آثار

یاداشت کی یاد کے ساتھ

نسرین خالدی
25 بازدید

کتاب ’’با یاد خاطرہ‘‘ ایران کی فارسی تاریخ میں   یاداشت اور یاداشت نگاری  کا تعارف ہے۔ اس میں یادداشتوں کی تحریر کا ابتداء سے عصر اسلام تک کے دور کا جائزہ لیا  گیا ہے۔

یہ کتاب در اصل تین جلدی مجموعہ کی پہلی جلد ہے۔ مولف کا کہنا ہے کہ اس کی پہلی دو جلدوں میں موجود مطالب تیسری جلد میں موجود مباحث کو سمجھنے کے لئے زینہ ہیں۔ لہذا ان کا عقیدہ ہے کہ ایران میں یاداشت نگاری اور یادداشت نگاری کی ادبیات کی تحریک کا ظہور  ، انقلاب اسلامی اور بالخصوص ایران عراق جنگ کے ضمن میں، تاریخی یادداشت نگاری کا ہی استقرار اور تسلسل ہے۔

تیسری جلد جداگانہ طور پر یادداشت نویسی اور دفاعی جنگ کے واقعات کی نگارش  کی کیفیت اور کمیت کے بارے میں بحث کرتی ہے۔ اس مجموعہ  میں سے اب تک صرف اس کی پہلی جلد ہی چھپ سکی ہے۔ باقی دو جلدیں ابھی تدوین و تصنیف کے مراحل سے گذر رہی ہیں۔

مقالہ ’’درآمدی بر خاطره‌نویسی و خاطره‌نگاشتہ ‌ها  در گستره‌ ادب مقاومت و فرهنگ جبہہ‘‘ کی تلخصیص و تقریر سے اس کتاب یعنی ’’بایاد خا طرہ‘‘  کے لئے زمین ہموار ہوئی۔یہ مقالہ 1991 میں ادبیات انقلاب اسلامی کی ادبیات کی تحقیق کے پہلے سیمینار منعقدہ تہران یونیورسٹی میں پیش کیا گیااور اس  کی خاصی پذیرائی ہوئی۔

اس کتاب کے مصنف علی رضا کمری ہیں اور اس کتاب کی تصحیح کا کام فرانک جمشیدی نے انجام دیا۔ کتاب کی جلد پارسا نژاد صاحب کی تخلیق ہے۔ یہ کتاب دفتر ادبیات و ہنر مقاومت کی 515 ویں کتاب ہے جبکہ  یہ اسی دفتر کی سولہویں تحقیقی  و تنقیدی کتاب شمار کی جاتی ہے۔ یہ کتاب A5 کے سائز میں کاغذی جلد کے ساتھ چھاپی گئی ہے۔ جلد بنانے والے نے کتاب کے عنوان کا لحاظ رکھتے ہوئے تین دھندلی تصاویر اور کچھ کتبوں کی تصاویر کو جلد میں استعمال کیا ہے۔ اس کتاب کے 206 صفحات ہیں۔ پہلی بار یہ کتاب 2004  میں 2200 کی تعداد میں شائع ہوئی اور اس کی قیمت 1300 تومان مقرر ہوئی۔ یہ کتاب انتشارات سورہ مہر نے نشر کی۔ 2010  اور 2011 میں یہ کتاب دوبارہ اشاعت کے مراحل سے گذری۔

اس کتاب کا آغاز سورہ واقعہ کی 62 ویں آیت سے ہوتا ہے۔ پیش گفتار  اور ابتدائیہ دونوں مصنف کے قلم سے لکھے گئے ہیں۔ مصنف نے اس کتاب کو دو حصوں میں تحریر کیا ہے۔ پہلے حصہ کو ’’کلیات‘‘ کا نام دیا ہے اور دوسرے حصہ کو ’’ ابتداء سے اسلام کی آمد تک تاریخ ِ یادداشت نگاری‘‘ کا نام دیا ہے۔

