اشخاص
آہنگران، محمد صادق
فاطمہ خادمی
5 بازدید
محمد صادق آہنگران ایران کے مشہور و معروف ثنا ء خواں ہیں۔ انہوں نے اپنی نغمہ سرائیوں سے دفاع مقدس کے دوران ایرانی فوجیوں کے عزم و ارادے بلند رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
محمد صادق آہنگران المعروف بہ صادق آہنگران، 1957 میں اہواز میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے والد کے ہمراہ اکثر اوقات اپنے علاقہ کی مسجد ’’مسجد مرعشی‘‘ جایا کرتے تھے۔ ان کے والد نماز کے بعد کی تعقیبات کو خوش الحانی سے پڑھتے تھے جس نے آہنگران کے دل میں دینی جذبہ بیدار ہونے میں اپنا اثر دکھایا۔[1]
بارہ سال کی عمر میں صادق آہنگران نے پہلی بار نہم محرم اور عاشورا کے دن باقاعدہ نوحہ خوانی کی اور اس کے بعد وہ مسجد ’’چیت ساز‘‘ اہواز میں مستقل نوحہ خوانی کرنے لگے۔[2] انہوں نے ثانوی تعلیم اہواز کے اسکولوں، فرہنگ اور شاہپور سے حاصل کی اور انٹر میڈیٹ کا امتحان تہران کے ہائی اسکول خرداد نیاکان سے پاس کیا۔[3]
1977 میں صادق آہنگران این سی سی کے ٹرینگ پر گئے۔ انہوں نے کرج میں چھ ماہ ٹرینگ حاصل کی اور اس کے بعد آبادکاری فورس کا حصہ بن کر کردستان چلے کئے اور ایک سال تک مریوان میں غیر قانونی شکار کی روک تھام کے ادارے میں مشغول رہے۔[4] اسی عرصہ میں وہ مریوان کی جانب جلا وطن کئے گئے دینی علماء سے رابطوں کے جرم میں گرفتار بھی ہوئے اور ساواک نے انہیں تقریبا ایک ماہ کے لئے مغربی ایران کے ایک سرحدی علاقہ ’’دلہ مرز‘‘ جلا وطن کردیا۔ انقلاب اسلامی سے قبل جب جھڑپوں نے شدت اختیار کی تو انہوں نے امام خمینیؒ کی بات عمل کرتے ہوئے این سی سی سے راہ فرار اختیار کی اور اپنے آبائی وطن اہواز آگئے۔ وہ کچھ ماہ دزفول میں چھپ کر زندگی گذارتے رہے۔[5]
1979 میں انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد اہواز میں ہی اپنے محلہ کی مسجد میں سرگرمیوں میں مشغول ہوگئے۔[6] اس کے بعد اہواز میں ایک کمیٹی ’’کمیتہ پرستو‘‘ کے نام سے بنائی گئی جس کے ذمہ دار علی شمخانی تھے تو آہنگران اپنے دوستوں کے ہمراہ ان کی کمیٹی میں شامل ہوگئے۔ وہ اشرار اور ضد انقلاب عناصر سے مقابلہ کے ساتھ ساتھ نئے افراد کو بھی انقلاب کی جانب بھی جذب کرتے تھے۔ آہنگران اس وقت اسلحہ خانہ کے عہدہ دار بھی تھے۔ جب ’’خلق عرب‘‘ ضد انقلاب عناصر اور عراقی ’’حزب بعث‘‘ کی جانب سے امداد پاتی تھی سو اس نے خراب کاریاں شروع کر دیں تو آہنگران نے اہواز میں سپاہ پاسداران کی تاسیس کی ٹھانی۔ [7] حسین علم الہدیٰ[8] کے گھر میں ایک جلسہ منعقد ہوا اس میں علی شمخانی کو سپاہ اہواز کما نڈر مقرر کیا گیا اور آہنگران کو ان کا پرسنل اسسٹنٹ اورافرادی قوت کی جمع آواری کا مسئول مقرر کیا گیا۔ سپاہ اہواز کی تاسیس اور اس کی چھاؤنی کے قائم ہونے کے بعد آہنگران اپنی دوسری ثقافتی اور تعلیمی ذمہ داریوں کے ہمراہ صدر اسلام کی جنگوں کی تدریس پر بھی مامور ہوئے۔[9]
