اشخاص

احمد بیگی، یعقوب

معصومہ عابدینی
14 بازدید

یعقوب احمد بیگی  26  جون 1959  تویسرکان کے ایک نواحی گاؤں قلعہ جعفر بیگ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ تہران ہجرت کرگئے۔ انٹر میڈیٹ پاس کرنے کے بعد مراجع عظام سے کسب تکلیف کی اور یوں فوج میں شامل ہونے کے لئے  کیڈٹ کالج میں داخلہ لے لیا۔  ہر چند یعقوب  فوج کے بہت سے قوانین سے نالاں تھے مگر اس کے باوجود بھی وہ وہاں  پہلوی حکومت سے آمادہ پیکار دوست بنانے میں کامیاب ہوئے۔ جیسے یوسف کلاہ دوز (  شہادت  1981)، مصطفیٰ اقارب پرست (شہادت 1984) اور داکٹر آیت ( شہادت 1981)۔ وہ پہلوی حکومت سے جھڑپوں کے دوران فضائیہ اور بری فوج کے افراد میں رابطہ کا کام انجام دیتے تھے۔ کیڈٹ کالج میں نماز خانہ بنانے میں ان کا بڑا ہاتھ تھا۔ سال   1972  میں آپ  جنگی علوم و فنون کے مضمون میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کے رتبہ پر  فارغ التحصیل ہوئے۔  فراغت کے بعد آپ کو پہلے شیراز بھیجا گیا اس کے بعد آپ کا تبادلہ قزوین اور پھر ہمدان میں ہوا۔

1976 میں آپ کی ازدواجی زندگی آغاز ہوا۔

ہمدان میں  آپ آیت اللہ سید اسد اللہ مدنی (تبریز کے امام جمعہ تھے جن کو محراب عبادت میں ، گیارہ ستمبر 1981  میں شہید کیا گیا) سے انتہائی قربت کے حامل ہوگئے تھے۔  یعقوب، آیت اللہ مدنی سے اپنے مختلف مسائل میں راہنمائی حاصل کیا کرتے تھے۔ انہی موارد میں سے ایک مورد یہ بھی تھا کہ جب امام خمینیؒ نے حکم صادر کیا کہ سپاہی اور افسران   بیرکوں اور چھاونیوں سے فرار کرجائیں۔ اس معاملہ میں یعقوب نے آیت اللہ مدنی سے مشورہ کیا اور ان کے حکم پر ہی بیرک میں باقی رہے تاکہ حالات کی ڈور کو اپنے ہاتھ میں رکھ سکیں۔

کچھ ماہ بعد، آپ فوج کی جانب سے امام خمینی کے دفتر  واقع میں خدمت پر مامور ہوگئے ۔ اس کے بعد اس وقت کے کمانڈر انچیف  آف کیڈٹ کالج ، موسیٰ نامجو ( شہادت 29ستمبر 1981) نے آپ کو اپنے پاس اپنے کام میں معاونت کے لئے طلب کر لیا اور یوں آپ کیڈت کالج میں بٹالین کے کمانڈر ہو مقرر گئے۔

1979  میں خدا وند متعال نے آپ کو  پہلی بیٹی سے نوازا۔

1980 ایران عراق کی جنگ شروع ہوئی تو آپ  نے کیڈٹ کالج کے سربراہ سے اصرار کیا وہ آپ کو محاذ پر جانے کی اجازت دے۔ لیکن محترم نامجو  یہ سمجھتے تھے کہ  یعقوب کا کیڈٹ کالج میں رہنا  زیادہ ضروری اور فائدہ مند ہے۔  وہ کالج کے اوقات کار ختم ہوجانے کے بعد بھی گھنٹوں کالج میں ہی رہتے تھے اور طلاب کی مشکلات کا ازالہ کیا کرتے تھے۔

بالآخر 1982 میں آپ کا تبادلہ زاہدان کے  88  ویں لشکر میں کر دیا گیا۔ عہدہ داروں اور افسران بالا کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد  آپ نے  8  ماہ تک پیرانشہر  کے  ان علاقوں میں خدمات انجام دیں جہاں آپریشنز جاری تھے۔ اسی سال آپ  ایک بار پھر ایک بیٹی کے باپ بنے۔ اگلے سال آپ زاہدان شہر اور اس کے بعد ایرانشہر منتقل ہوئے۔

1984 میں آپ کو ملک سے باہر مامور کیا گیا۔ واپس آنےکے بعد آپ جنگی گروہ سلمان کے کمانڈر اور زاہدان کے لشکر  88   کی تیسری بریگیڈ کے معاون منصوب ہوئے۔

عراق نے جس وقت سومار کے علاقہ میں بلندی پر موجود مورچوں (402 )  پر قبضہ کرنے کے لئے ایران پر حملہ کیا تو آپ اس وقت چھٹیوں پر تھے۔ آپ  کو جیسے ہی اطلاع ملی  آپ نے خود کو اگلی صفوں میں پہنچا دیا تاکہ  اس مورچہ کی آزادی میں بریگیڈ کے کمانڈر کی  مدد کی جاسکے۔

اسی آپریشن کے  دوران، 22  جولائی  1985  کو   مارٹر گولہ کے دھماکے میں آپ کا کندھا زخمی ہوا۔

یعقوب احمد بیگی ، کلہ قندی کے ارتفاعات کی آزادی  کے آپریشن میں بریگیڈ کے آپریشنز کے انچارج تھے۔ وہ علاقہ کی جانچ پڑتال  اور جنگی ٹیکنیکس کو بروئے کار لانے کی منصوبہ بندیوں کے لئے چار روز تک مسلسل اپنے کچھ افراد کے ہمراہ فرنٹ لائن پر جایا کرتے تھے۔ جانچ پڑتا ل کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ گولہ باری کے ذریعہ پہلے ہم دشمن کی پناہ گاہوں  کو نابود کریں اس کے بعد آپریشن کا آغاز کریں۔

پچیس اکتوبر  1985 کی صبح، یعقوب احمد بیگی اپنے دوسرے افسران کے ہمراہ فرنٹ لائن پر گئے تاکہ دشمن پر گولے برسانا شروع کریں۔ ظہر کے وقت، ٹینک کے کچھ گولے احمد بیگی اور ان کے ساتھیوں کی پناہ  گاہ میں آگرے اور ان کے پھٹنے سے پناہ گاہ میں پڑی آرپی جی گولیوں میں دھماکہ ہوا اور یوں احمد بیگی اپنے ساتھیوں سمت شہید ہوگئے۔[1]

 

[1] دفاع مقدس کے انسائیکلو پیڈیا کے ایک مقالہ کی تلخیص، دائرۃ المعارف دفاع مقدس جلد ۱، صفحہ ۳۵۷، ۳۵۸۔ ناشر: مرکز دائرۃ المعارف ، پژوہشگاہ (ریسرچ شینٹر) علوم و معارف دفاع مقدس تہران ۲۰۱۱