پہلا حصہ خود دو فصلوں پر مشتمل ہے۔  پہلی فصل میں یادداشت کی کلیات کے پیش نظر ’’لفظ شناسی‘‘، ’’تعریف، لفظ کی اصطلاحی تفسیر‘‘،  پہلی یاد داشت  کا ظہور‘‘،  یاد داشت کا استعمال‘‘،  یادزدگی‘‘ ،  ’’حافظہ کی بحالی اور حقیقت کے ساتھ اس کی نسبت‘‘،  حافظہ اور یادداشت کا سیال ہونا‘‘،  فردی، اجتماعی اور قومی یادداشت‘‘  جیسےعناوین شامل ہیں۔ دوسری فصل میں یادداشت نویسی کی کلیات  پر بحث کی گئی ہے ۔ اس فصل میں ’’یادداشت کی تعریف‘‘،  یاد داشت کی مختلف شکلیں‘‘،  یا د داشت و حافظہ،  علم ادب اور تاریخ کی نگاہ میں‘‘،  یادداشت پر تنقید اور اس کی موزونی کا جائزہ‘‘ ،  یادداشت  کے مماثل‘‘،  یاد داشت کی تاریخ اور اس کا تحول‘‘ کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔

کتاب کے دوسرے حصہ میں مصنف نے   دو فصلوں میں ’’  ابتدا سے اسلام تک یاد داشت نگاری کی تاریخ‘‘  کے باب کو بیان کیا ہے۔ پہلی فصل  کا عنوان  ’’ قدیم پارسی آثار کا پہلا دور‘‘ ہے۔  یہ فصل ’’دھندلکے میں طلوع‘‘،   ’’مشرق،  زرتشت کے الہامات اور داستانوں کے ہالے میں‘‘،  ’’ خط و کتابت اور کتبہ نویسی‘‘،   بیستون کا کتبہ‘‘ کے عناوین پر مشتمل ہے۔ دوسرے حصہ کی دوسری فصل  ’’پارسی آثار  وسطیٰ کا دوسرا دور‘‘ کے عنوان سے درج ہے۔  اس فصل میں ’’اشکانیان،  زبانی تاریخ کی سنت پر پلٹنا‘‘، ’’ساسانیان،  تاریخی،  ادبی اور فنی بیانیوں کی یاد داشت‘‘،   ’’ برسیوں اور عرس کا واضح  کردار‘‘،  ’’ کتبہ نویسی،  کعبہ زرتشت کا کتبہ‘‘،   "کتابوں کی روداد‘‘ کے عناوین پر بحث کی گئی ہے۔ مصنف نے ہر فصل کے اختتام پر اس فصل سے مربوط حاشیوں کا اضافہ کیا ہے تاکہ قاریوں کو متن کے بارے میں زیادہ وضاحت مل سکے۔

کتاب کے اختتام میں درج ہے :  ’’ کتبوں کا وہ تمام شاہانہ  کر و فر اس کے باوجود کے ان کے بارے میں بار بار بات کی گئی۔۔۔۔ شاہان زمانہ کے ساتھ ہی مٹ گیا۔۔۔ مگر ان کی یاد نسلوں میں منتقل ہوگئی اور  دنیا کی بے وفائی  اور خوبصورتی و بد صورتی کی ناپائیداری کی مثال اور مصداق بن گئی۔  اب یہ ادھ کھڑی دیواریں،  یہ مینار،  یہ عمارتیں سب ان کے دیکھنے  والوں کی یاد بن کر رہ گئی ہیں۔[i]

 

کتابیات کے حصہ میں  تقریبا 300  منابع کی فہرست درج ہے جن سے اس کتاب کی تصنیف میں مدد لی گئی ہے۔

اس کتاب کی اشاعت کے بعد،  سارا   زیبا کلا،  روزنامہ ہمشہری (24  جنوری 2006) کے صفحہ 19 پر  ’’یادداشتوں کے حوالے سےکتاب یا یاد خاطرہ  پر ایک نظر‘‘ کے عنوان کے ذیل  میں اس کتاب پر تبصرہ کرتی ہیں۔ مصنف کی یادداشت اور یادداشت نویسی کے ضمن میں سرگرمیاں اور ورکشاپس کا انعقاد اس بات کا سبب بنا کہ  2010  میں ہمدان کے شہر میں ’’خاکریز خاطرہ‘‘ کے عنوان سے پروگرام میں مصنف کی سرگرمیوں کی پذیرائی کی گئی۔ ’’کانون اندیشہ ہائے جوان‘‘ کی تنقیدی نشستوں میں یہ کتاب 2011 میں پیش کی گئی۔ ڈاکٹر محمد رضا جوادی یگانہ، اپنی ویب سائٹ پر اس نشست کا ایک  واقعہ، ’’کتاب با یاد خاطرہ پر تنقید‘‘ کے عنوان سے 2011 میں ہی نشر کر چکے ہیں۔ [ii]

 

[i] کمری، علی رضا، با یاد خاطرہ، جلد۱، سورہ مہر، تہران ۱۳۸۳ ھ ش

[ii] Mrjavadi.com