دیدہ بان

ندا اربع
1 بازدید

فیچرفلم "دیده‌بان" ابراہیم حاتمی کیا نے 1988ء میں بنائی جو ایک ایسے محافظ کی کہانی بیان کرتی ہے جو توپ خانے کو اپنی لوکیشن کی نشاندہی کرتا ہے جس کے نتیجے میں دشمن کے فوجی جہنم واصل ہو جاتے ہیں اور وہ خود شہید ہو جاتا ہے۔

اس فلم کے ڈائریکٹر اور اسکرپٹ رائٹر ابراہیم حاتمی کیا ہیں جبکہ پروڈیوسر سید محمد میرزمانی ہیں۔   1988ء  میں یہ فلم فارابی سینما فاؤنڈیشن کی جنگی یونٹ کی پیشکش ہے، یہ 35 ملی میٹر کی رنگین فلم ہے جس کا دورانیہ 75 منٹ ہے۔[1]

فلم کا اسکرپٹ نصرت اللہ محمودزادہ کے تحریر کردہ مضمون "آخرین گرای دیده‌بان" پر مبنی ہے۔[2] اکبر عارفی، جو آپریشن والفجر 8 میں لشکر 27 محمد رسول اللہ (ص) کا محافظ تھا، کو جب معلوم ہوا کہ عراقی فوجیں فاو نمک فیکٹری کے قریب محاذ کے پیچھے حملہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں تو اس نے وہاں پہونچ کر توپ خانے کو اپنے مقام کی نشاندہی کر دی جس کے نتیجے میں وہ خود شہید ہو گیا۔ حاتمی کیا نے اسی واقعے پر فلم کا اسکرپٹ لکھا۔[3] اسکرپٹ کی نظرثانی کے بعد یہ ایک فیچر فلم کی شکل اختیار کر گئی۔

اسکرپٹ کی تحریر اور ایران کی جانب سے قرارداد 598 کا قبول کیا جاناتقریبا ایک ہی زمانے میں انجام پایا ۔ [4] اگرچہ فلم کی تیاری کے مراحل اس سے کافی پہلے ہی شروع ہو چکے تھے اور یہ کہانی محض ایرانی فوج کے ایک چھوٹے سے دستے کی عراقی حملوں میں سے ایک کے خلاف مزاحمت کے بارے میں تھی، لیکن فلم پر قرارداد کے بعد کے ماحول کے اثرات واضح ہیں۔[5]

اسکرپٹ کی پہلی اہم خصوصیت ڈائریکٹر کا ضرورت سے زیادہ واقعہ سازی سے گریز، گنے چنے چند کرداروں پر انحصار اور ایک ہی منظم فکری خط پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ اسکرپٹ پر حاکم روح، کہانی کو ایک قسم کی اندرونی کردار سازی کی طرف لے جاتی ہے۔ [6]

فلم کا بنیادی پس منظر ایک مجاہد کی زندگی کے آخری ایام میں سے تنہائی اور گوشہ نشینی کا ایک مختصر عرصہ [7] اور خود جنگ میں آنے والی ایک تبدیلی ہے۔[8] حاتمی کیا نے فلم میں براہ راست اثر انداز ہونے والے کرداروں کے لیے ایسے افراد کو منتخب کرنے کی کوشش کی جو محاذ اور اس کے ماحول سے واقف ہوں اور جنہوں نے اس فضا کو محسوس کیا ہو۔[9]

فلم کے اداکاروں میں مہرداد سلیمانی، علی رضا حیدری، اصغر پورہاجریان، غلامرضا علی اکبری، اسماعیل سلطانیان، سعید جوان شیر، روح اللہ خیرآبادی، حمیدرضا سلطانیان، حمیدرضا چارکچیان، محمد حسن میرزا کوچک شیرازی اور حسین کیائی شامل ہیں۔[10]

