اشخاص
احمدی، عباس علی
معصومه عابدینی
13 بازدید
آپ 1940 میں کرمان شاہ کے علاقے سقز کے گاؤں سطرشہر میں ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ چھٹی جماعت کی تعلیم کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد بیس سال کی عمر میں فوج میں بھرتی ہوگئے اور1961-62 میں تہران کے کیڈٹ اسکول میں تھرڈ سارجنٹ کی ابتدائی فوجی تربیت حاصل کرنے میں مشغول ہوگئے۔ اس کے بعد انہیں اہواز کے 92 ویں آرمرڈ ڈویژن بھیج دیا گیا۔
1972 میں، ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد، وہ آفیسرز ٹریننگ اسکول میں داخل ہوئے۔ اس کے بعد شیراز میں تربیتی کورس مکمل کرنے کے بعد انہیں قزوین کے 16ویں آرمرڈ ڈویژن میں منتقل کر کے ہمدان بریگیڈ سونپ دی گئی۔ وہاں پر انہوں نے مذہبی مسائل کے سلسلے میں یعقوب احمد بیگی سمیت کچھ افسران کے ساتھ خیالات کا تبادلہ کیا۔
1972 میں، وہ اپنی ذاتی درخواست پر کرمانشاہ کے 81ویں ڈویژن چلے گئے۔ انہوں نے ٹینک یونٹ کے مرمتی شعبوں کو فعال کرنے کے لیے مؤثر طریقے سے کام کیا۔ سرپل ذہاب، اسلام آباد اور بستون بیرکوں میں، انہوں نے تمام ٹینکوں کو جنگ کے لیے تیار رکھنے کے لیے دیگر افواج کی مدد سے تمام سہولیات سے لیس مرمت کا اسٹور قائم کیا۔
1978 میں انقلاب اور عوامی مظاہروں کا آغاز ہوتے ہی انہوں نے اپنے فوجیوں کو اس وقت کی سیاسی اور سماجی صورتحال سے آگاہ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ہی کرمانشاہ میں عوامی مظاہرے شروع ہوتے ہی سینما گھروں اور بدعنوانی کے مراکز کو آگ لگائے جانے کے واقعات کی روک تھام کے لئے ایک یونٹ انکے حوالے کی گئی ۔ انہوں نے اپنے ماتحت سپاہیوں کو اس بات کی تاکید کی کہ ہم قوم اور ملک کے سپاہی ہیں اور ہمیں کسی بھی حالت میں عوام پر گولی چلانے کا حق نہیں ہے۔
ساواک نے ان کے گھر سے متعدد مذہبی کتابیں اور کیسٹیں اور امام خمینی کے کتابچے برآمد کئے جس کے بعد وہ کافی عرصے تک زیر نگرانی رہے اور بالآخر 31 اکتوبر 1978 کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیئے گئے۔
11 فروری 1979 کو ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح کے ساتھ ہی عباس علی کو بھی دوسرے قیدیوں کی طرح جیل سے رہا کر دیا گیا۔ کردستان پر حملے کے آغاز کے ساتھ ہی، ان کی کمپنی 17، اگست 1979 کو پاوہ منتقل ہو گئی۔ جیسے ہی انقلاب مخالف عناصر نے ان کے بکتر بند دستےکے پاوے کی طرف بڑھنے کی خبر سنی تو وہ گھبرا کر بھاگ اٹھے۔ 18 اگست کو وہ پاوے کے عوام کے استقبال کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے۔ پھر ڈاکٹر مصطفی چمران کی فرمائش پر متعدد رضاکاروں کے ساتھ تین ٹینکوں کے ساتھ نوسود چلے گئے۔نوسود شہر کا کنٹرول سنبھالنے کے چند دن بعد، وہ کرمانشاہ کے 81ویں ڈویژن کے کمانڈر کے حکم سے کرمانشاہ کی بیرکوں کی طرف روانہ ہوئے۔
22ستمبر 1980 کو اسلامی جمہوریہ ایران پرعراقی فوج کے باقاعدہ حملے کے آغاز کے ساتھ ہی احمدی اپنی کمان میں موجود یونٹ کے ساتھ گیلان غرب کے محاذ کی طرف روانہ ہوئے۔ اس کے بعد 217 ویں بٹالین کے سات ٹینکوں کے ساتھ کیپٹن حصاری کی کمان میں گاردہ نو، سرپل اور کورہ موش محوروں میں انہیں تعینات کیا گیا اور انہوں نے اس محور میں دشمن کی فوجوں کی پیش قدمی کو روک دیا۔
