دندان مار

زینب احمدی
11 بازدید

فیچر فلم "دندان مار"  یعنی سانپ کے دانت،مسعود کیمیائی کی ہدایت کاری میں 1989 ء میں بنائی گئی۔ یہ فلم عراق کی جانب سے ایران پر مسلط کردہ جنگ کے بعد ایرانی عوام کی سماجی زندگی کو سیاہ رنگ میں پیش کرتی ہے جو مصیبتوں اور مشکلات سے بھری پڑی ہے۔

اس فلم کے ہدایت کار، مصنف اور کاسٹیوم ڈیزائنر مسعود کیمیائی ہیں، پروڈکشن پلانر اور مینیجر نصرت کریمی، اسسٹنٹ ڈائریکٹر علی رضا آقابابائی اور سعید پیردوست، کہانی احمد طالبی نژاد پر مبنی ہے، سنیماٹوگرافر ایرج صادق پور، سیکرٹری اور کاسٹیوم انچارج سوسن سلیمی، اسپیشل ایفیکٹس محمدرضا شرف الدین، ایڈیٹر مہدی رجائیان، بیج موسیقی فریبرز لاچینی، فوٹوگرافر عزیز ساعتی، آرٹ ڈائریکٹر کاظم فریبرزی، میک اپ محمدرضا قومی، پروڈیوسر مجید مدرسی اور اداکاروں میں فرامرز صدیقی، گلچہرہ سجادیہ، احمد نجفی، فریبا کوثری، حسن رفیعی، نرسی کرکیا، سعید پیردوست، محمدرضا خندان، نصرت کریمی، محمد عبداللہی، عباس قاجار، جلال مقدم، سعید کریمی وغیرہ شامل ہیں۔

109 منٹ کی یہ فیچر فلم، فلم میکر سٹاف کی پیشکش ہے اور 15 اکتوبر 1990  کو ریلیز ہوئی۔

رضا (فرامرز صدیقی) پرنٹنگ پریس میں کام کرتا ہے، رضا اپنی ماں کی وفات کے بعد اس کی یادگار اشیاء اور اپنے گمشدہ بھائی کا پلاک لے کر ایک ہوٹل میں رہنے لگتا ہے۔ اس کا روم میٹ ایک جنگ زدہ جنوبی نوجوان احمد (شاہد احمدلو) ہے۔ دونوں کے درمیان گہری دوستی ہو جاتی ہے۔ اگلے دن رضا اپنے بیگ میں ماں کی یادگار اشیاء نہیں پاتا۔ اسے احمد پر شک ہوتا ہے، لیکن احمد اسے قائل کرتا ہے کہ شاید یہ چیزیں وہ لوٹ لے گئے ہیں جو آقا عبدل (ذخیرہ اندوزوں کا دلال)کے لیےا سمگلنگ کا کام کرتے ہیں۔ وہ دونوں آقا عبدل کے پاس جاتے ہیں۔ رضا اپنی ماں کا ہار عبدل کے گلے میں دیکھتا ہے، لیکن احمد کے مشورے پر لڑائی سے گریز کرتا ہے۔ عبدل ایک لڑکی فاطمہ (فریبا کوثری) کو رضا کے حوالے کرتا ہے کہ اسے ایک خاص پتے پر چھوڑ آئے، لیکن رضا پہلے فاطمہ کو اپنے دوست جلال (جلال مقدم) کے گھر لے جاتا ہے اور پھر اسے اپنی ماں کے گھر پہنچا کر اپنی بہن زیور (گلچہرہ سجادیہ) کے حوالے کرتا ہے جو اپنے شوہر سے علیحدہ ہو چکی ہے۔ اس کے بعد رضا اور احمد عبدل کے پاس جاتے ہیں؛ اس کے سمگل شدہ مال کے گوداموں میں لڑائی ہوتی ہے اور وہ اسے آگ لگا دیتے ہیں اور گھر واپس آ جاتے ہیں۔[1]

اس فلم نے بی کیٹیگری میں 65,000,000 ریال کا بزنس کیا۔[2]

فلم "دندان مار" ایک زمرے میں ایوارڈکے لیے نامزد ہوئی؛ فرامرز صدیقی بہترین اداکار کے ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئے۔[3]