فلم "دیده‌بان" میں مبالغہ آرائی کا کم ہی احساس ہوتا ہے۔ ماحول کی قدرتی نوعیت انسان کو محاذ اور جنگ سے متعلق دستاویزی فلموں کی یاد دلاتی ہے۔[11] یہ فلم محاذ کے نقطہ نظر سے ہی محاذ کو دیکھتی ہے اور اسے دستاویزی انداز میں تخلیق کیا گیا ہے۔ [12]

سینماٹو گرافی کا کام کہریزک کے آس پاس کے ایک صحرائی علاقے میں انجام پایا ہے۔ مرکزی اور اہم کردار ایک معمولی موچی کا ہے جسے اس کی عقابی نگاہ رکھنے والی آنکھوں کی وجہ سے محافظ کے کردار کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ یہ کردار مہرداد سلیمانی نے ادا کیا ہے جو پہلی بار کسی فلم میں کیمرے کے سامنے آئے ہیں۔ اس فلم کے واحد پیشہ ور اداکار اسماعیل سلطانیان ہیں۔[13]  حاتمی کیا کے جنگی مناظر کو حقیقی روپ میں دھارنے کے لیے دو فوجی مشیروں اور ایک پیشہ ور محافظ نے ان کا ساتھ دیا جو اصل میں "دیده‌بان" کے مکالمے بولنے والے تھے۔ [14] فلم بنانے کے لیے BL کیمرے کا استعمال کیا گیا۔ [15]

"دیده‌بان" 1988ء کی سب سے نمایاں جنگی فلم اور آٹھ سالہ جنگ کا ایک مختصرحصہ ہے۔ [16] "دیده‌بان" جنگی فلم کے طور پر ، محاذ سے باہر کا ایک بھی منظر پیش نہیں کرتی۔ حاتمی کیا نے قرارداد 598 کی قبولیت کے بعد فلم نامے میں تبدیلیاں کیں اور اس میں "امدادگر" کا کردار شامل کیا۔ [17]

فلم کے مرکزی کردار "عارفی" کی کردار سازی تین مراحل پر مشتمل ہے: روانگی سے پہلے، روانگی کے دوران، ایرانی مورچے تک پہنچنے اور اس کے بعد کے واقعات، حتی کہ حتمی فیصلہ کرنے تک؛ یہ سب انسانی رد عمل کی ایک قسم کی اندرونی درجہ بندی کے ذریعے غیر محسوس عناصر کے ساتھ تعلق کے حوالے سے تشکیل پاتا ہے۔[18]

حاتمی کیا "دیده‌بان" میں "عارفی" کے کردار کی نشوونما کو دکھاتے ہیں اور اس کے روحانی ارتقا کو شک و تردید اور بے چینی سے یقین کی طرف سفر کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ [19]

حاتمی کیا ایک متوازن اورمعتدل نقطہ نظر برقرار رکھتے ہوئے "دیدہ بان" کو پیش آنے والے واقعات کو نہیں بھولتے۔ "دیده‌بان" نے مشکل جنگی حالات میں موضوع کے انتخاب کے بارے میں ایک ذاتی نقطہ نظر کو جنگی سینما میں متعارف کرایا جس کی وجہ سے جنگی سینما کے ہیرو، ہیرو پن کے مظاہرے سے دور رہ کر محض ذاتی اور اندرونی عقیدے پر مبنی فیصلوں کی بنیاد پر اپنے ارد گرد کے ماحول سے ممتاز ہوئے۔ [20] حاتمی کیا فلم "دیده‌بان" میں بے چینی پیدا کرنے اور سامعین کو عارفی کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے ناظرین کو ہر چیز عارفی کی آنکھوں سے دیکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ [21]

