در جستجوی قہرمان

زینب احمدی
15 بازدید

فلم "در جستجوی قهرمان" یعنی ہیرو کی جستجو میں، حمید رضا آشتیانی پور نے 1988ء میں بنائی۔ اس فلم کا مرکزی خیال ایک ایسے فلم نامہ نگار کے گرد گھومتا ہے جو جنگ کے موضوع پر دستاویزی فلم نامہ لکھنے کے ارادے سے محاذ جنگ کا رخ کرتا ہے تاکہ اس ماحول کو درست طور پر سمجھ کر اس پر قلم اٹھا سکے۔

اس فلم کے ہدایت کار حمید رضا آشتیانی پور، معاون ہدایت کار عطاء اللہ سلمانیان، فلم نامہ نگار سید مجید امامی، پروڈیوسر باقر آشتیانی عراقی، سین سکریٹری رضا سروی، کیمرہ ٹیم محمد درمنش، حسن علیمردانی، مجید دهقان، صمد سعیدی اور محمد ابراہیمیان، ایڈیٹر حمید رضا آشتیانی اور سید مجید امامی، آرٹ ڈائریکٹر حمید آغالر، سٹیج منیجر عباس درویش، موسیقی حمید گوگردچی، ساؤنڈ ریکارڈسٹ محسن روشن،ڈایلوگ انچارج منوچہر اسماعیلی، ویژل ایفیکٹس علی رضا رستگاری اور اداکار مجید مجیدی، عطاء اللہ سلمانیان، عبدالحسین برزیده، مجید آشتیانی پور، نیلوفر محمودی، رضا سروی، حبیب اللہ رجبعلی، رضا قاسمی، بہزاد خداویسی، کوروش درویش زاده، ابراہیم معین پور، اسماعیل معین پور، جہان سوز فولادی، محمد سعیدی، مہدیہ آشتیانی پور، ہوشنگ خبازی، علی اکبر جوادی، عزت پورقسامی، علیرضا ناصری اور دیگران شامل ہیں۔[1]

یہ 95 منٹ کی فلم سورہ سنیما ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کی پیشکش ہے جو 1990ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی[2] اور اس نے 13,193,800 ریال کی فروخت کی۔[3]

سینما کے مضمون کا وحید نامی طالب علم  ایک فلم نامہ لکھنے کے لیے موضوع کی تلاش میں ہے۔ جنگ پر فلم نامہ لکھتے ہوئے، اس کی اہلیہ اسے بتاتی ہیں کہ اس کے موضوعات ایران میں جاری جنگ سے کافی مختلف ہیں اور اس کی تحریریں زیادہ تر جرمن اور امریکی فلموں سے مشابہت رکھتی ہیں۔ جب وحید اپنی تحریروں میں کامیابی حاصل نہیں کر پاتا تو ایک دوست کے مشورے پر محاذ جنگ پر چلا جاتا ہے، لیکن حادثاتی طور وہ خط مقدم پر پہنچ جاتا ہے اور دشمن کے ساتھ جھڑپ کے دوران جب وہ ایک ٹینک کے اندر ہوتا ہے، تو وہ ایک دوسرے فوجی کے ساتھ علاقے میں کھو جاتا ہے اور عملی طور پر جنگ میں شامل ہو جاتا ہے اور نئے حقائق سے آگاہ ہوتا ہے جنہیں بالآخر وہ اپنے فلم نامے میں استعمال کرتا ہے۔[4]

اکثر ماہرین کے مطابق، ہدایت کار اپنی پہلی طویل سینمائی کاوش میں کافی حد تک کامیاب رہا ہے جس نے بیانیے کے نئے ڈھانچے کے ذریعے ایک قابل قبول کاوش پیش کی ہے۔ فلم عام جنگی نعروں اور فرسودہ عبارتوں سے پاک ہے۔ ہدایت کار کا جنگ کے معاملے پر ایک منفرد نقطہ نظر ہے۔ فلم کا موضوع ایک فلم نامہ نگار ہے جو جنگ پر فلم نامہ لکھنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اپنے دوست کے مشورے پر محاذ جنگ کی طرف رخت سفر باندھتا ہے۔ جنگ کے حقیقی ماحول میں داخل ہونے سے پہلے، اس کا جنگ کے فلم نامے کے بارے میں نقطہ نظر صرف آمدنی حاصل کرنے اور اپنے خاندانی زندگی کے چکر کو چلانے تک محدود ہے، لیکن حقیقت کا سامنا کرنے کے بعد بغیر کسی ارادے کے، وہ خود اپنے فلم نامے کا ہیرو بن جاتا ہے۔ وہ مجاہدین کا لباس پہنتا ہے اور ٹینک میں داخل ہو جاتا ہے، اسے ایک عراقی قیدی کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے، ہتھیار اٹھاتا ہے اور جنگ کے میدان میں اتر کر خط مقدم پر پہنچ جاتا ہے۔ یہیں پر اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کا فلم نامہ اور اس کے ذہن میں موجود کردار جنہیں وہ لکھنا چاہتا تھا، حقیقت سے کوئی میل نہیں کھاتے اور اسے سمجھ آتی ہے کہ حقیقی ہیرو کی تعریف اس سے یکسر مختلف ہے جو اب تک اس کے ذہن میں تھی اور تمام مجاہدین جو جنگ لڑ رہے ہیں  وہ سب کے سب ایک طرح سے ہیرو ہیں۔

