آثار

یادداشت کی یادوں کے ساتھ (با یاد خاطرہ)

نسرین خالدی
44 بازدید

کتاب ’’با یاد خاطرہ‘‘ ایران کی فارسی تاریخ میں   یاداشت اور یاداشت نگاری  کا تعارف ہے۔ اس میں یادداشتوں کی تحریر کا ابتداء سے اسلام تک کے دور کا جائزہ لیا  گیا ہے۔

یہ کتاب در اصل تین جلدی مجموعہ کی پہلی جلد ہے۔ مولف کا کہنا ہے کہ اس کی پہلی دو جلدیں  میں موجود مطالب تیسری جلد میں موجود مباحث کو سمجھنے کے لئے زینہ ہیں۔ لہذا ان کا عقیدہ ہے کہ ایران میں یادداشت نگاری اور یادداشت نگاری کی ادبیات کی تحریک کا ظہور  ، انقلاب اسلامی اور بالخصوص ایران عراق جنگ کے ضمن میں، تاریخی یادداشت نگاری کا ہی استقرار اور تسلسل ہے۔

تیسری جلد جداگانہ طور پر یادداشت نویسی اور دفاعی جنگ کے واقعات کی نگارش  کی کیفیت اور کمیت کے بارے میں بحث کرتی ہے۔ اس مجموعہ  میں سے اب تک صرف اس کی پہلی جلد ہی چھپ سکی ہے۔ باقی دو جلدیں ابھی تدوین و تصنیف کے مراحل سے گذر رہی ہیں۔

مقالہ ’’درآمدی بر خاطره‌نویسی و خاطره‌نگاشته‌ها در گستره‌ ادب مقاومت و فرهنگ جبهه‘‘ کی تلخصیص و تقریر سے اس کتاب یعنی ’’بایاد خا طرہ‘‘  کے لئے زمین ہموار ہوئی۔یہ مقالہ ۱۹۹۱؁ء میں ادبیات انقلاب اسلامی کی ادبیات کی تحقیق کے پہلے سیمینار منعقدہ تہران یونیورسٹی میں پیش کیا گیااور اس  کی خاصی پذیرائی ہوئی۔

اس کتاب کے مصنف علی رضا کمری ہیں اور اس کتاب کی تصحیح کا کام فرانک جمشیدی نے انجام دیا۔ کتاب کی جلد پارسا نژاد صاحب کی تخلیق ہے۔ یہ کتاب دفتر ادبیات و ہنر مقاومت کی پانچسو پندرہویں کتاب ہے جبکہ  یہ اسی دفتر کی سولہویں تحقیقی  و تنقیدی کتاب شمار کی جاتی ہے۔ یہ کتاب A5 کے سائز میں کاغذی جلد کے ساتھ چھاپی گئی ہے۔ جلد بنانے والے نے کتاب کے عنوان کا لحاظ رکھتے ہوئے تین دھندلی تصاویر اور کچھ کتابوں کی تصاویر کو جلد میں استعمال کیا ہے۔ اس کتاب کے ۲۰۶ صفحات ہیں۔ پہلی بار یہ کتاب ۲۰۰۴؁ء میں ۲۲۰۰ کی تعداد میں شائع ہوئی اور اس کی قیمت ۱۳۰۰ تومان مقرر ہوئی۔ یہ کتاب انتشارات سورہ مہر نے نشر کی۔ ۲۰۱۰؁ء اور ۲۰۱۱؁ء میں یہ کتاب دوبارہ اشاعت کے مراحل سے گذری۔

اس کتاب کا آغاز سورہ واقعہ کی ۶۲ویں آیت سے ہوتا ہے۔ پیش گفتار  اور ابتدائیہ دونوں مصنف کے قلم سے لکھے گئے ہیں۔ مصنف نے اس کتاب کو دو حصوں میں تحریر کیا ہے۔ پہلے حصہ کو ’’کلیات‘‘ کا نام دیا ہے اور دوسرے حصہ کو ’’ ابتداء سے اسلام کی آمد تک تاریخ ِ یادداشت نگاری‘‘ کا نام دیا ہے۔

