آثار
بابا نظر
محمدعلی عباسی اقدم
20 بازدید
کتاب ۔”بابا نظر۔”، دفتر ادبیات و ہنر مقاومت (حوزہ ہنری) کی ایران عراق جنگ کے واقعات کے شعبہ میں 583 ویں کتاب ہے ۔ یہ کتاب سید حسین بیضایی کی شہید نظر نژاد سے 36 گھنٹوں کی گفتگو کا حاصل ہے۔ یہ گفتگو 1995 اور 1996 میں ویڈیو کی صورت میں ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس کے بعد اس کے کلمات اور جملوں کو سفید کاغذ پر محفوظ ہوکر امر ہوگئے ہیں۔ مصطفیٰ رحیمی نے کتاب کی تدوین کی اور احمد دہقان صاحب نے اس کتاب کی تصحیح کا کام انجام دیا۔ اس کتاب کی ساری روایت ، اول سے آخر تک شخص واحد یعنی محمد حسن نظر نژاد کی زبانی نقل ہوئی ہے۔ یہ کہانی شہید کی ولادت یعنی 1946 سے مشہد کے اطراف کے ایک گاؤں سے شروع ہوتی ہے اور پھر 1996ء پر ختم ہوتی ہے۔ اس کتاب میں ہم دو ناموں سے آشنا ہوتے ہیں ایک شریفی اور دوسرا ابراہیمی۔ یہ دونوں بابا نظر کے شانہ بشانہ جنگ میں شریک رہے اور کربلا ۵ آپریشن میں دونوں کی شہادت ہوئی۔ ان دونوں کو بہشت رضا علیہ السلام میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان دونوں کے درمیان میں ایک قبر کی جگہ خالی تھی مگر کسی کو اس کی دلیل معلوم نہیں تھی۔ بابا نظر دس سال بعد جب ان دونوں قبروں کے درمیان دفن ہوئے تو اس خالی قبر کی پہیلی سلجھی۔
کتاب ۔"بابا نظر" 16 فصلوں میں مدون ہوئی ہے۔ کتاب کا اختتام تصاویر، اسناد اور ناموں کی فہرست پر مشتمل ہے۔ پہلی فصل میں بابا نظر پہلے اپنے خاندانی پس منظر کی روایت بیان کرتے ہیں: "میرے دادا اور نانا دونوں مولوی تھے۔ مسجد گوہر شاد کےقتل و غارت کے واقعہ میں دونوں کافی سرگرم تھے۔ میرے دادا کو مسجد گوہر شاد کے واقعات کے بعد سمنان ن جلا وطن کر دیا گیا تھا"۔ اسی کے تسلسل میں بابا نظر نژاد اپنی جوانی کے واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہیں : "میں جسمانی طاقت سے مالا مال تھا سو خراسان کی کشتی ۔”باچوخہ (دنگل)۔” میں شریک ہوا اور خراسان کا مشہور پہلوان بن گیا"۔
دوسری فصل میں بابا نظر کی انقلابی سرگرمیوں اور انقلاب مخالف گروہوں سے جھڑپوں کا ذکر ہے: "میں ان پہلے ایک سو ساٹھ لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے سپاہ میں شمولیت کے لئے امتحان دیا۔ میرا انٹرویو شہید ڈاکٹر عبدالحمید دیالمہ نے لیا۔ سپاہ کی جانب سے مجھے جو پہلی ذمہ داری سونپی گئی وہ افغانستان کی سرحد کو کنٹرول کرنے کے آپریشن کے کچھ حصہ کی تھی"۔ کردستان جانا اور پاو ہ اور گنبد کاؤس میں انقلاب مخالف عناصر سے جھڑپیں اس فصل کے اختتامی واقعات ہیں۔
تیسری فصل، بابا نظر کے محاذِ جنگ کے واقعات کا آغاز ہے۔ وہ اسی جگہ شہید چمران سے آشنا ہوتے ہیں۔ سوسنگرد کی آزادی کے آپریشن میں شرکت بھی اس فصل میں بیان ہوئی ہے۔
چوتھی فصل، بابا نظر کے ارتفاعات اللہ اکبر کے آپریشنز میں شرکت کے واقعات کو بیان کرتی ہے: " اللہ اکبر آپریشن کا علاقہ پہت ہی پیچیدہ ہے۔ یہ دو علاقہ ہیں جن کی زمین گونگے کے خول کی مانند ہے۔ ایک اللہ اکبر کا محور ہے اور دوسری زمین قلاویزان"۔
پانچویں فصل میں بابا نظر آپریشن فتح المبین کی روایت بیان کرتے ہیں۔
ساتویں اور آٹھویں فصل میں بابا نظر کی والفجر آپریشن میں شرکت اور ان کے زخمی ہونے کا بیان ہے۔یہ آپریشن زبیدات کی بلندیوں پر ہوا تھا: "پہلے میں زمین پر گرا تو جلد ہی اٹھ کھڑا ہوا۔ میری ریڑھ کی ہڈی کی مہروں میں درد تھا۔ میں اپنے پیر سمیٹنا چاہتا تھا مگر ایسا نہ کر سکا"۔ بابا نظر صحت یابی کے بعد دوبارہ جنگ کے محاذ پر چلے گئے اور اس بار انہوں نے آپریشن خیبر میں شرکت کی۔ آٹھویں فصل میں ہے کہ: " ہوائی چھاؤنی امام رضا علیہ السلام میں آیا تو معلوم ہوا کہ میرا نام وہاں لکھا جا چکا ہے اور حاجی باقر قالیباف میرے منتظر ہیں"۔
