اشخاص

آوینی، سید مرتضی

معصومہ عابدینی
5 بازدید

سید مرتضیٰ آوینی  (1947-1993)،  مصنف،  دستاویزی فلم ساز،  دفاع مقدس کے دوران ٹیلی ویژن سیریز ’’ روایت فتح کے خالق،  ’’جہاد سازندگی‘‘ یعنی تعمیری جہاد  کی ٹیلی ویژن ٹیم کے سربراہ،   ماہنامہ ’’سورہ‘‘ کے مدیر اعلیٰ اور حوزہ ہنری سازمان تبلیغات کے شعبہ سینما کے عہدہ دار تھے۔

سید مرتضیٰ آوینی 1947 میں جنوب تہران میں واقع شہر رے میں پیدا ہوئے۔  آپ کے والد محترم  کان کنی  کے شعبے میں انجینئر تھے۔ آپ نے اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم زنجان، کرمان اور تہران میں حاصل کی اور  1965ءمیں   اعلیٰ ثانوی تعلیمی سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔ اسی سال آپ  فنِ تعمیر کے مضمون میں قبول ہوئے اور تہران یونیورسٹی کے کالج آف  فائن آرٹس میں داخلہ  لیا۔ آپ پڑھائی کے ہمراہ کام بھی کرتے تھے۔ آپ نے 1975  میں   فن تعمیر (Architecture) میں  ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس عرصہ میں  ادبیات اور فلسفہ  کے مطالعہ سے آپ کا لگاؤ شدید ہوچکا تھا۔ اسی طرح  آپ شام غزل کی محافل، مصوری کی نمائشات اور موسیقی کی محافل سے بھی غافل نہ تھے۔ آپ کو جنگی کھیلوں، کوہ پیمائی اور پیراکی سے بھی دلچسپی تھی۔ اپنے تعلیمی ایام میں  اپنے دوستوں کے ساتھ گھنٹوں مباحثہ میں بھی مشغول رہا کرتے تھے۔ بہت عرصہ بعد بالاخر وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس قسم کی سرگرمیاں اور مباحثے ، جو دکھاوے کی دانائی   پر مشتمل ہیں ، دانائی کا نعم البدل  نہیں بن سکتے۔ اپنے اسی احساس کے  زیر اثر آپ نے جو کچھ اس  احساس کے بیدار ہونے سے قبل لکھا تھا سب جمع کرکے جلا دیا۔ آپ سمجھ چکے تھے کہ اب تک جو حاصل کیا ہے وہ  صرف نفسانی حکایات ہیں اور حقیقت سے دور  ہونے کے بہانے۔

ان کے یہ ایام انقلاب اسلامی کے  آغاز کے ایام بھی تھے۔ یعنی 1978۔79  کا عرصہ۔ اسی سال آپ نے محترمہ مریم امینی سے شادی کی۔ مریم امینی  ریاضی اور کمپیوٹر کی طالبہ تھیں اور انہیں بھی آوینی کی  طرح ادبیات اور فنون سے خاصہ لگاؤ تھا۔ اس ازدواج کا حاصل ایک بیٹا اور دو بیٹیاں تھیں۔

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد، آوینی نے اپنے تمام مخطوطات  میں چاہے وہ فلسفی ہوں،  اشعار ہوں یا مختصر افسانہ، سب میں ہی دینی اور مذہبی رنگ بھرنا شروع کر دیا۔

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد جب 1979  میں ’’جہاد سازندگی‘‘ کی بنیاد رکھی گئی تو آوینی اس  ادارہ میں شامل ہوکر دیہاتوں کی آباد کاری میں مصروف خدمت ہوئے۔ انہوں نے جہاد سازندگی کی ٹیلی ویژن کی ٹیم میں شمولیت اختیار کی اور دستاویزی فلمیں بنائیں۔ ان کی پہلی دستاویزی فلم  1979  میں خوزستان میں آنے والے سیلاب کے بارے  میں تھی۔ ان کی دوسری دستاویزی فلم، ’’شش روز در ترکمن صحرا‘‘ (ترکمن صحرا میں چھ دن) تھی جو گنبد کے علاقہ میں ضد انقلاب عناصر کی سرگرمیوں کے بارے میں تھی، اس کے بعد انہوں نے ایک اور دستاویزی فلم ’’خان گزیدہا‘‘ کے نام سے فیروز آباد فارس  کے خانوں( با اثر شخصیات) کے بارے میں بنائی۔

