اشخاص
غلام رضا آقاخانی
معصومہ عابدینی
13 بازدید
غلام رضا کی ولادت ۳ اکتوبر ۱۹۵۸ کو اصفہان کے علاقہ شہررضا میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر میں ہی حاصل کی اس کے بعد مزید تعلیم کے لئے اصفہان شہر چلے گئے۔ انہوں نے ثانوی تعلیم سپہر اور ادب نامی اسکولوں میں حاصل کی اور پھر ریاضی میں انٹرمیڈیٹ پاس کیا۔
تقریبا ۱۹۷۷ء میں فوجی سروس کا کورس کرنے کے لئے ’’سپاہ دانش‘‘[1] کا لباس پہن کر چہار محال و بختیاری[2] کے ایک نواحی گاؤں ’’چم کاکا‘‘ کو عازم سفر ہوئے۔ وہ اس عرصہ میں (یعنی اپنے اس فوجی کورس کے عرصہ میں) گاؤں والوں کو انقلابی اور ثقافتی مسائل سے آگاہ کرتے رہے۔ وہ گاؤں والوں کو کھیتی باڑی اور زندگی گذارنے کے طریقہ سکھاتے رہے اور اس کے ہمراہ پہلوی حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں بھی شرکت کرتے رہے۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد وہ وزارت تعلیم میں بھرتی ہوئے اور تقریباً ڈیڑھ سال تک کامو اور جوشقان[3] میں پرائمری اسکول کے استاد رہے۔تقریبا ۱۹۸۰ء میں خمینی شہر اصفہان کے ایک اسکول ’’رودکی ولدان‘‘ منتقل ہوگئے۔ تدریس کے دوران ہی آپ نے ایران بھر کی یونیورسٹیوں کے داخلہ ٹیسٹ میں بھی شرکت کی اور تہران یونیورسٹی کے شعبہ فنِ تعمیر[4] میں ایم فل کے لئے قبول ہوگئے۔
مارچ ۱۹۸۱ میں فوجی ٹریننگ کے بعد رضا کارانہ طور پر ’’ دار خوین‘‘ کے محاذ کی جانب روانہ ہوگئے۔ یہاں سے ’’محمدیہ ‘‘ اور اس کے بعد سلیمانیہ جیسے محاذوں کا رخ کیا۔ کچھ عرصہ بعد مغربی محاذ پر افرادی قوت کی کمی کے سبب ’’سنندج‘‘ میں انکی تعیناتی عمل میں آئی۔
’’سنندج‘‘ میں تقریبا ساڑھے تین ماہ گذارنے کے بعد آپریشنز میں شریک ہونے کا شوق لئے ’’مریوان‘‘ کی جانب روانہ ہوگئے ۔وہاں، ’’آپریشن محمد ﷺ‘‘ کے شمالی محور پر وائرلیس آپریٹر کے عہدہ پر حاج احمد متوسلیان تعینات تھے۔ غلام رضا اس آپریشن کےختم ہونے کے بعد ’’سنندج‘‘ واپس جانا چاہتے تھے مگر انہیں حاج احمد متوسلیان کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور مجبوراً چار ماہ تک ’’دزلی‘‘ کے مواصلاتی ادارے میں خدمات انجام دینی پڑیں۔
۱۹۸۱ کی دوسری ششماہی میں غلام رضا جنوبی علاقوں کی محاذ پر گئے اور وہاں لشکر ۱۴، امام حسین کے فوجیوں کے ہمراہ ’’آپریشن فتح المبین‘‘ میں RPG شوٹر کی حیثیت سے شرکت کی۔ اس آپریشن میں لشکر ۱۴، امام حسین علیہ السلام کی امام جواد علیہ السلام بٹالین کے وائرلیس آپریٹر کے زخمی ہونے کی وجہ سے ان کی جگہ اس آپریشن کے اختتام تک غلام رضا اس ذمہ داری کو نبھاتے رہے۔
آپریشن ’’الیٰ بت المقدس‘‘ کے وقت غلام رضا چھٹیوں پر تھے مگر پھر بھی محاذ جنگ پر جا پہنچے اور پیادوں کے دستہ میں شامل ہوئے۔ آپریشن کے ابتدائی مرحلہ میں غلام رضا ان بٹالینز کا حصہ رہے جنہوں نے ’’دریائے کارون‘‘ سے ’’خرمشہر ہائی وے‘‘ کا ۲۵ کلومیٹر پر محیط راستہ ایک دن اور ایک رات میں طے کیا اور خرمشہر - اہواز ہائی وے پہنچ کر دشمن پر کاری ضربیں لگائیں۔
’’آزادی خرمشہر‘‘ کے آپریشن میں غلام رضا ، امیرالمومنین علیہ السلام بٹالین کے قاصد تھے۔ آپریشن ’’رمضان‘‘ کے شروع ہوتے ہی غلام رضا محاذ جنگ کے جیش المقدمہ پہنچے اور لشکر ۱۴، امام حسین علیہ السلام کی امام محمد باقر علیہ السلام بٹالین کے کمانڈر کے وائر لیس آپریٹر بنے۔ اس آپریشن میں بہت سے کمانڈرز کی شہادت کے بعد غلام رضا نے بٹالینز کو جمع کیا اور عقب نشینی کی۔
