اشخاص
آقا بابائی اکبر
معصومہ عابدینی
5 بازدید
اکبر آقابابائی (1961-1996)، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی، لشکر قدس کے آپریشنل کمانڈر تھے۔
اکبر آقا بابائی 1961 میں اصفہان کے جنوبی علاقہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی اور ثانوی تعلیم اصفہان میں ہی حاصل کی۔ وہ بچپن سے ہی قرآنی محافل میں شرکت کیا کرتے تھے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ مٹھائی کے دکان یا سنگ تراشی کے ایک کارخانہ میں اپنے والد کے ہمراہ کام کرتے تھے۔ صارمیہ سیکنڈری اسکول میں انہوں نے ایک طلبہ تنظیم کی رکنیت اختیار کی اور یوں اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ انہیں کھیلوں سے بھی رغبت تھی اور وہ اپنے محلہ کی فٹبال ٹیم کے رکن بھی تھے۔ان کا ایک اور مشغلہ کتاب خوانی بھی تھا اور ان کو مذہبی، سیاسی اور سماجی کتب سے لگاؤ تھا۔ انقلاب اسلامی کی تحریک نے زور پکڑا تو وہ بھی مظاہروں میں شریک ہونے لگے اور امام خمینیؒ کے اعلانات اور پیغامات کو نشر کرنے کی ذمہ داری نبھانے لگے۔ انقلاب اسلامی کے زمانے میں ہی انہوں نے اپنا انٹرمیڈیٹ بھی پاس کیا۔ بابائی امام خمینیؒ کے استقبال کے لئے تشکیل دی گئی کمیٹی کے رکن بھی تھے۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ، مارچ 1979 سے شہر اصفہان کی دفاعی کمیٹی میں شامل ہوکر اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ 7 اگست 1979 سے 23 اگست 1979 تک ایک فوجی ٹریننگ میں بھی شرکت کی۔ اس کے بعد وہ اصفہان میں سپاہ کے رکن ہوئے اور فوجی ٹرینر کا سہ ماہی کورس ، امام علی السلام بیرک، تہران میں مکمل کیا۔
30 جولائی 1980 سے ’’ 15 خرداد بیرک اصفہان‘‘ میں ٹیکنیکل ٹرینر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے لگے۔
23 نومبر 1980 میں کردستان میں فسادات ہوئے جس کو ’’غائلہ کردستان‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، تو آپ کو سنندج بھیج دیا گیا۔ 7 مارچ 1981 کو آپ سنندج میں آپریشن کی منصوبہ بندی کرنے والی کمانڈ سے ملحق ہوگئے اور اس کے بعد دوسرے فوجیوں کے ہمراہ آپ نے سنندج، کامیاران، سرچین، گیلانہ اور نگل کے علاقوں کو انقلاب مخالف عناصر سے پاک کیا۔27 جولائی 1981 کو آپ کا چہرہ اور گردن زخمی ہوگئے۔ کچھ افاقہ ہوا تو آپ پہلی ستمبر 1981 کو ہی واپس کردستان پلٹ گئے۔
بابائی سنندج میں نوجوانوں کے لئے فٹبال کے مقابلے بھی منعقد کرواتے تھے اور وہ اس کام کو ملت کے جوانوں کے لئے سرمایہ گذاری سے تعبیر کرتے تھے۔
21فروری 1983 میں آپ کردستان میں سپاہ کے آپریشنز کے انچارج بنے۔ آپ نے وہاں بڑےآپریشنز ترتیب دیئے اور ان کا اجرا بھی کیا۔ آپ آپریشن والفجر2 اور4 میں شریک بھی رہے۔
1983 میں ہی آپ شمال مغربی کردستان میں آپریشن کے انچارج بنے۔ اس عرصہ میں آپ نے بوکان، کامیاران اور سنندج میں 35 فوجی آپریشنز کئے۔
22 جون 1986 کو آپ نے حمزہ سید الشہداء علیہ السلام کمانڈنگ سینٹر میں منصوبہ سازی اور عملیات کے ڈپارٹمنٹ میں معاون کی حیثیت سے سرگرمیاں شروع کیں اور پھر آپریشن کربلا1۱ (مہران)، کربلا 2 (حاج عمران)، فتح 1 (کرکوک عراق)، کربلا 4 (غرب اروند) اور کربلا 4 (شلمچہ و مشرقی بصرہ) کےآپریشنز میں اہم کردار ادا کیا۔