پہلا حصہ خود دو فصلوں پر مشتمل ہے۔  پہلی فصل میں یادداشت کی کلیات کے پیش نظر ’’لفظ شناسی‘‘، ’’تعریف، لفظ کی اصطلاحی تفسیر‘‘، پہلی یاد داشت  کا ظہور‘‘، یاد داشت کا استعمال‘‘، یادزدگی‘‘ ، ’’حافظہ کی بحالی اور حقیقت کے ساتھ اس کی نسبت‘‘، حافظہ اور یادداشت کا سیال ہونا‘‘، فردی، اجتماعی اور قومی یادداشت‘‘  کے عناوین شامل ہیں۔ دوسری فصل میں یادداشت نویسی کی کلیات  پر بحث کی گئی ہے ۔ اس فصل میں ’’یادداشت کی تعریف‘‘، یاد داشت کی مختلف شکلیں‘‘، یا د داشت و حافظہ، علم ادب اور تاریخ کی نگاہ میں‘‘، یادداشت پر تنقید اور اس کی موزونی کا جائزہ‘‘ ، یادداشت  کے مماثل‘‘، یاد داشت کی تاریخ اور اس کا تحول‘‘ کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔

کتاب کے دوسرے حصہ میں مصنف نے   دو فصلوں میں ’’  ابتدا سے اسلام تک یاد داشت نگاری کی تاریخ‘‘  کے باب کو بیان کیا ہے۔ پہلی فصل  کا عنوان ’’ قدیم پارسی آثار کا پہلا دور‘‘ ہے۔ یہ فصل ’’دھندلکے میں طلوع‘‘،  ’’مشرق، زرتشت کے الہامات اور داستانوں کے ہالے میں‘‘، ’’ خط و کتابت اور کتبہ نویسی‘‘،  بیستون کا کتبہ‘‘ کے عناوین پر مشتمل ہے۔ دوسرے حصہ کی دوسری فصل ’’پارسی آثار  وسطیٰ کا دوسرا دور‘‘ کے عنوان سے درج ہے۔ اس فصل میں ’’اشکانیان، زبانی تاریخ کی سنت پر پلٹنا‘‘، ’’ساسانیان، تاریخی، ادبی اور فنی بیانیوں کی یاد داشت‘‘،  ’’ برسیوں اور عرس کا واضح  کردار‘‘، ’’ کتبہ نویسی، کعبہ زرتشت کا کتبہ‘‘،  کتابوں کی روداد‘‘ کے عناوین پر بحث کی گئی ہے۔ مصنف نے ہر فصل کے اختتام پر اس فصل سے مربوط حاشیوں کا اضافہ کیا ہے تاکہ قاریوں کو متن کے بارے میں زیادہ وضاحت مل سکے۔

کتاب کے اختتام میں درج ہے : ’’ کتبوں کا وہ تمام شاہانہ  کر و فر اس کے باوجود کے ان کے بارے میں بار بار بات کی گئی۔۔۔۔ شاہان زمانہ کے ساتھ ہی مٹ گیا۔۔۔ مگر ان کی یاد نسلوں میں منتقل ہوگئی اور  دنیا کی بے وفائی  اور خوبصورتی و بد صورتی کی ناپائیداری کی مثال اور مصداق بن گئی۔ اب یہ آدھ کھڑی دیواریں، یہ مینار، یہ عمارتیں سب ان کے دیکھنے  والوں کی یاد بن کر رہ گئی ہیں۔[i]

 

کتابیات کے حصہ میں  تقریبا ۳۰۰ منابع کی فہرست درج ہے جن سے اس کتاب کی تصنیف میں مدد لی گئی ہے۔

اس کتاب کی اشاعت کے بعد، سارا ، زیبا کلا، روزنامہ ہمشہری (۲۴ جنوری ۲۰۰۶) کے صفحہ ۱۹ پر  ’’یادداشتوں کے حوالے سےکتاب یا یاد خاطرہ  پر ایک نظر‘‘ کے عنوان کے ذیل  میں اس کتاب پر تبصرہ کرتی ہیں۔ مصنف کی یادداشت اور یادداشت نویسی کے ضمن میں سرگرمیاں اور ورکشاپس کا انعقاد اس بات کا سبب بنا کہ  ۲۰۱۰؁ء میں ہمدان کے شہر میں ’’خاکریز خاطرہ‘‘ کے عنوان سے پروگرام میں مصنف کی سرگرمیوں کی پذیرائی کی گھی۔ ’’کانون اندیشہ ہائے جوان‘‘ کی تنقیدی نشستوں میں یہ کتاب ۲۰۱۱؁ء میں پیش کی گئی۔ ڈاکٹر محمد رضا جوادی یگانہ، اپنی ویب سائٹ پر اس نشست کا ایک  واقعہ، ’’کتاب با یاد خاطرہ پر تنقید‘‘ کے عنوان سے ۲۰۱۱؁ء میں ہی نشر کر چکے ہیں۔ [ii]

 

[i] کمری، علی رضا، با یاد خاطرہ، جلد۱، سورہ مہر، تہران ۱۳۸۳ ھ ش

[ii] Mrjavadi.com