کچھ کا کہنا ہے کہ فلم "در جستجوی قهرمان"فلم ساز آرٹسٹ کے میدان عمل میں اپنے جذبات کی حقیقت کو پایا ہے۔ فلم کا پیغام یہ ہے کہ آرٹسٹ کو فن تخلیق کرنے سے پہلے معاشرے اور میدان عمل میں موجود ہونا چاہیے اور واقعات کی گہرائی کو سمجھنا چاہیے تاکہ وہ حقیقت کی عکاسی کر سکے، کیونکہ جب تک آرٹسٹ جنگ جیسے حقیقی واقعات سے براہ راست آگاہی حاصل نہیں کرتا، وہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس کی فلم حقیقت پر مبنی ہے۔ فلم کا موضوع واقعی انوکھا اور غور طلب ہے اور اس سوال کا جواب دیتا ہے کہ آرٹسٹ پر اپنے معاشرے کے حقایق  نسبت کیا قرض ہے؟ جب تک آرٹسٹ کا جنگ سے براہ راست جذباتی، قابل محسوس اور زندہ تعلق نہ ہو، اسے اس بارے میں فلم نہیں بنانی چاہیے۔ فلم کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ آرٹسٹ اس بارے میں بات کرنے کے بجائے، اپنے ہیرو کے عمل کے ذریعے اسے بیان کرتا ہے۔

جوان فلم نامہ نگار اس وقت محاذ جنگ کے مجاہدین کی قربانیوں کی گہرائی کو سمجھتا ہے جب وہ  دیکھتا ہے کہ گمنام بسیجی نہ صرف اپنے ساتھیوں کو بچانے کے لیے بلکہ ایک عراقی سپاہی کو اس آتش گیرمادےسے بچانے کے لیے جو پھٹ  رہا ہے، اپنی جان قربان کر دیتا ہے۔ فلم میں کچھ درست اور بروقت فلش بیک ہیں؛ جہاں ٹینک کے اندر شہید ہونے والے مجاہد کی مصنوعی ٹانگ دکھائی جاتی ہے اور اس منظر کاحصہ اس وقت وحید کے سسر کے نعروں کے سین سے ملتا ہے جو اپنے کام کے دوران اپنی انگلیوں کے کٹ جانے کو نمود و نمائش کے ذریعے مال جمع کرنے کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے۔

ماہرین کے مطابق، فلم کا ہیرو خود اپنے فلم نامے کا ہیرو بن جاتا ہے تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کو بتا سکے کہ جنگ کا تجربہ کر کے ہی اس کے حقیقی مفہوم کو فلمایا جا سکتا ہے۔ فلم ساز آخر میں اس فلم کے حقیقی ہیرو کی نشاندہی نہیں کرتا۔ جنگی سینمائی فلموں میں کسی فلم میں کسی فوجی کے نفسیاتی تجزیے اور تحقیق کے ساتھ اس طرح کی پیشکش کم ہی دیکھنے میں آئی ہے۔ فلم اپنے ظاہر کے برعکس جنگ کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ یہ ایک قسم کی سینمائی طنز و تمسخر ہے جو حقائق کی عکاسی نہیں کرتی۔ گویا فلم ساز اس حقیقت سے دور سینما میں ایک نیا طریقہ متعارف کروانا چاہتا ہے اور سینما کو نئی جہت دیناچاہتا ہے۔

ان تصورات کے ساتھ ساتھ، فلم کی تدوین سوچی سمجھی اور رواں ہے۔[5] نیز فلم کی موسیقی فلم کی تصاویر کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے اور اس کے تصور کے ساتھ ہم آہنگ چلتی ہے۔ فلم کی موسیقی کے خوبصورت ترین لمحات میں سے ایک  مارچ ہے جو بسیجیوں کی بہادری کی ترجمانی کرتا ہے جو عاشقانہ طور پر دشمن سے لڑتے ہیں اور آخری لمحات تک ڈٹے رہتے ہیں۔ جب ان بسیجیوں کے منہ سے خون بہہ رہا ہوتا ہے، وایلن کے ساتھ موسیقی عروج پر پہنچ جاتی ہے جو بسیجیوں کی آسمان اور ملکوت کی طرف حرکت کی نشاندہی کرتی ہے۔[6]

ہدایت کار کا کہنا ہے: "...فلم اگرچہ جنگ کی شکل رکھتی ہے لیکن اس کا مرکز کچھ اور ہے۔ ہمارے مخاطب عام طور پر آرٹسٹ اور خاص طور پر ایرانی فلم ساز ہیں"۔[7]

 

 

[1] http://www.sourehcinema.com

[2] بہارلو، عباس، فیلم شناخت ایران- فہرست فیلم ہائے سینمای ایران (1993-1979)، تہران، قطرہ، 2004ء، ص 199-200

[3] سالنامہ آماری فروش فلم و سینمای ایران سال 1991ء، خزاں 2016ء، ص 11

     [4] http://www.sourehcinema.com

[5] امید، جمال، تاریخ سینمای ایران 1990-1979، تہران، روزنہ، 2004ء، ص 1054-1056

[6] ماہنامہ سروش، شمارہ 527، 15 ستمبر 1990ء، ص 35

[7]  روزنامہ کیہان، شمارہ 13974، 15 اگست 1990ء، ص 6