اشخاص
رحمت اللہ اسدی
معصومه عابدینی
16 بازدید
سید رحمت اللہ اسدی ۲۲ اکتوبر ۱۹۶۹ کو صوبہ کہگیلویہ اور بویر احمد کے گاؤں کوشک میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نے اس سال ہونے والی بارش اور گاؤں کے خشک سالی سے نجات کے شکریہ کے طور پر ان کا نام رحمت اللہ رکھا۔ بچپن سے ہی وہ اپنے والد کی مدد کے لیے کھیت میں جایا کرتے تھے۔ ابتدائی اسکول کی دوسری جماعت میں ہی اسلامی انقلاب کی جیت ہوئی۔ انہوں نے ابھی مڈل اسکول مکمل نہیں کیا تھا کہ محاذ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔
اسکول میں انہوں نے اپنی کتابوں کے کونے میں لکھا تھا: ’’شہید سعید ہے اور شہادت سعادت ہے‘‘۔ چونکہ وہ جوان تھے اس لیے انہوں نے اپنے پیدائشی سرٹیفکیٹ میں سال پیدائش تبدیل کر دیا اور خفیہ طور پر یاسوج جا کر فوجی تربیت حاصل کرنے کے لیے بسیج میں داخلہ لیا۔ جب ان کے والد کو معلوم ہوا کہ رحمت اللہ نے رضاکارانہ طور پر محاذ پر جانے کا فیصلہ کر لیا ہے تو وہ یاسوج گئے اور انہیں واپس گھر لے آئے۔ لیکن بیٹے کی اداسی اور رونا دیکھ کر وہ مجبور ہوگئے اور 13 سالہ رحمت اللہ کو ۱۵ نومبر ۱۹۸۲ کو محاذ پر بھیج دیا گیا۔ ایک سال بعد، وہ اسلامی انقلابی گارڈ کور کے رکن بن گئے اور جنگ کے اختتام تک مغربی اور جنوبی محاذوں پر موجود رہے۔
سید رحمت اللہ نے درستگی اور مہارت کے ساتھ آر پی جی چلانا سیکھی اور جاسوسی کی کارروائیوں میں پیش پیش رہے۔ وہ جنگجوؤں کے ساتھ عاجزی اور انکساری سے پیش آتے تھے۔ فرنٹ لائن پر بھیجے جانے سے پہلے انہوں نے ایک ایسے جنگجو کے قدم چومے جو انتہائی بد مزاج تھا ۔ سردشت کے علاقے میں، انہوں نے جنگجوؤں کو حوصلہ دینے کے لیے مشن گشتی دستے بنائے۔ وہ خود آپریشنل محور کا دورہ کرتے اور جنگجوؤں کے مسائل حل کرتےتھے۔
اگست۱۹۸۶ میں، انہوں نے اپنی کزن سے شادی کی اور کچھ دنوں بعد محاذ پر واپس آگئے۔
ان کا دستور تھا کہ جب بھی وہ محاذ سے واپس آتے، شہداء کے خاندانوں یا غریب خاندانوں سے ملاقات ضرور کرتے اور ان کے مسائل کو جس قدر ممکن ہوتا حل کیا کرتے۔ اپنوں اور غیروں کی مدد کرنے میں وہ کسی امتیاز کے قائل نہ تھے۔ ان کے گھر کے سامنے سے پانی کا نالہ گزرتا تھا جو سردیوں میں پانی سے بھر جاتا تھا اور لوگوں کا سفر کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ رحمت اللہ نے لکڑی کے ٹکڑوں سے اس پر پل بنایا تاکہ لوگ آسانی سے اس پر سے گزر سکیں۔