30 نومبر 1986کو آپ شادی کے بندھن میں بندھے اور آپ کا نکاح امام خمینیؒ نے پڑھایا۔ 15مئی 1987 کو آپ الغدیر کی اٹھارہویں بریگیڈ کے کمانڈر مقرر ہوئے اور کربلا 10، نصر5، بیت المقدس 2اور 3، الفجر10، بیت المقدس4 ۱ور 7 میں شریک ہوئے۔ اس دوران آپ نے 13 جون 1988 اور 22جولائی 1988 میں عراق کی جانب سے شلمچہ کے علاقہ میں حملوں کا مقابلہ کرنے اور فوج کی ہدایت کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 13جون 1988کو اپنے زخمی ہونے کے باوجود آپ نے ایرانی افواج کی دو بٹالینز کو عراقی محاصرہ سے نجات دلوائی۔
بابائی نے جنوب، مغرب اور شمال مغرب میں کے علاقوں میں 1981 سے 1989 تک کے عرصہ میں 60 سے زیادہ آپریشنز میں حصہ لیا۔ حمزہ، کربلا، رمضان اور نجف کمانڈنگ سینٹرز میں آپ آپریشنز کے ٹائم ٹیبل اور نقشہ بنانے پر مامور بھی رہے۔ آپ کئی ایک بار زخمی ہوئے۔ 23 مارچ 1988 کو آپ شاخ شمیران کے علاقہ میں کیمیائی حملہ کا شکار ہوئے۔
قرارداد 597 کی منظوری کی بعد ، آپ الغدیر کی اٹھارہویں بریگیڈ کے کمانڈر کے ہمراہ ہی یزد میں سپاہ کمانڈر بھی متعین ہوئے۔ آپ نے 1988 میں ہی ملک بھر کےیونیورسٹی داخلہ کے امتحان میں بھی شرکت کی اور امیر کبیر یونیورسٹی میں انجینئرنگ کے شعبہ میں قبول ہوئے لیکن اپنی انتہائی اہم اور حساس ذمہ داریوں کے سبب وہ اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ 14 مارچ 1989 کوآپ نے (دافوس) سینٹر سے اعلیٰ کمانڈ کا فوجی کورس مکمل کیا۔ 23 اگست 1990 ، کو لشکر14 امام حسین علیہ السلام کے قائم مقام کمانڈر منصوب ہوئے۔ 13، اکتوبر 1993کو سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کی آپریشنل کمانڈ اپنے ہاتھ میں لی۔ آپ کئی بار ملک سے باہر بھی من جملہ بوسنیا ہرزگوینا اور لبنان بھی بھیجے گئے۔
24 اگست 1996 کوآپ نے وکالت میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی اور اسی زمانے میں آپ رہبر معظم دامت برکاتہ کی جانب سے بریگیڈئیر جنرل کے عہدہ پر بھی فائز ہوئے۔
بابائی سالہا سال کی جد وجہد اور جسم کے تقریبا 70فیصد حصہ کے مجروح ہونے اور کیمیائی حملہ کا شکار ہونے کے بعد بالآخر 25، اگست 1996 کوتہران کے بقیۃ اللہ الاعظمؑ اسپتال میں شہادت کے درجہ پر فائز ہوئے۔ آپ کے جنازے کی تشیع تہران اور اصفہان میں ہوئی اس کے بعد آپ کو اصفہان کے گلزار شہداء میں سپر خاک کیا گیا۔[1]
اکبر آقا بابائی نے اپنے وصیت نامہ میں لکھا:’’ میرے عزیزو! اسلام کے دشمن زور اور زبردستی کا سہارا لے کر یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں تمہارے حسین ماضی سے مایوس کردیں اور تمہیں حق سے جدا کرکے اپنے مکرو فریب سے بھری دنیا کی جانب کھینچ لیں۔‘‘
شہید اکبر آقا بابائی نے دو بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں جن کے نام زینب اور زہرا ہیں۔
[1] دفاع مقدس کے انساءیکلوپیڈیا کے ایک مقالہ کی تلخیص۔ دائرۃ المعارف دفاع مقدس جلد ۱ ص ۱۸۲ تا ۱۸۴، ناشر مرکز دائرۃ المعارف، پژوھشگاہ (ریسرچ سینٹر) علوم ع معارف دفاع مقدس۔ تہران، ۲۰۱۱