آہنگران سپاہ میں اپنی سرگرمیوں اور تعلیمی کلاسوں کے ہمراہ، اپنے بھائی حمید کے گروپ میں بھی شامل ہوگئے۔ حمید فن کی دنیا میں کام میں مصروف تھے اور انہوں نے تھیٹر کی ایک ٹیم بھی بنا رکھی تھی۔ آہنگران اس گروہ کے ساتھ شامل ہوکر ایک مدت تک حسین پناہی[10] کے ہمراہ تھیٹر میں کام کرتے رہے۔[11]
آہنگران 8 فروری 1980 کو رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے ۔ اس شادی کے بعد وہ تین بچوں کے باپ بنے دو بیٹے جن کے نام محمد علی اور حسین ہیں اور ایک بیٹی جسکا نام زہرا ہے۔[12]
22 ستمبر 1980 کو جب ایران عراق جنگ شروع ہوئی تو خوزستان کےپاسداران ان اولین فوجی دستوں میں سے تھے جو اس ہجوم کے مقابلہ پر نکلے تھے۔ آہنگران نے دوسرے پاسداران کے ہمراہ کئی ایک آپریشنز میں شرکت کی۔ وہ مورچوں پرجوانوں کے لئے نوحے اور پرجوش نغمے پڑھا کرتے تھے۔ یہ نغمے اور نوحے ان کو بچپن ہی سے یاد تھے۔ نوحہ ’’ای شہیدان بہ خون غلتان خوزستان‘‘ جو انہوں نے امام بارگاہ جماران میں پڑھا تھا وہ فوجیوں کے درمیان بہت مشہور ہوا اور ان کی شہرت کا باعث بنا۔[13]
آہنگران 17 نومبر 1980 کے سوسنگرد کے آپریشن جو سوسنگرد کی آزادی کے لئے تھا اور 29 نومبر 1981کے طریق القدس آپریشن جو بستان کی آزادی کا آپریشن تھا، میں شریک رہے۔ وہ جنگی امور میں شرکت اور امدادی کاروائیوں کے علاوہ فوجیوں کے لئے دعا اور ثنا خوانی کا کام بھی انجام دیا کرتے تھے۔ [14]
ٹیلی ویژن پر خبر یں پڑھنے والے نے بستان کی آزادی کی خبر سنائی تو اس نے دعائے کمیل کے انعقاد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے آہنگران کے نام کو جو کہ در اصل آہنگری تھا، آہنگران کہہ دیا۔ اس کے بعد سے محمد صادق اسی نام یعنی آہنگران کے نام سے مشہور ہوگئے۔[15]
طریق القدس آپریشن کے بعد سپاہ پاسدران انقلاب اسلامی کے اس وقت کے کمانڈر محسن رضائی کےحکم کی اطاعت کرتے ہوئے آہنگران کسی آپریشن میں شریک نہیں ہوئے بلکہ مختلف کمانڈ سینٹرز میں دعا اور نغمہ سرائی میں مصروف رہے۔ مختلف آپریشنز میں ان کے گائے ہوئے نغموں میں سے درج ذیل نغمات بھی شامل تھے۔[16]
سوی دیار عاشقان (آپریشن فتح المبین 22 مارچ 1982، اور آپریشن بیت المقدس 30، اپریل 1982)
ای لشکر صاحب زمان ( آپریشن مسلم بن عقیل یکم اکتوبر 1982)
کاروان (والفجر ابتدائی 6 فروری 1983)
