دوئل

زینب احمدی
1 بازدید

سن 2003 میں بنائی گئی احمدرضا درویش کی فلم "دوئل" یعنی ڈوئل، ایک ایسے ایرانی فوجی کی کہانی بیان کرتی ہے جو عراق کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کے دوران عراق میں قید ہوا اور بیس سال قید رہا،وہ  اپنی طولانی قید کے تجربات کو یاد کرتا ہے اور یہ فلم اس کے ان تلخ تجربات میں سے کچھ  کو ناطر کے سامنے پیش کرتی ہے۔

فلم کے ڈائریکٹر اور اسکرپٹ رائٹر احمدرضا درویش، فرسٹ اسسٹنٹ ڈائریکٹر مہرداد میرفلاح، سنیماٹوگرافی بہرام بدخشانی، سینماٹوگرافر امیر کریمی، انڈر واٹر سنیماٹوگرافر محمد تقی نیکی کار، ہدایت کار برائے پس مناظر ابوالفضل توکلی، اسکرپٹ سپروائزر آذر تجلی جو، بہمن اردلان ساؤنڈ ریکارڈسٹ، اور محسن روزبهانی ویژول ایفیکٹس کا شعبہ سنبھالے ہوئے تھے۔ ایڈیٹر مصطفی خرقه پوش تھے، جبکہ اسکرپٹ میوزک مجید انتظامی نے کمپوز تیار کیا جس کی ریکارڈنگ "پاپ" اسٹوڈیو میں ہوئی۔

میک اپ ڈیزائنر داریوش صالحیان اور علی خورشیدی، سیٹ اور کاسٹیوم ڈیزائنر امیر اثباتی، اور فوٹوگرافر محمدعلی قلی زاده تھے۔ فوجی امور کی مینجمنٹ مقصود جباری اور علی عنبرانی کے پاس تھی۔ غوطہ خوروں کی ٹیم مسعود گندمی اور سعید قاسمی پر مشتمل تھی۔ پروڈکشن مینیجر شهریار شهباززاده اور حسین رامه تھے۔ پراجیکٹ سپروائزر تقی علیقلی زاده،  جبکہ پروڈیوسر حسن رجبعلی بنا تھے۔

فلم کے اداکاروں میں پژمان بازغی، سعید راد، پریوش نظریه، انوشیروان ارجمند، کامبیز دیرباز، پرویز پرستویی، ہدیہ تہرانی، ابوالفضل شاه کرم، حسین سحرخیز، تورج فرامرزیان، رحمان باقریان، مہدی ساکی، وحید رہبانی، محمد رنجبر، علی مردانه، شیرین دژگاه، حسین افشار، اور عبدالحسین توشہ شامل ہیں۔

اس فلم کو بنانے میں وزارت دفاع، مسلح افواج، ریلوے، ایران کے توسیعی و تعمیر نو ادارہ برائے معدن و صنعت اور ایران کے گاڑیاں بنانے والے ادراہ IKCO (Iran Khodro Industrial Complex) اور سایپا گاڑی بنانے والی کمپنی نے تعاون کیا ہے۔

113 منٹ کی یہ فلم "تماشا" نامی ثقافتی ادارے  اور "عروج" نامی آرٹ سنٹر کی پیشکش ہے جو 10 نومبر 2004 عوامی نمایش کے لیے تہران کے درج ذیل سینما گھروں میں پیش کی گئی: آفریقا، ایران سہ، آستارا، اروپا، آسیا، بلوار، توسکا، فردوسی اور دیگر سینما گھر[1]۔ اس فلم نے 9/889/648/000 ریال کا بزنس کیا۔[2]     