22 ستمبر 1980 کو  جب ایران عراق جنگ شروع ہوئی اور  خرمشہر کی بندرگاہ کا محاصرہ ہوگیا تو آوینی اپنی ٹیم کے ہمراہ خرمشہر پہنچے اور ایک فلم ’’فتح خون‘‘ کے نام سے بنائی۔ ا س کے بعد انہوں نے شہر آبادان کے بارے میں ایک اور سیریز ’’حقیقت‘‘ کے نام سے تخلیق کی۔ آوینی کی مشہور ترین ٹی وی سیریز ’’روایت فتح‘‘ تھی جو 1985  سے ٹیلی ویژن پر نشر ہونا شروع ہوئی۔ اس دستاویزی سیریز میں جنگی مورچوں کی صحیح  تصویر کشی کی گئی تھی۔ اس سیریز کو کافی مقبولیت نصیب ہوئی ۔ اس فلم کا متن آوینی نے  خود لکھا تھا اور اس کی صدا کاری بھی انہوں نے خود اپنے ذمہ لی تھی۔

دستاویزی فلمیں بنانے کے علاوہ مطبوعات کے شعبہ میں بھی آوینی کی سرگرمیاں قابل دید تھیں۔  ان کے مقالات پہلے تو  ماہنامہ ’’اعتصام‘‘ میں چھپتے رہے  لیکن بعد میں ماہنامہ ’’ جہاد‘‘ میں ان کے مقالے چھپنے لگے۔ انہوں نے  1989 سے ماہنامہ ’’سورہ‘‘ کے لئے مقالے لکھنا شروع کئے۔ وہ ایک عرصہ تک اس ماہنامہ کے  مدیر اعلیٰ بھی رہے۔ ماہنامہ  سورہ میں ان کے چھپنے والے مطالب کا مجموعہ 2500  صفحات سے زیادہ پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ ان کے دیگر کاموں میں ماہنامہ ادبیات داستانی کا اجرا اور حوزہ ہنری میں ’’دفتر مطالعات دینی ہنر‘‘ کی تاسیس بھی شامل ہیں۔ اسی طرح ایک سال سے زیادہ عرصے  تک حوزہ ہنری سازمان تبلیغات اسلامی کے منظر نامہ کے شعبہ کی ذمہ داری بھی آپ کے کاندھوں پر رہی۔ آپ حوزہ ہنری کے سینما کے عہدہ دار بھی رہے۔1991   میں گیارہویں فلم فسٹیول ’’فجر‘‘  میں آپ ججز  کی ٹیم میں شامل رہے اور فلموں کے انتخاب میں آپ نے اہم کردار ادا کیا۔

ان کےتفکر کا اصلی سرچشمہ قرآن ، نہج البلاغہ، معصومین علیہم السلام کے اقوال اور امام خمینیؒ کے آثار اور  گفتار رہی۔ آپ  کا عقیدہ تھا کہ انقلاب اسلامی کے واقع ہونے اور امام خمینیؒ جیسے انسان کامل کے ظہور کے ہمراہ، بنی نوع بشر ایک نئے تاریخی دور میں داخل ہوچکی ہے اور آپ  اس دور کو ’’عصر توبہ بشریت‘‘ یعنی بشریت کی  توبہ کا عنوان دیا کرتے تھے۔ آپ اس کو ایسا دور گردانتے تھے جو امام عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے جہانی انقلاب پر ختم ہوگا۔

آپ اپنے دوستوں کے ہمراہ متعدد مسلمان نشین ممالک جیسے لبنان، فلسطین، بوسنیا ہرزگوینا، پاکستان، تاجکستان اور آذربائیجان وغیرہ کے سفر  پربھی گئے۔

ان سفروں کے محصولات میں ایک 21قسطوں پر مشتمل سیریز ’’لبنان اور فلسطین کے بارے میں‘‘، ’’نسیم حیات‘‘ کے عنوان سے 13 پروگرامز، ’’انقلاب سنگ‘‘[1] کے عنوان سے پانچ پروگرامز، ’’آتش گرفتہ‘‘ کے عنوان سے تین پروگرامز، ’’خنجر و شقائق‘‘[2] کے عنوان سے تین پرگرامز شامل تھے۔