ای لشکر حسینی (آپریشن خیبر، 22فروری 1984 اور والفجر8، 9 فروری 1986)
باید بہ زودی دست بر یک حملۂ دیگر زدن ( آپریشن کربلا 4 دسمبر 1986، آپریشن کربلا 5، 9 جنوری 1987)
آپریشن والفجر ابتدائی کے بعد عراقی ریڈیو نے جھوٹی خبر نشر کردی تھی کہ ایران اس آپریشن میں شکست کھا گیا ہے اور ایرانی دشمنوں کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے اور قیدیوں کے ضمن میں ہم نے ’’بلبل خمینی‘‘[17] کو بھی گرفتار کر لیاہے۔ یہ وہ لقب تھاجو دشمن یعنی عراق کی جانب سے آہنگران کو دیا گیا۔[18]
سن 1983 میں سید کمال خرازی جو جنگی تبیلغات کے مرکز کے عہدہ دار تھے، کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے نغمہ خوانوں اور واعظوں کو جنگی یونٹس پر بھیجنے کے لئے ایک مرکز قائم کیا گیا جس کا نام مرکز دعا رکھا گیا۔ آہنگران اور محمد حسین آل مبارک اس مرکز کے بنیادی رکن تھے۔[19]
آہنگران کی آواز کی گونج آٹھ سال تک مسلسل تمام فوجی پناہ گاہوں اور جنگی میدانوں میں فوجیوں کے کانوں تک پہنچتی رہی اور وہ بھی پوری تن دہی کے ساتھ ایران کے دفاع کے لئے تیار ہوتے رہتے۔ صادق آہنگران کے کے جوشیلے اشعار اور ان کی آواز ، مورچوں پر ثابت قدمی دکھانے والے تمام ہی افراد اور فوجیوں کے مشترکہ واقعات اور یادوں میں شامل ہے۔ [20]
ایران عراق جنگ کے خاتمہ کے بعد آہنگران کو اس بات کا احساس ہوا کہ ایران میں اب ان کی ذمہ داری کا اختتام ہو گیا ہے سو اب انہیں کسی اور محاذ پر اپنی ذمہ داری نبھانی چاہئے۔ اس خیال کے تحت انہوں نے عرب ممالک بالخصوص لبنان کی جانب جانے کی ٹھانی تاکہ وہاں وہ نوحہ خوانی کے فرائض انجام دے سکیں۔ اس کام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے عربی سیکھنے کی ضرورت تھی سو اس کے لئے وہ قم میں رہائش پذیر ہوگئے۔ یہاں قیام کے دوران انہوں نے علمائے دین سے خوب استفادہ کیا اور ان سے مرتبط رہے۔ [21]
اسی عرصہ میں معاشرہ کی فضا کے یکسر بدل جانے کی وجہ سے اب آہنگران کو اس کا بھی احساس ہو چلا تھا کہ وہ روایتی طریقہ سے اپنے آثار کو نہیں گا سکتے۔ سو انہوں نے فیصلہ کیا کہ جوش و خروش کی عمومی فضا کو برقرار رکھتے ہوئے وہ اب اپنے نغموں کو موسیقی کے ہمراہ دوبارہ گائیں۔ اس کام سے قبل انہوں نے بہت سے معزز علماء جن میں آیت اللہ محی الدین حائری شیرازی بھی شامل تھے، سے مشورہ کیا ۔ علما نے بھی کئی ایک نکات آہنگران کے گوش گذار کئے۔ بالآخر موسیقی کے ہمراہ ان کے نغموں کی پہلی البم ’’اشک افشان‘‘ کے نام سے امام خمینی کی برسی کے موقع پر منتشر (ریلیز) ہوئی۔ عوام کی جانب سے اس البم کو بہت پذیرائی ملی بالخصوص ان کا نغمہ ’’کاروان رفتہ منزل بہ منزل‘‘ بہت سراہا گیا۔[22]