زینال چالیس سال کی عمر میں، عراق میں بیس سال قید کے بعد آزاد ہو کر اپنے شہر واپس آتا ہے۔ اسے یاد آتا ہے کہ جنگ کے آغاز میں، جب دشمن نے حملہ کیا اور ہوائی جہازوں نے جنگ زدہ  علاقے سے نکلنے کی کوشش کرنے والے لوگوں کے ہجوم پر  وحشانہ  حملے کیے تو اس نے اور خرمشہر کے حسینیہ ریلوے اسٹیشن پر مقامی لوگوں کے ایک گروپ نے دشمن کا مقابلہ کیسے کیا۔ ان انتہائی مشکل اور بحرانی حالات میں سکندر کچھ فوجی دستوں کے ہمراہ، جو خفیہ مشن کا دعویٰ کرتے ہیں، زینال سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ دشمن پر ایک اچانک شب خون مار کر ایک ایسے  سیف (آہنی صندوق)کو، جس میں خفیہ دستاویزات ہیں اور جو پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت ملک سے باہر لے جانے کے لیے ایک مال گاڑی میں رکھا ہوا ہے، دشمن کے قبضے سے بچا لے۔ زینال اپنے ساتھیوں کی مدد سے اس سیف تک رسائی حاصل کر لیتا ہے اور گروپ لیڈر کے حوالے کر دیتا ہے۔ وہ اس کارروائی میں اپنے کئی دوستوں کو کھو چکا ہوتا ہے، اورگروپ لیڈر کی شہادت کے بعد وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ سیف کو محمد جہان آرا کے پاس اہواز لے جائے۔ اس کے سکندر اور حکومتی  اہلکاروں سے اختلافات بڑھ جاتے ہیں، لیکن زینال سخت محنت سے سیف کو ایک ٹو ٹرک  تک پہنچاتا ہے اور آخری لمحات میں پیچھا کرنے والوں سے بچ نکلتا ہے۔ البتہ، آخرکار اس کا قریبی ساتھی یحییٰ، جو مزاحمتی گروپ کا رکن ہے اور ہر مرحلے پر اس کے ساتھ ہے، عراقی فوجیوں کے حملے کے دوران سیف سمیت  گہرےپانی میں کود جاتا ہے اور زینال کو عراق فوجی قید کر لیتے ہیں ۔

قید سے آزاد ہونے کے بعد، زینال کو ایک غدار کے طور پر کئی مہینے قرنطینہ میں رکھا جاتا ہے اور جب وہ اپنے گاؤں واپس آتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ مقامی لوگ اور قبیلے کا سردار بھی اسے غدار سمجھتے ہیں۔ یحییٰ کی بیوی سلیمہ بھی اسے اپنے شوہر کی موت کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے اور اس کے گاؤں واپس آنے کی اطلاع ملنے پر، انتقام لینے کے ارادے سے اسے قتل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ زینال اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے اس علاقے کے فوجی کمانڈر کے پاس جاتا ہے، جو جنگ کے آغاز میں جہان آرا کا نائب تھا اور اس نے کئی مراحل میں زینال کی مدد کی تھی۔ کمانڈر اپنے فوجی عہدے کو خطرے میں ڈال کر زینال کو ضروری ساز و سامان اور غوطہ خوروں کا ایک دستہ مہیا کرتا ہے تاکہ وہ پانی میں  متعلقہ مقام پر اس سیف کو  تلاش کر سکے۔ وہ سیف بہر حال مل جاتا ہے، لیکن زینال سب سے پہلے یحییٰ کی لاش کے باقی ماندہ حصے سلیمہ کے پاس لے جاتا ہے۔ اس موقع پر سکندر بروقت کارروائی کرتے ہوئے قبیلے کے سامنے اس راز سے پردا اٹھاتا ہے کہ سیف میں حکومتی دستاویزات نہیں ہیں، بلکہ سیف  سونے کے اینٹوں سے بنا ہوا ہے اور زینال کی اس وقت کی کارروائی غداری کی بجائے ایک نیک مقصد کے تحت تھی۔

زینال چونکہ جانتا ہے کہ سکندر اب بھی وہ سیف حاصل کرنا چاہتا ہے، سیف کو لے کر بارودی سرنگوں کے میدان میں چلا جاتا ہے اور شدید کشمکش اور اپنے بھتیجے کی ہلاکت کے بعد، آخر کار  سکندر  چاقو مار کر زینال کو زخمی کر دیتا ہے۔ سکندر سیف کے ساتھ وہاں سے گزرتا ہے، لیکن سرنگیں ایک ایک کر کے پھٹنے لگتی ہیں اور سونے کے اینٹیں چورہ چورہ ہو کر صحرا میں بکھر جاتی ہیں۔ سلیمہ، جو زینال کی بے گناہی پر یقین کر چکی ہے، اس کے نیم جان جسم کو ہسپتال پہنچاتی ہے۔