"دندان مار" مسعود کیمیائی کی اسلامی انقلاب کے بعد چوتھی فلم ہے۔ یہ فلم کیمیائی کے مخصوص سینما کو ظاہر کرتی ہے؛ ایک پر معنی اور تلخی آمیز سینما جس میں کیمیائی نے ایران کے بعد از جنگ معاشرے کو پیش کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اس فلم میں ناظرین معاشی، ثقافتی اور سماجی غربت سے گھرے معاشرے میں بے یار و مددگار انسانوں کا سامنا کرتے ہیں؛ ایسے کردار جو معاشرے کے نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور جو بدعنوانی، دشمنی اور ناانصافیوں کے گرداب میں صرف اپنی ذات کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فلم "دندان مار" کا ہیرو درحقیقت اینٹی ہیرو ہے؛ ناکام رہنے والا؛ چاہے وہ کتنی ہی کوشش کر لے، اس معاشرے میں کامیابی حاصل نہیں کر پاتا۔ یہ فلم تنہا اور بے کس انسانوں کی عکاسی کرتی ہے جو آہستہ آہستہ گم ہو رہے ہیں۔ کیمیائی کا معاشرے اور عوام پر یہ نظرئیہ ان کی انقلاب سے پہلے کی فلموں جیسے "گوزن ہا" میں بھی ملتا ہے۔ ان کا انسانوں پر نقطہ نظر مکمل طور پر جذباتی اور فطری ہے، اسی لیے ناظرین ان کی فلمیں دیکھ کر جذباتی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ ان کی فلموں کے کردار شہر سے باہر ایسی جگہوں پر ہیں جو تقریباً ویران ہیں اور جہاں وہ مسلسل بحرانوں کا شکار ہیں؛ بغیر اس کے کہ وہ خود اس کی وجہ جانتے ہوں۔ اس دنیا میں جو وہ اپنی فلموں میں تخلیق کرتے ہیں، محبت اور شفقت جو انسان کے لیے سکون بخش ہونی چاہیے، غائب یا عارضی ہے۔ ایسی دنیا میں جہاں کوئی امید نہیں، ناکام انسان کسی ایسی چیز کے منتظر ہیں جسے وہ خود بھی نہیں جانتے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق "دندان مار" ناظر کے رخسار پر ایک آنسو ہے؛ ایک بے مقصد کشتی ہے جو طوفانی سمندر میں بے سمت بہہ رہی ہے۔ خلاصہ کیمیائی کی فیچرفلم "دندان مار" سماجی المیہ ہے۔

دوسرے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مسعود کیمیائی "دندان مار" میں اپنی اصلی پہچان رکھتے ہیں اور اپنے دل کی بات کہتے ہیں۔ یہ فلم ان کی تمام فلموں کا تسلسل ہے؛ شروع سے اب تک۔ ان تجزیہ کاروں نے کیمیائی کی تمام فلموں میں یہ نتیجہ نکالا ہے کہ کیمیائی صرف اسی قسم کا سینما جانتے ہیں اور انسانوں کے دکھوں اور المیوں کو پیش کرنے والے سینما کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں۔ کیمیائی کے نقطہ نظر میں اہم تصورات، ان کی تمام فلموں بشمول اس فلم میں نظر آتے ہیں، جذباتی لمحات سے لگاؤ، مردانگی سے لبریز دوستیوں کا احترام، زخمی اور ناکام ہیروز سے محبت ہے۔ ان ناقدین کے مطابق فلم "دندان مار" کا مسئلہ صرف جذباتی، پرجوش اور توانائی سے بھرپور لمحات پر انحصار کرنا ہے۔ ان کے سینما میں انسانوں کے درمیان پرسکون لمحات نہیں ہیں بلکہ ضروری ہے کہ انسانوں کے درمیان تصادم، جھگڑا یا دوستی ہو۔ یعنی ان انسانوں کو ہر صورت اپنے اندر کی بے چینیوں کو باہر نکالنا ہوتا ہے؛ جیسے "دندان مار" کا آخری تصادم جس میں جذباتی اور احساسی لمحات کرداروں کا درست چناؤ اور ان کے درمیان تصادم سے زیادہ کامیاب ہیں۔ ایسی فلم کیمیائی کے سینما کا لازمی حصہ ہے اور اسی نظرئیے سے ان کی فلمیں دیکھنی چاہئیں اور اس سے زیادہ توقع نہیں رکھنی چاہیے۔[4]

کچھ دیگر کا خیال ہے کہ یہ فلم کیمیائی کی انفرادی ہیرو بنانے کو ظاہر کرتی ہے؛ ایک تنہا اور حق طلب ہیرو جو معاشرے سے الگ ہو کر اپنے حق کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ گویا اس معاشرے میں شہریوں کے حقوق کی بحالی کے لیے کوئی ادارہ موجود نہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اکثر یہ ہیرو غیر حقیقی طور پر کامیاب ہو جاتے ہیں۔[5]

فلم کا سماجی پس منظر جس کی جڑیں عراق کی جانب سے ایران پر مسلط کردہ جنگ میں ہیں، غیر ارادی طور پر اطالوی نیورئلزم کے سینما کی یاد دلاتا ہے؛ بعد از جنگ معاشرے کا سیاہ نمائندہ سینما جس کے اداکار سب کے سب زندگی کی مصیبتوں کے "دندان مار" زہر سے متاثرہ ہیں۔[6]