جیسے ہی عراقی ٹینک بیستون بیرک کی سڑک عبور کرکے قرہ بلاغ قصبے کی طرف بڑھے، انہوں نے اپنی افواج کو دو گروپوں میں تقسیم کیا اور "زنجیر" کا حربہ استعمال کرتے ہوئے دشمن کی طرف پیشقدمی کی۔ اگرچہ دشمن کا توپ خانہ قراویز کی بلندیوں اور اس کے پیچھے سے اور ساتھ ہی سراب گرم سے بھی ان پر شدید گولہ باری کر رہا تھا ۔ جب اندھیرا چھا گیا تو وہ قرہ بلاغ شہر کے سامنے میدان میں اترے تاکہ سڑک سے عراقی ٹینکوں کی سمت معلوم کر سکیں لیکن دشمن نے انہیں دیکھ لیا ۔ چونکہ انہیں دشمن کے ٹھکانے اور ساز و سامان کا صحیح علم نہیں تھا، اس لیے انہوں نے رابطہ افسر اور جنگی گروپ کے کمانڈر (کیپٹن حصاری) کے حکم پر اس علاقے میں ٹینکوں کا بندوبست کیا۔ اس بات سے بے خبر کہ قراویز کی بلندیوں سے دشمن نے ان پر نظر رکھی ہوئی ہے اور وہ ان کے ساز و سامان اور افواج کی جگہ اور تعداد کے بارے میں جانتا ہے۔
جب کیپٹن حصاری زخمی ہوئے تو احمدی نے یونٹ کی کمان سنبھال لی اور فورا ٹینکوں کو واپس پلٹنے کا حکم دیا۔ لیکن اگلے دن (29 ستمبر 1980 ) احمدی کی بہترین حکمت عملی اور انکے ساتھیوں کی شدید مزاحمت کی وجہ سے سرپل ذہاب تک دشمن کے نفوذ کا راستہ بند ہو گیا۔ اس دفاعی آپریشن میں احمدی شدید زخمی ہوئے اور ان کو کرمانشاہ کے اسپتال منتقل کیا گیا ۔
مطلع الفجر آپریشن کے لیے یونٹ کی تیاری کے دوران، جنگی سازوسامان کی خدمات اور دیکھ بھال کی نگرانی کے علاوہ، احمدی نے فوجیوں کو ایک جگہ جمع کیا اور ان کے سامنے اخلاقی مسائل بیان کیے اور جہاد کی حیثیت اور وقار کے بارے اسلامی نقطہ نگاہ کی وضاحت کی۔
4جنوری 1981کو، جب 285 ویں بٹالین آپریشن کے لیے روانہ ہورہی تھی، احمدی بٹالین کمانڈر (کیپٹن حسین فرہادی) کے حکم سے انفنٹری یونٹوں میں سے ایک کی قیادت کے لئے چنے گئے۔ دشمن کی پوزیشنوں کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے اور شدید گولہ باری کے دوران وہ دشمن کی بارودی سرنگ سے ٹکرانے کی وجہ سے شہید ہوگئے۔
شہید عباس علی احمدی کے پسماندگان میں 2 بچے ہیں۔ ان کی وصیت نامہ میں، ہم پڑھتے ہیں: "اس لڑائی میں جہاں ملک پر کچھ منافقوں نے حملہ کیا ہے، دفاع اتنا ہی ضروری اور ناگزیر ہےجتنا ہر مخلوق کے لیے اپنی ذاتی زندگی، وقار اور وجود کا دفاع کرنا ضروری ہے... میں اپنے تمام پیاروں، خاص کر اپنے پیارے بچوں کو تقویٰ، عفت، دیانت، ایمان، جرأت اور انصاف کی دعوت دیتا ہوں، اور میں آپ سے کہتا ہوں کہ دین اور اسلام کے معاملے میں مہربان رہئے اور قرآن کے معانی کو پڑھنے اور جاننے میں مستعد رہئے۔[1]
حوالہ تصویر: دائرۃ المعارف دفاع مقدس جلد ۱ صفحہ ۳۶۴، مرکز دائرۃ المعارف پژوہشگاہ (ریسرچ سینٹر) علوم و معارف دفاع مقدس تہران ۲۰۱۱
[1] دفاع مقدس کے انسائیکلو پیڈیا کے ایک مقالہ کی تلخیص، دائرہ المعارف دفاع مقدس جلد ۱ ص ۳۶۴ اور ۳۶۵، ناشر: مرکز دائرۃ المعارف پژوہشگاہ (ریسرچ سینٹر) علوم و معارف دفاع مقدس، تہران ۲۰۱۱