"دیده‌بان" حاتمی کیا کے بہت بڑے سینما کے میدان میں قدم رکھنے کی پہلی کوششوں [22] اور ایران کے جنگی سینما کی پہلی کامیاب فلموں میں سے ایک ہے جو اس کے روحانی اور معنوی پہلوؤں کو منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ [23] اس فلم میں پہلی بار "شہادت" کے تصور کے کچھ پہلوؤں کو پیش کیا گیا۔ [24] وہ "قربانی" اور "شہادت" جیسے عناصر کی معنوی اقدار کو بیان کرنے کے لیے بدن سےروح کی جدائی اور "شہید" کی ملکوتی پرواز کے لئے سطحی تصورات کا استعمال نہیں کرتے بلکہ فلمی زبان سے مدد لیتے ہیں۔ [25] تکنیک پر عبور، بیان میں جرات اور سچائی نے اس فلم کو ایک شاہکار بنا دیا ہے۔ [26] "دیده‌بان" 1980ء کی دہائی کی کم سے کم نعروں والی اور بناوٹ کے احساس سے پاک جنگی فلم ہے۔[27]  سید مرتضی آوینی کایہ کہنا تھا کہ فلم "دیده‌بان" شہادت کے مفہوم کے ایک پہلو کو پیش کرتی ہے۔[28]

حاتمی کیا نے اداکاروں کی ڈائریکٹنگ میں کافی حد تک کامیابی حاصل کی لیکن فلم "دیده‌بان" میں ان کا نقطہ عروج غیر معمولی اور انوکھی تصویر کشی، مناسب مقامات کا انتخاب اور سوچے سمجھے اسکرپٹس کا مظہر ہے۔[29]

1989ء کے فروری میں منعقدہ ساتویں بین الاقوامی فجر فلم فیسٹیول میں طویل فلموں کے مقابلے کے سیکشن میں، ابراہیم حاتمی کیا کی فلم "دیده‌بان" نے دوسرے نمبر پر بہترین فلم کا کرسٹل سیمرغ ایوارڈ جیتا۔ [30] فلم "دیده‌بان" کے ساونڈ ایفیکٹس اورساونڈ مکسنگ کو شاید فیسٹیول کے مجموعے میں "بہترین" قرار دیا جا سکتا ہے۔[31]  اس فیسٹیول میں فلم "دیده‌بان" کی تخلیق پر حاتمی کیا کو خصوصی جیوری ایوارڈ  سےبھی نوازاگیا۔[32]

1990ء میں دفاع مقدس کی فلموں کی تیسری تقریب میں، بہترین ہدایت کاری اور بہترین طویل فلم کا اعزازی ڈپلومہ ابراہیم حاتمی کیا کو فلم "دیده‌بان" [33]کے لیے دیا گیا اور بہترین فیچر فلم فارابی کا پروڈیوسر ایوارڈ فلم کے پروڈیوسر کو دیا گیا جبکہ حاتمی کیا کو فلم کی ڈائریکٹنگ کے لیے نقد انعام دیا گیا۔ [34]

فلم "دیده‌بان" کا شو، گروپ A کے معیار پر، 20 جون 1988ء سے تہران کے کئی سینما گھروں بشمول پارس، تہران، جام جم، شباہنگ، قدس اور ایران نامی سینما گھروں میں شروع ہوا اور اس نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ [35] فلم نے تقریباً تین ملین چار لاکھ تومان کا بزنس کیا۔ [36]

17 اپریل 2019ء کو، سینتیسویں عالمی فجر فلم فیسٹیول نے ابراہیم حاتمی کیا کی فلم "دیده‌بان" کی ایڈٹ شدہ کاپی کی نمائش کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کا  آغاز کیا۔ [37]

 

[1]  امید، جمال، تاریخ سینمای ایران (1979-1990)، تہران، روزنه، 2004، ص 742 اور 865

[2] ماهنامه سوره، پہلی سیریز، شماره 2، 1989، ص 67

[3] بولتن سینمایی بنیاد فارابی، شماره 19، اکتوبر 1988، ص 48

[4] معززی‌نیا، محمدحسین، مجموعه مقالات در معرفی و تحلیل آثار ابراهیم حاتمی‌کیا، «حاتمی‌کیا به روایت حاتمی‌کیا»، ثقافتی و فنکارانہ مرکز ایثارگران، موسم سرما 1997، ص 18