آوینی نے 1992  میں سیریز روایت فتح دوبارہ بنانی شروع کی اور اس کام کے لئے آپ جنگی علاقوں کی جانب نکل گئے۔ آپ نے سن رکھا تھا کہ  ’’فکہ‘‘ کے علاقہ میں کئی ایک ایسے  دالان ملے  ہیں جہاں دسیوں ایرانی فوجیوں کے جسد مدفون ہیں۔ 9  اپریل 1993کو آپ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس علاقہ  کے دورہ پر نکل گئے۔ اس  سفر کے دوران آپ  کا پاؤں ایک بارودی سرنگ (جو ناکارہ نہ ہوسکی تھی) پر پڑا اور اس کے دھماکے کے نتیجہ میں آپ کا ایک پاؤں ضائع ہوگیا  جس پر آپ کو فوری طور پر  اسپتال لے جانے کا انتظام کیا گیا مگر خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے  سید مرتضیٰ آوینی راستہ میں ہی شہادت کے درجہ پر فائز ہوگئے۔ اس واقعہ میں انجینئر سعید یزدان پرست بھی آوینی کے ہمراہ شہید ہوئے۔

سید مرتضیٰ آوینی کا جسد خاکی بروز اتوار، 11 اپریل 1993 کو    صبح ساڑھے نو بجے حوزہ ہنری سازمان تبلیغات اسلامی سے برآمد ہوا۔ آپ کی تشیع میں رہبر معظم انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای دامت برکاتہ، بہت سے وزراء اور ہزاروں  افراد نے شرکت کی۔ حوزہ ہنری سے آپ کا جسد خاکی جہاد سازندگی کے مرکزی دفتر   وہاں سے سازمان تبلیغات اسلامی کے مرکزی دفتر اور پھر گلزار بہشت شہدا، تہران لے جایا گیا اور شہدا کے قطعہ 29 کی 12ویں قطار میں 11 نمبر قبر میں آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔

ٹیلی ویژن سے نشر ہونے آپ کی دستاویزی فلموں کی کل تعداد 25 سیریز پر مشتمل تھی۔

آپ کے مکتوب مخطوطات کی فہرست درج ذیل ہے

توسعہ و مبانی تمدن غرب (غربی تمدن کی ترقی اور اس کی بنیادیں)

حلزون ہای خانہ بدوش (خانہ بدوش گونگے)

آغازی بر یک پایان (ایک اختتام کا ابتدائیہ)

رستاخیز جان (زندگی کی قیامت)

فردائی دیگر (ایک اور کل)

آئینہ جاود [تین جلد]

نسیم حیات

فتح خون

گنجینۂ آسمانی

امام و حیات باطنی انسان

بامن سخن بگو دو کوہہ (مجھ سے کلام کرو)

مرکز آسمان

یک تجربہ ماندگار (ایک دیرپا تجربہ)

شہری در آسمان (آسمان میں ایک شہر)

سفر بہ سر زمین نور (سرزمین نور کا سفر)

شہید آوینی نے اپنی تحریروں میں شہید اور شہادت کے مقولہ کے بارے میں کافی تذکرہ کیا ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ شہید، موت کا انتظار نہیں کرتا بلکہ موت  کا انتخاب کرتا ہے۔ انہوں نے اپنی وصیت میں شہید اور شاہد کے بارے میں لکھا: ’’خون کے راز کو شہداء کے علاوہ کوئی کشف نہیں کر پاتا۔ زندگی کی رگوں میں خون کا دوڑنا شیریں ہے مگر محبوب کے قدموں میں اس کا بہہ جانا شیریں تر ہے۔  نا صرف شیریں تر بلکہ بہت  بہت شیریں تر ہے۔‘‘[1]

 

[1] انقلاب اسلامی کے انسائیکلو پیڈیا کے ایک مقالہ کی تلخیص، دائرۃ المعارف انقلاب اسلامی جلد ۱، ص ۲۳، سورہ مہر ۲۰۰۵۔

 

[1] فلسطینی مزاحمتی تحریک کے بارے میں

[2] بوسنیا ہرزگوینا کے حالات کے بارے میں