22ویں بین الاقوامی فجر فلم فیسٹیول میں، جو 2003ء میں  منعقدہوا، فلم "دوئل" گیارہ کرسٹل سیمرغ ایوارڈز کے لیے نامزد ہوئی اور آخر کار سات "کرسٹل سیمرغ" ایوارڈز حاصل کرنے میں کامیاب رہی: بہترین ڈائریکٹنگ/ ہدایت کاری کا کرسٹل سیمرغ احمدرضا درویش، بہترین اداکاری (بیسٹ ایکٹر) کامبیز دیرباز ، بہترین سینماٹو گرافی بہرام بدخشانی، بہترین ساونڈ مکسنگ مسعود بہنام اور حمید نقیبی، بہترین سیٹ اور کاسٹیوم ڈیزائننگ امیرحسین اثباتی، بہترین ایڈیٹنگ مصطفیٰ خرقه‌پوش، بہترین ویژول ایفیکٹس محسن روزبهانی کے نام سے منسوب ہوئے۔ نیز، یہ فلم ایران کی گرینڈ سینما تقریب 2004ء میں بہترین ہدایت کاری کے سبب خصوصی جیوری ایوارڈ، بہترین ویژول ایفیکٹس ، بہترین ساونڈ مکسنگ ، بہترین سیٹ اور کاسٹیوم ڈیزائن اور بہترین ایڈیٹنگ پر الگ الگ شیلڈز حاصل کرے میں بھی کامیاب ہوئی۔

یہ فلم 2004ء کے "پوسان" بین الاقوامی فلم فیسٹیول اور 2004ء کے فوکوئوکا ایشیا پیسیفک فلم فیسٹیول میں بہترین فلم کا خصوصی ایوارڈ جیت چکی ہے۔ فلم مقاومت کےانٹر نیشنل فیسٹیول 2004میں، احمدرضا درویش نے اس فلم کے لیے بہترین ہدایت کاری کا خصوصی ایوارڈ حاصل کیا۔

کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں "دوئل" ایک بڑا سینمائی پروجیکٹ ہے۔ بڑے سینمائی پروجیکٹس پرکشش بھی ہوتے ہیں اور خطرناک بھی؛ خطرناک اس لحاظ سے کہ فلم کی تیاری میں سرمایہ اور فن ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوتے ہیں۔ کچھ ناقدین کا کہناہے کہ اس بہترین فلم کے بننے میں قومی اور حکومتی سرمایہ  خرچ ہواہے (ایرانی سنیما ایک حکومتی سنیما ہے)اور سرمایہ کاری کی منطق کے مطابق سرمائے کی واپسی کی توقع ہونی چاہیے، لیکن یہ فلم کم خرچ پر بننے والی فلموں کے مقابلے میں بھی کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔

کچھ ناقدین کے نزدیک فلم ڈائریکٹر کی سب سے بڑی طاقت فلم کے ابتدائی بیس منٹ ہیں جو ہدایت کار کی مصروف مناظر کی رہنمائی کرنے، ایکسٹرا ایکٹرز کے ساتھ کام کرنے، کیمرے کے درست زاویوں اور حرکات اور فلم کی سین بندی میں مہارت کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈائریکٹر فلم کے تکنیکی مسائل سے عہدہ برآ ہو گئے ہیں۔ اس فلم میں ڈائریکٹر ار نے اپنی زیادہ تر صلاحیت اور طاقت جنگ کے مناظر نمانے اور تکنیکی مسائل پر صرف کی ہے۔

کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ "دوئل" فرانسیسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے: " پہلے سے طے شدہ معاہدے کے تحت دو افراد کی لڑائی"، جو سولہویں صدی میں عام ہوئی، لیکن یہ فلم دو افراد کے درمیان جنگ نہیں ہے بلکہ ایک طرف سکندر اور اس کے گروہ اور دوسری طرف زینال، اس کا بھتیجا اور چند دیگر افراد ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ڈائریکٹر کے نام دینے کی وجہ علامتی طور پر ایران اور عراق کے درمیان جنگ ہو تب بھی یہ درست نہیں ہے، کیونکہ یہ فلم دفاع مقدس کی اقدار کو زندہ کرنے والی ہونی چاہیے تھی اور اس کا نام سولہویں صدی کے یورپ کے ایک فرانسیسی لغت سے عاریہ نہیں لینا چاہیے تھا۔

ناقدین کا ایک اور اعتراض جنگ کے طویل مناظر کی نمائش  پرہے جو مہنگی  بھی ہےاور بے مقصد بھی، یعنی کہانی کو آگے بڑھانے کے لیے ڈراماٹیک انداز کی ضرورت نہیں تھی۔

کچھ دوسرے ناقدین اس فلم کو "قومی منصوبہ" کہتے ہیں کیونکہ یہ ناظرین میں قوم پرستی اور حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرتی ہے، لیکن ان کا خیال ہے کہ ڈائریکٹر نے اس فلم کے ذریعے جنگ کو خراج تحسین پیش کرنے کے بجائے جنگ کے نقصانات کے حوالے سے حکام پر سوال اٹھایا ہے۔[3]

کچھ تجزیہ نگاروں نے اس فلم کی تعریف میں کہا ہے کہ فلم کے مکالمے اچھی ترتیب اور فلم کے ساتھ تناسب رکھتے ہیں اوراداکار مکالموں میں مہارت رکھتے ہیں؛ خاص طور پر تشبیہات اور محاورات کے استعمال میں وہ ماہر ہیں۔ اچھی مکالمہ نگاری ایک تکنیکی کام ہے، اس فلم کے لوگوں کی باتیں لفظی دوئل کی مانند ہیں، ایک قسم کی نوک جھونک ہے، ہر فریق کوشش کرتا ہے کہ اپنے مخالف کو ٹھوس جوابات دے کر اس کو قائل کر  لے اور یہی اس فلم کی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔[4]

کچھ ناقدین کا یہ بھی ماننا ہے کہ "دوئل" تکنیک اور ویژول ایفیکٹس کی سہولیات کے لحاظ سے ہالی وڈ کےسنیما سے مقابلہ کر سکتی ہے، لیکن کہانی کے بیان اور کرداروں کی تشکیل کے لحاظ سے یہ کمزور ہے۔ ہالیوڈ تاریخی، سماجی، تخیلاتی اور واقعاتی شاہکاروں کو انفرادی ڈراموں اور حقیقی، الگ تھلگ کرداروں کے ذریعے بیان کرتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ بحران کا شکار کرداروں کے لیے ناظرین کی ہمدردی کو بھی ابھارتا ہے، لیکن "دوئل" میں ناظر دھماکوں کی لہر سے چونک جاتا ہے، لیکن فلم کی کہانی اس کی توجہ مبذول نہیں کرتی اوراسے اس بات کی بھی فکر نہیں کہ کہانی کے کرداروں کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ۔[5]

 

[1] بہارلو، عباس ، فیلم شناخت ایران، فیلمشناسی سینمای ایران ، 1994-2003، تہران، قطرہ پبلیکیشن، 2011، صفحات 453 اور 454

[2] جاودانی، ہما،سالشمار تاریخ سینمای ایران (جولائی 1900- ستمبر 2000)، تہران، قطرہ پبلیکیشن، 2002، صفحہ 268

[3] جمال امید، جمال ، فرہنگ فیلمہای سنیمای ایران ، 1999-2009، نگاہ پبلیکیشن، 1973، صفحہ 1504 اور مجلہ دنیای تصویر، شمارہ 139، بارہواں سال، جنوری 2005، صفحات 96-98 اور https://www.manzoom.ir/title/tt2430961/%D9%81%DB%8C%D9%84%D9%85 و https://www.andishekish.ir/?p=11885

[4]  ماہنامہ سینما یی فلم، شمارہ 28، جنوری 2005، صفحات 49 اور 50

[5]   ماہنامہ سینما یی ، شمارہ 332، تیئسواں سال، 10 مئی 2004، صفحات 106 اور 107