19 ویں فجر ڈویژن میں کمپنی کی کمانڈ کرنے کے بعد، کربلا آپریشنز 4 اور 5 میں، وہ 48 ویں فتح بریگیڈ کی یازہرا سلام اللہ علیھا بٹالین کے ڈپٹی کمانڈر بنے۔ کربلا آپریشن 4 میں جب عراق نے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تو انہوں نے بار بار اپنا ماسک دوسروں کو دیا اور دوسروں کی جانیں بچا کر خود کیمیائی اثرات کا شکار ہو کر طور پر زخمی ہوگئے۔ لیکن انہوں نے کبھی کسی کو اس با ت کی ہوا نہ لگنے دی۔ نصر 4 آپریشن میں، جب فوجیوں کو برف کی سرنگ سے گزرنا پڑا، اور ٹھنڈی ہوا نے ان کی کھانسی کو مزید شدید کر دیا۔ کھانسی کی شدت کی وجہ سے ان کا رنگ کالا پڑ گیا اور ان کے آس پاس کے لوگوں کو ان علامات سے معلوم ہوا کہ وہ کیمائی حملہ کا شکار ہو گئے ہیں۔ وہ اپنی بیماری سے قطع نظر ہمیشہ اپنے مشن کو پورا کرنے کی تگ و دو میں رہتے تھے۔
دوسری بار، وہ اپنی ٹانگ پر توپ کے گولے کے چھرے لگنے سے زخمی ہوئے۔ لیکن زخم کے باوجود محاذ پر واپس آگئے۔
جنگ کے خاتمے کے بعد وہ علاج کے لیے تہران آئے اور عماد کمانڈ اینڈ گراؤنڈ فورسز سپورٹ میں ولی فقیہ کے نمائندہ دفتر کے سربراہ بن گئے۔سن 2000 میں اس کی بیماری کی علامات زیادہ شدید ہو گئیں۔ لیکن وہ نہیں چاہتے تھےکہ ان کے قریبی رشتہ داروں کو بھی اس کی خبر ہو۔ تمام تر تکالیف کے باوجود اس بیماری میں مبتلا ہو کر وہ کام پر اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ انہوں نے اپنے نظام انہضام کا ایک بڑا حصہ کھو دیا تھا وہ جو کچھ کھاتاےسیدھا پیٹ میں اتر جاتا وہ کھانے کا ذائقہ چکھنے سے بھی محروم ہوچکےتھے۔ انہیں جگر کا مسئلہ تھا اور اکثر سانس لینے میں تکلیف اور شدید کھانسی ہوتی تھی۔ لیکن وہ اپنے کام پر حاضر رہتے اور اپنے ماتحتوں اور ساتھیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے۔
مئی 2000 میں، سرجری کے بعد، وہ تھوڑا بہتر ہو گئے. لیکن یہ نسبتاً بہتری زیادہ دیر نہ چل سکی اور جون 2001 میں انکی دوبارہ سرجری ہوئی اور اس بار اس کی ریڈی ایشن کے لئے کیموتھراپی شروع کی گئی۔
ہسپتال کے بار بار دورے، طویل علاج اور بے خوابی نے انہیں تھکا دیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی حالت مزید خراب ہوتی گئی۔ وہ اب نہ کھا سکتے تھے اور نہ ہی پانی پی سکتے تھے۔ انہوں نے پچاس دن سے پانی نہیں پیا تھا اور ان کے ہونٹ خشک تھے اور خون بہہ رہا تھا۔ علاج کا کوئی اثر نہیں ہوا اور ان کی سانس کی تنگی اور کھانسی مزید شدید ہوگئی۔ بالآخر 28 اگست 2001 کو دوپہر کے وقت 70 فیصدجانبازی کے ساتھ ایام عزائے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔[1]
ان کی وصیت میں، ہم پڑھتے ہیں: "اپنے اعمال کو خدا کے لیے خالص رکھو، چاہے وہ چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ عمل کرنا اسے برقرار رکھنے سے زیادہ آسان ہے۔ آگاہ رہو کہ جہاں اخلاص نہیں وہاں اختلاف ہے اور جہاں اختلاف ہے وہاں خود غرضی اور ہوس ہے۔‘‘
[1] دفاع مقدس کے انساءیکلوپیڈیا کے ایک مقالہ کی تلخیص، دائرۃ المعارف دفاع مقدس جلد ۱، ص ۳۶۰ تا ۳۶۱۔ ناشر: مرکز دائرہ المعارف پژوہشگاہ (ریسرچ سینٹر) علوم و معارف دفاع مقدس، تہران ۲۰۱۱