ اور شرهانی تک، فطرت اور جنگ کی ایک تصویر پیش کرتی ہے۔

کتاب دشت شقایق‌ها 128 صفحات پر مشتمل ہے اور اسے 1999 میں سورہ مهر پبلیکیشنز نے شائع کیا تھا اور اس کے کئی ایڈیشنز شائع ہو چکے ہیں۔