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ "دندان مار" دراصل فلم "قیصر" کی دوسری شکل ہے۔ کیمیائی اب بھی اصرار کرتے ہیں کہ وہ اپنی فلم "قیصر" کی باتوں کو اس میں دہرائیں۔ کیمیائی کا مسئلہ اسلامی انقلاب اور عراق کی جانب سے ایران پر مسلط کردہ جنگ کے بعد عوام کی زندگی کی بدحالی کو پیش کرنے میں، ان کے معاشرے اور بعد از جنگ عوام سے عدم واقفیت کی وجہ سے ہے۔ وہ اپنے ذہنی دنیا میں، جو ان کے عوام اور معاشرے کے بارے میں ہے، لچک دکھانے کو تیار نہیں ہیں اور بعد از انقلاب کی حقیقتوں کو دیکھنا نہیں چاہتے اور اب بھی وہی پرانی ذہنی تصویروں کو دہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ عوام اور انقلاب کے درمیان موجود نہیں ہیں اور آٹھ سالہ مقدس دفاع اور سماجی ثقافتی تبدیلیوں نے معاشرے کے ماحول کو صحیح طور پر نہیں سمجھا۔ اسی لیے وہ اب بھی ماضی میں گم ہیں اور ان کی فلموں کے کردار انقلاب سے پہلے کی فلموں کی نقل ہیں اور موجودہ ایران کے ماحول سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، کیونکہ وہ محض ان کے ذہن کی تخلیق ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ مسعود کیمیائی جمود کا شکار ہیں اور نہیں چاہتے کہ اپنی فلموں میں معاشرے کی تبدیلیوں کے ساتھ چلیں۔ انہوں نے اس فلم میں ان مناظر کو بھی شامل کیا ہے جو انقلاب سے پہلے کے زمانے سے ان کے لیے نوسٹالجیا بن چکے ہیں؛ جیسے ہوٹل کارون کے بورڈ کا دکھانا، گانا "دختر دریا" کا پلے بیک اور لالہ زاری کے گانوں کی یاد دہانی۔ یہ سب ان کے ذہن میں مسلسل جاری ہیں اور وہ موجودہ معاشرے کے حقائق کا سامنا  نہیں کرنا چاہتے یا نہیں کر سکتے۔ ان ناقدین کے خیال میں کیمیائی اس فلم میں جو کچھ پیش کرتے ہیں وہ معاشرے میں عوام کی زندگی کے المیوں اور بدقسمتیوں کی مبالغہ آرائی ہے یعنی ایک قسم کی سیاہ نمائی اور ناظرین کو مایوسی کی طرف لے جانا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ معاشرے کے ان تمام المیوں کے نمائش کے مقابلے میں، انقلاب کی اقددار کے تحفظ کے لیے عوام اور مجاہدین کی جانب سے بہادری اور قربانی کا ذرہ برابر بھی تذکرہ نظر نہیں آتا۔[7]

اگرچہ "دندان مار" داخلی ناقدین کی نظر میں قابل ذکر فلم نہیں تھی، لیکن بیرونی ناقدین کی توجہ اور تعریف کا مرکز بنی اور اسے 1991 عیسوی میں برلن فلم فیسٹیول میں خصوصی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ کچھ داخلی ناقدین کا خیال ہے کہ اس فلم کو بیرون ملک انعام دینے کی وجہ سیاسی مقاصد اور ایران کے مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں ان کی دلچسپی ہے۔[8]

 

[1] بہارلو، عباس، فیلم شناخت ایران- فیلم شناسی سینمای ایران 1993-1979 عیسوی، تہران، قطرہ، 2004 ، ص 221-222

[2] جاودانی، ہما، سال شمار تاریخ سینمای ایران جولائی 1900-اگست 2000 ، تہران، قطرہ، 2002 عیسوی، ص 213

[3] https://www.manzoom.ir

[4] قوکاسیان، زاون، مجموعہ مقالات در نقد و معرفی آثار مسعود کیمیایی، تہران، دیدار، 1999 عیسوی، ص 177-184

[5] ثابت محمودی، سہیل، "بازگشت کیمیایی"، ماہنامہ سروش، شمارہ 508، ہفتہ3 مارچ 1990 عیسوی، ص 35

[6] روزنامہ ابرار، دور دوم، شمارہ 379، 20 فروری 1990 عیسوی، ص 7

[7] مجلہ اطلاعات ہفتگی، شمارہ 2471، ص 58-59

[8] جوایز رسمی چہل و یکمین جشنوارہ بین المللی فیلم برلین در سال 1991 عیسوی"، ویب سائٹ برلیناله به زبان انگلیسی