آہنگران نے جنگ کے اختتام پر اپنے تعلیمی سلسلے کو دوبارہ شروع کیا اور ادبیات فارسی میں تہران یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری لینے میں کامیاب ہوگئے۔[23] آہنگران اہواز اور تہران میں جنگجؤوں کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن بھی تھے۔ وہ زیادہ تر اسی انجمن کے لئے نوحہ خوانی کیا کرتے تھے۔[24]
ان کے نغموں کے البم اشک افشاں، مثنوی شہادت، داغ ازلی اور دشت کربلا کے نام سے منتشر ہوئے ہیں۔[25] ان کے واقعات اور ان کے نوحوں اور نغموں کا متن ’’کتاب آہنگران‘‘ نامی کتاب میں محفوظ کیا گیا ہے جس کی جمع و تدوین کا سہرا علی اکبری کے سر ہے یہ کتاب 2012 میں چھپ کر تقسیم ہوئی۔[26]
[1] دائرۃ المعارف انقلاب اسلامی، ج ۱ ص ۲۴، ناشر سورہ مہر تہران ۲۰۰۵۔
اکبری، علی، کتاب آہنگران ص ۴۲ اور ۴۳،یا زہرا سلام اللہ علیہا، تہران، ۲۰۱۲
[2] ایضاً ص ۴۳ اور ۴۴
[3] داٗئرۃ المعارف انقلاب اسلامی جلد ۱ ص ۲۴
[4] ایضا ص ۲۴ اور اکبری، کتاب آہنگران ص ۴۸
[5] دائرۃ المعارف انقلاب اسلامی ج ۱ ص ۲۴
[6] ایضاً
[7] اکبری علی، کتاب آہنگران، ص ۵۶
[8] امام خنینی کی راہ کا اتباع کرنے والے طلاب میں سے ایک تھے اور ایران عراق جنگ کے ابتدائی دور میں فوجیوں کے ایک دستہ کی ذمہ داری بھی ان کے کاندھوں پر تھی۔ آپ ۱۹۸۰۔۸۱ میں شہید ہوئے۔ دائرۃ المعارف انقلاب اسلامی جلد ۱ ص ۲۴
[9] اکبری، علی، آہنگران، ص ۵۷ اور ۵۸
[10] حیسن پناہی اصالتا کہگیلویہ و بویر احمد سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان کی رہائش اہواز میں تھی۔ انہوں نے انقلاب سے قبنل دینی تعلیم حاصل کی تھی اور اس کے بعد انقلاب کی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے تھے۔ آپ بھی حیسن علم الہدیٰ کے ہمراہ کام کیا کرتے تھے۔ (کتاب آہنگران ص ۵۸)۔ وہ ۱۹۸۰ کے عشرہ کی ابتدا میں اس کام یعنی اداکاری، ہدایت کاری کے شعبہ میں مصروف عمل ہوگئے تھے۔ آپ نے ۲۰۰۴ء میں وفات پائی۔ (رامین، علی زمانی، کامران، دانشنامہ دانش گستر ص ۳۶۸، موسسہ دانش گستر تہران ۲۰۱۰۔
[11] کتاب ااہنگران، ص ۵۸
[12] ایضا ص ۷۶ تا ۸۶
[13] دائرۃ المعارف انقلاب اسلامی، ج ۱ ص ۲۴ اور ۲۵۔
[14] اکبری، علی، کتاب آہنگران ص ۹۰ تا ۱۰۸۔
[15] ایضا ص ۱۱۵
[16] ایضا ص ۱۲۸ تا ۱۸۷
[17] محمد صادق آہنگران
[18] ااکبری، علی، کتاب آہنگران ص ۱۵۶
[19] ایضاً ص ۱۶۲
[20] دائرۃ المعارف انقلاب اسلامی جلد ۱ ص ۲۵
[21] کتاب آہنگران ص ۲۰۴
[22] ایضا ص ۲۳۱
[23] ایضا ص ۴۵
[24] ایضا ۲۱۹ اور ۲۲۱
[25] خبر آنلائن، ۲۹ اگست ۲۰۲۰، خبر کا کوڈ ۱۴۲۶۷۸۲
[26] اکبری علی کتاب آہنگران، ص ۳۱