آپریشن ’’رمضان‘‘ کے بعد غلام رضا اصفہان واپس آگئے۔ کچھ عرصہ آرام کرنے کے بعد آپریشن ’’محرم‘‘ کے شروع ہوتے ہی خود کو اس آپریشن کے میدان میں پہنچا دیا۔ یہاں غلام رضا لشکر ۱۴، امام حسین علیہ السلام کی ہیلی برن کے کمانڈر متعین ہوئے۔ آپریشن ’’والفجر ابتدائی‘‘ یازہرا بٹالین کے عہدہ دار رہے اور آپریشن ’’والفجر۱‘‘ میں بھی بٹالین کے عہدہ دار کی حیثیت سے ’’شرہانی اور زبیدات‘‘ کے جنگی میدانوں میں حاضر رہے۔ اس آپریشن کے اختتام پر افواج کے ہمراہ ’’پیران شہر‘‘ کے علاقہ میں چلے گئے اور لشکر ۱۴، امام حسین علیہ السلام کے کمانڈر ، حاج حسین خرازی کے ہمراہ خدمات انجام دیں۔
آپریشن ’’والفجر ۴‘‘ شروع ہوا تو ان کی شجاعت اور ذکاوت کے سبب لشکر ۱۴، امام حسین علیہ السلام کی موسیٰ ابن جعفر علیہ السلام بٹالین کی کمانڈ ان کو سونپی گئی۔ آپریشن کے دوسرے مرحلہ میں غلام رضا ، شیار حسن آباد کی کئی ایک پہاڑیوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔
آپریشن خیبر میں، صف شکن بٹالین موسیٰ ابن جعفر علیہ السلام غلام رضا آقا خانی کی کمانڈ میں ، دشمن کے دفاعی خط کو شکست دینے اور اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی۔ انہی آپریشنز کےتسلسل میں اس بٹالین کو یہ حکم جاری ہوا کہ دوبارہ پھر پور تیاری اور چناؤ کے ساتھ بریگیڈ۴۴، قمر بنی ہاشم کی مدد کے لئے جزیرہ مجنون کی جانب روانہ ہو جائے۔ دشمن کی جانب سے سپاہیوں پر شدید گولہ باری جاری تھی اور اس بات کا خوف تھا کہ کسی بھی لمحہ جزیرہ ہاتھ سےجا سکتا ہے۔ غلام رضا کا دھیان امام خمینی کے اس فرمان کی جانب تھا ’’جزیروں کو محفوظ رہنا چاہئے۔‘‘ سو آقا خانی مزاحمت کرتے رہے اور بالآخر جزیرے محفوظ ہوگئے۔
آپریشن ’’بدر‘‘ شروع ہوا تو بٹالین موسیٰ ابن جعفر علیہ السلام، دجلہ کے مشرقی جانب ’’ہوالہویزہ‘‘ کو روانہ ہوئی۔ دشمن کی جانب سے فائرنگ کافی شدید تھی۔ غلام رضا کا ہاتھ اس میں زخمی ہوگیا لیکن حساس موقع کی وجہ سے انہوں سے آپریشن میں اپنی شرکت باقی رکھی۔
۱۳ مارچ ۱۹۸۵ کی صبح، نماز فجر کے لئے تیمم کرتے ہوئے غلام رضا آقا خانی کی پیشانی پر ایک گولی لگی جس کے نتیجہ میں وہ شہید ہوگئے ۔ ان کے جسد خاکی کو اصفہان کے قبرستان گلزار شہدا کے ’’قطعہ بدر‘‘ میں سپرد خاک کیا گیا۔
لشکر ۱۴، امام حسین کے کمانڈر حاج حسین خرازی نے غلام رضا کی شہادت کے بعد ان کے گھر والوں سے ملاقات کے دوران کہا: ’’ شہید آقا خانی میرے دست راست تھے۔‘‘
شہید آقا خانی اپنی وصیت کے ایک حصہ میں لکھتے ہیں: ’’ اے میرے والدین عزیز آپ پر خدا کا درود و سلام ہو۔ اس بات پر خدا کا شکر کریں اور خوش حال رہیں کہ آپ نے بھی اپنا ایک بیٹا خدا کی راہ میں قربان کیا ہے۔ چٹان کی مانند مضبوط رہیں۔ صدر اسلام سے اب تک کے تمام شہداءکویاد کریں۔کربلا کے جاں گداز مناظر پر غور و فکر کریں۔ اس بات پر غور و فکر کریں کہ اب تک ایسے ایسے عزیز لوگ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں جن سے ہمارا تقابل بھی نہیں کیا جاسکتا۔‘‘[5]
[1] شاہ کے دور میں ایک تعلیمی ادارہ کا نام تھا۔
[2] ایران کے ایک صوبہ کا نام
[3] کاشان کے قریب دو علاقہ
[4] Architecture
[5] دفاع مقدس کے انسائیکلو پیڈیا کے مقالہ کی تلخٰیص، دائرۃ العارف دفاع مقدس، جلد ۱، ص ۱۸۴ تا ۱۸۶، ناشر مرکز دائرۃ المعارف دفاع مقدس، پژوہشگاہ (ریسرچ سینٹر) علوم و معارف دفاع مقدس ۲۰۱۱۔