آثار
میرا نام چفیہ ہے (اسم من چفیہ است)
محمد علی عباسی اقدم
51 بازدید
’’اسم من چفیہ است‘‘ مرتضیٰ سرہنگی کی کتاب کانام ہے۔ یہ کتاب کم حجم کی حامل ہے اور اسے سات سے بارہ سال کی عمر کے بچوں کے لئے لکھا گیا ہے۔ اس کتاب میں چفیہ کا تعارف اور اس کے استعمالات بیان کئے گئے ہیں۔ سرہنگی صاحب نے اس کتاب میں جنگی محاذ کی ایک نشانی (شعار) کو بہت سادہ زبان میں بچوں کے لئے بیان کیا ہے۔
چپیہ یا کوفیہ ایک رومال ہے جس کو عرب ٹوپی کی جگہ سر پر پہنتے ہیں اور اس کے اوپر عقال (اگال) باندھتے ہیں۔[i] چفیہ یا چپیہ کو سر پر باندھنے والے رومال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ آنکھوں ، سر اور منہ کو گرد و غبار اور دھوپ سے بچایا جاسکے۔ چفیہ کو ایک رسی کے ذریعہ سر پر باندھا جاتا ہے جس کا نام عقال ہے مجموعی طور پر ان کو چفیہ اور عقال کا نام دیا جاتا ہے۔ چفیہ کا کلمہ مشہور ہونے کے باوجود بھی بعض لوگ اس کو غلط العام مانتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ کوفیہ کا کلمہ استعمال کیا جانا چاہئے۔ کوفیہ اور عقال کو بعض اوقات غلط طریقہ پر کفیہ اور عقال ، چپیہ ارگال یا چپیہ عگال بھی بولا اور لکھا جاتا ہے۔[ii]
ایران عراق جنگ میں، ایران کے جنگجو عموما چفیہ کو اپنی گردن میں لپیٹ کر رکھتے تھے اور جنگ کے محاذ پر اس کو مختلف طریقوں سے استعمال کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ اس رومال نے جنگی رومال کے طور پر اپنا تشخص بنا لیا اور جنگی جوانوں کی نشانی بن گیا۔
یہ کتاب ۱۵ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کی جلد کاغذی ہے جس پر مصوری اور چھپائی کی گئی ہے تاکہ بچوں کے لئے پر کشش اور خوبصورت رہے اور بچے اس کتاب سے مرتبط رہیں اور چفیہ کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔
اس کتاب میں کہانی کو چفیہ کی زبانی بیان کیا گیا ہے۔ ابتدا میں چفیہ سادہ زبان میں اپنا تعارف کرواتا ہے۔ اپنے تعارف کے بعد اپنے مختلف استعمالات بیان کرتا ہے۔ قصہ کچھ یوں شروع ہوتا ہے ’’میرا نام چفیہ ہے، مجھے چپیہ بھی کہتے ہیں۔ میں ایک بڑا رومال ہوں۔ مجھ میں سفید اور کالے چوکور خانے ہیں۔ میرا کپڑا سوتی ہے۔ جس وقت عراق کی فوج نے ایران کی زمین پر حملہ کیا تو میں بھی دفاع کے لئے محاذ جنگ پر چلا گیا۔ اس وقت کسی کو یہ خیال بھی نہیں تھا کہ میں بھی جنگ میں کوئی کارنامہ انجام دے سکتا ہوں لیکن میں جنگ کے آخری ایام تک جنگجوؤں کے ہمراہ رہا۔‘‘
اگلے صفحات میں سرہنگی صاحب تصویری فن سے استفادہ کرتےہوئے بچوں کے لئے چفیہ کے مختلف استعمالات وضاحت کرتے ہیں: ’’ابتدائی دنوں میں تو جنگجو مجھے اپنے گردن میں ڈالے رکھتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے وقت گذرتا گیا ان کی مجھ سے دوستی پکی ہوتی گئی۔ اب میں کبھی جنگجوؤں کا دسترخوان تھا کبھی ان کے بیگ کا دستہ۔ کبھی میں ان کے لئے سائبان تھا اور کبھی ان کا تولیہ۔‘‘