[5] امید، جمال، سابق، ص741، ماہانہ سینمائی فلم، سال ہفتم، شمارہ 79، جولائی 1989، ص 30  

[6] حاتمی‌کیا، ابراهیم، دیده‌بان (فیلمنامه)، فرهنگ کاوش، موسم سرما 2001، ص 8

[7] معززی‌نیا، محمدحسین، سابق، ص 18 اور 19

[8] ماهنامه فیلم، سال هفتم، شماره 79، جولائی 1989، ص 30

[9] فراستی، مسعود، جنگ برای صلح: مروری بر سینمای دفاع مقدس، جلد اول: گزیده نقدها، «کوچک اما سپید»، انجمن سینمای انقلاب و دفاع مقدس، 2000، ص 58

[10] امید، جمال، فرهنگ فیلم‌های سینمای ایران، جلد 3: 1987-1998، تہران، نگاه، دوسرا ایڈیشن، 2001، ص 802

[11] امید، جمال، تاریخ سینمای ایران (1979-1990)، ص 742

[12] مجله سروش، سال دهم، شماره 451، نومبر 1988، ص 39

[13] سابق، شماره 466، جنوری 1989، ص 46

[14] مجله سوره، پہلی سیریز، شماره 2، 1989، ص 67

[15] مجله سروش، سال دهم، شماره 451، جنوری 1989، ص 39

[16] امید، جمال، تاریخ سینمای ایران (1979-1990)، ص 741

[17] مجله سروش، سال دهم، شماره 451، جنوری 1989، ص 39

[18] حاتمی‌کیا، ابراهیم، دیده‌بان (فیلمنامه)، فرهنگ کاوش، موسم سرما 2001، ص 8

[19] فصلنامه سینمایی فارابی، پانچویں سیریز، شماره 3، موسم گرما 1993، ص 96

[20] حاتمی‌کیا، ابراهیم، دیده‌بان (فیلمنامه)، فرهنگ کاوش، 2001، ص 9 تا 11

[21] فصلنامه سینمایی فارابی، پانچویں سیریز، شماره 3، موسم گرما 1993، ص 93

[22] مجموعه مقالات در معرفی و تحلیل آثار ابراهیم حاتمی‌کیا، «خاکستر ققنوس»، ص 35

[23] امید، جمال، تاریخ سینمای ایران (1979-1990)، ص 741

[24] معززی‌نیا، محمدحسین، مجموعه مقالات در معرفی و تحلیل آثار ابراهیم حاتمی‌کیا، ص 35

[25] امید، جمال، تاریخ سینمای ایران (1979-1990)، ص 742

[26] سابق، ص 741

[27] مجله سروش، سال دهم، شماره 466، جنوری 1989، ص 46

[28] معززی‌نیا، محمدحسین، مجموعه مقالات در معرفی و تحلیل آثار ابراهیم حاتمی‌کیا، ص 19

[29] فراستی، مسعود، جنگ برای صلح، ص 67 اور 69

[30] اسماعیلی، امیر، سینمای ایران (از بلوغ تا تبلور)، پہلا ایڈیشن، تہران، گستره، 2001، ص 630 اور 631

[31] مجله سوره، پہلی سیریز، شماره 2، اپریل 1989، ص 51 تا 53؛ فراستی، مسعود، جنگ برای صلح، ص72

[32] مجله سروش، سال دهم، شماره 466، جنوری 1989، ص 43

[33] سومین یادواره فیلم دفاع مقدس، ستاد کل فرہنگی و تبلیغات جنگ فرماندهی کل قوا، اپریل 1990، ص 11

[34] مجله سوره، دوسری سیریز، شماره 4، 1990، ص 79

[35] امید، جمال، تاریخ سینمای ایران (1979-1990)، ص 742 اور 865

[36] درّی اخوی، بهمن، فیلم‌شناسی دفاع مقدس (1991-1981)، معاونت تبلبغات و انتشارات، 1992، ص 119۔

[37] روزنامه ایران، شماره 7039، 20 اپریل 2019، ص 8