نویں اور دسیوں فصل میں بابا نظر 1984 کے تپتے ہوئے موسم گرما میں جزیرۂ مینو پر اپنی تعیناتی کی حکایت بیان کرتے ہیں: "جزر و مد کا شناخت اور اس کو کنٹرول کرنے کاکام تیزی سے جاری تھا۔ گرمیوں کی ظہر میں درجہ حرارت ۶۰ ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی پہنچ جاتا تھا۔ ہم جتنا بھی پانی پیتے پیاس نہ بجھتی"۔
گیارہویں فصل میں آپریشن والفجر 8 کے واقعات درج ہیں۔ بارہویں فصل میں شہر مہران کی آزادی کا بیان ہے۔ تیرہویں فصل میں آپریشن کربلا ۵ کے بارے میں بیان کرتے ہیں: " آپریشن کربلا 5، ایک بے نظیر آپریشن ہے۔ واقعا ایک غوغہ بپا تھا۔ تقریباً پانچ ہزار توپوں کے دھانے کھلے تھے اور کئی ہزار ٹینک آپریشن میں مصروف تھے۔ جنگ کے تمام عرصہ میں، ایک آپریشن خیبر تھا اور ایک شلمچہ کا آپریشن تھا جس میں میں ایک لحظہ کو مایوس ہو گیا تھا۔ میں واقعی جنگ سے منصرف ہو کر مشہد پلٹنا چاہتا تھا"۔
دو عیجی ٹاؤن کی فتح اور اس کے حواشی پندرہویں فصل کے واقعات ہیں۔
راوی اپنی کہانی کے تسلسل میں کردستان واپس پلٹتا ہے اور آپریشن نصر 7 اور 8کے بارے میں بیان کرتا ہے۔
کتاب کی آخری فصل جنگ کے بعد کے واقعات پر مشتمل ہے جس میں بابا نظر کا اپنے معالجہ کے لئے جرمنی کا سفر درج ہے۔
140 ماہ تک جنگ کے میدان میں مختلف محاذوں پر شرکت کئی یادگار واقعات کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ شہید محمد حسن نظر نژاد کی اپنی تعبیر کے مطابق ان کا محاذ پر رہنا در اصل ۔"محاذ جنگ پر خراسان کے جوانوں کی زندہ تاریخ" ہے۔
وہ اس کتاب کی اختتامی سطور میں کہتے ہیں :۔"میری آنکھیں دیکھنے کے قابل نہیں، میرے کان سننے سے محروم ہیں اور میری ریڑھ کی ہڈی کے مہرے اور پسلیاں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ مجھے تقریباً 160 گولیاں اور چھرے لگے ہیں۔ان میں اکثر تو اب بھی میرے بدن میں انہی دنوں کے تحفے کے طور پر موجود ہیں۔ وہ چھرہ جو میرے سر میں دماغ سے قریب اٹکا ہوا ہے وہ میرے لئے ہمیشہ خطرہ کی گھنٹی ہے"۔
ہم اس کتاب کے اختتا می صفحات میں پڑھتے ہیں: " اس کے بعد کی زندگی ان تلخ واقعات سے پر ہے جو ہمیں جنگ سے واپسی پر خراسان میں پیش آئے۔ جس وقت ہم واپس پلٹے تو کوئی دو تین لاکھ جنگجو ایک ساتھ ہی خدا کی امان میں جا چکے تھے"۔
سرانجام اس مجاہد شہید کی زندگی کی کتاب کردستان کی چوٹیوں میں اپنے اختتام کو پہنچ جاتی ہے: " جنگ کے اختتام کے سالوں بعد 28 جولائی 1996 میں لیفٹیننٹ کرنل نظر نژاد نصر خراسان کے پانچویں لشکر کے سالار بن کر کردستان جاتے ہیں تاکہ وہاں کے یونٹس سے ملاقات کریں۔ وہاں وہ کفارستان کی بلندی پر پہنچتے ہیں اور ہوا کی کمی کی وجہ سے ان کا دم گھٹ جاتا ہے"۔ 31 جولائی 1996 کو شہید نظر نژاد کو ان کی وصیت کے مطابق، بہشت امام رضا علیہ السلام میں شہید ابراہیمی اور شہید شریفی کے درمیان دفنا دیا گیا۔
شہید کے وصیت کے ایک حصے میں ہے: " میرے بیٹوں، مصطفیٰ اور مرتضیٰ، تمہیں جب بھی موقع ملے، میری قبر پر یا کہیں اور، جہاں بھی ہو سپاہیوں کی مظلومیت کا دفاع کرنا کیونکہ وہ دو بار شہید ہوتے ہیں"۔ [i]
[i] رحیمی، مصطفیٰ، بابا نظر، شہید محمد حسن نظر نژاد کے جنگ کے زبانی واقعات، ناشر سورہ مہر تہران ۲۰۰۹۔
موسوی سید سعید، فرہنگنامہ جاودانہ ہای تاریخ (خراسان کے شہید کمانڈرز کے حالات زندگی) ناشر: شاہد،تہران ۲۰۰۶۔