ایک صفحہ پر سحر فرہادروش کا فن تصویر موجود ہے۔ اس صفحہ پر محاذ پر چفیہ کے مزید کاموں کا تصویری بیان ہے۔ بالخصوص خطرناک مواقع کے بارے میں ہم پڑھتے ہیں: ’’جس وقت عراقی فوج کیمیائی بم استعمال کرتی تھی اس وقت میں جس جنگجو کے پاس ہوتا تھا اس کے لئے گیس کا ماسک بن کر اس کی مدد کرتا تھا۔ وہ مجھے گیلا کر کے اپنے چہرے پر لپیٹ لیتا تھا تاکہ کیمیائی گیس کے موت کا سبب بنے والے اثر سے محفوظ رہ سکے۔‘‘
چفیہ کے دیگر استعمالات میں سے ایک جنگجوؤں کا اس کو بطور جائے نماز استعمال کرنا بھی تھا۔ یہ ایک سادہ سا رومال جنگجوؤں کا خدا وند کریم سے راز و نیاز کا وسیلہ بھی تھا۔ " کبھی میں دشت و جبل میں پھیلی ہوئی جائے نماز ہوتا تھا۔ اس وقت نماز اور دعا کے دوران جنگجوؤں کے بہنے والے آنسو مجھ پر گرتے تھے"۔
اس مختصر تحریر میں سرہنگی صاحب نے یہ کوشش کی ہے کہ بہت سادہ زبان میں محاذ پر چھائی فضا کو آنے والی نسلوں میں بعنوان جذبہ دفاع سرایت دیں اور اس کی منظر کشی کریں: "جن ممالک میں جنگ ہوئی ہے انہوں نے جنگ کے باقی ماندہ ادبی آثار کو بہت اہمیت دی ہے۔ بالغوں کے لئے اور بچوں اور جوانوں کے لئے خوب لکھا گیا ہے تاکہ ان کو یہ بتا سکیں کہ ان کے ملک میں کیا صورتحال گذر چکی ہے۔ یہ بہت اہم ہے کہ ہم بچوں کو ملک کے دفاع کے لئے تیار کریں۔ ہم جو چیز اپنے بچوں کے لئے ورثہ میں چھوڑ سکتے ہیں وہ آنے والی نسلوں کے لئے یہی جذبۂ دفاع ہے۔ہم اس جذبہ کو کتابوں اور فنی آثار کے ذریعہ اپنے بچوں میں منتقل کر سکتے ہیں۔ وہ جدید کتب جو میں نے نشر کی ہیں ان میں پلاک، چفیہ، خندق، چھاونی وغیرہ جیسی اصطلاحات کو متعارف کروایا ہے۔‘‘[iii]
مرتضیٰ سرہنگی صاحب نے جنگی مفاہیم کے بہتر تعارف اور ان کے زیادہ مؤثر ہونے کے لئے تخیل کی قدرت کا سہارا لیا ہے۔ اس طریقہ سے انہوں نے چاہا ہے کہ چفیہ بچوں کے لئے زیادہ اچھی طرح واضح ہوجائے: " میں نے کوشش کی ہے کہ ان داستانوں میں تخیل کی قوت سے فائدہ اٹھاؤں تاکہ بچوں کی لئے کہانی پرکشش رہے۔ اسی لئے میں نے اس طرح کے مضامین سے کہانی میں جان ڈالی ہے اور ان کو خود اپنی نوع جیسا ہی متعارف کروایا ہے۔ دفاع مقدس کے وہ آثار جو بچوں اور نوجوانوں کے لئے ہیں ان میں یہ بات بہت بہتر ہے کہ لکھاری تخیل سے کام لیں۔ بچوں کی دنیا در اصل تخیلات کی دنیا ہے ۔ جن داستانوں اور کہانیوں میں تخیل زیادہ ہو وہ ان کے لئے زیادہ پرکشش اور زیادہ پڑھنے کے قابل ہوتی ہیں۔‘‘[iv]
کتاب ’’اسم من چفیہ است‘‘ پہلی بار ۱۹۹۴ء میں چھپی۔ اس میں خشایار قاضی صاحب کی بنائی گئی تصاویر شامل کی گئی ہیں۔ دیگر طبائع میں یہ کتاب محمد حسین صلواتیان کی بنائی تصویروں کے ہمراہ نشر کی گئی۔ یہ کتاب دوسری دو کتابوں یعنی ’’اسم من خاکریز است‘‘ اور ’’اسم من پلاک است‘‘ کے ہمراہ مرتضیٰ سرہنگی کی بچوں کے ادب کےمیدان میں یادگار ہے۔ [v]
[i] انوری حسن، مختصر لغت ’’سخن‘‘، جلد ۱ ص ۷۸۷، انتشارات سخن تہران۔
[ii] نجفی، ابوالحسن، غلط ننویسیم،فرہنگ سشواری ہائے زبان فارسی، طبع ۶، ص ۳۱۷، یونیورسٹی پریش سینٹر، ۱۹۹۴
[iii] روزنامہ جوان، شمارہ ۵۲۰۸، ص ۱۶، تاریخ۱۰ اکتبوبر ۲۰۱۷
[iv] ایضا
[v] روزنامہ وطن امروز، شمارہ ۱۷۴۶ ص ۱، تاریخ ۱۱ نومبر ۲۰۱۵