درخت گِردو

زینب احمدی
13 بازدید

فیچر فلم " درخت گردو" یعنی اخروٹ کا درخت، سنہ 2019 میں محمد حسین مہدویان نے بنائی جس کا موضوع عراق کی جانب سے مسلط کردہ جنگ میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے اثرات  اور نتائج کی عکاسی کرنا ہے۔

اس فلم کے ہدایتکار محمد حسین مہدویان، مصنفینِ مکالمہ ابراہیم امینی اور حسین حسنی، پروڈیوسر مصطفی احمدی، منصوبہ منتظم محمدرضا منصوری، پروڈکشن مینیجر محمدرضا منصوری، عکس بردار ہادی بہروز، ایڈیٹر محمد نجاریان، سیٹ ڈیزائنر محمدرضا شجاعی، کاسٹیوم ڈیزائنر بہزاد جعفری، میک اپ آرٹسٹ شہرام خلج، موسیقار حبیب خزاعی فر، ساؤنڈ ریکارڈر ہادی ساعدعتمحکم، کمپیوٹر ویژل ایفیکٹس امین پہلوان زادہ اور کامیار شفیع پور، خصوصی اثراتِ میدانی ایمان کریمیان اور اداکار مہران مدیری، پیام معادی، حسن نجاریان دریانی، مینو شرفی پور، مینا ساداتی وغیرہ ہیں۔

یہ فلم 38 ویں فجر فلم فیسٹیول میں بہترین ویژول ایفیکٹس، بہترین موسیقی، بہترین میک اپ، بہترین کاسٹیوم ڈیزائن، بہترین سیٹ ڈیزائن، بہترین کمپیوٹر ویژل ایفیکٹس اور بہترین معاون اداکارہ کے زمرے میں سیمرغ ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی اور اس نے بہترین اداکار اور بہترین ہدایت کار کے لیے سیمرغ ایوارڈز حاصل کیے۔ [1]

اس 90 منٹ کی فلم نے سنہ 2021 میں 37,427,854,500 ریال کا بزنس کیا۔[2]

اس فلم کی کہانی تین زمانوں سنہ 1987، 2004 اور 2016 میں بیان کی گئی ہے اور یہ ایک کرد زخم خوردہ شخص قادر مولان پور (پیام معادی) اور اس کے خاندان کی حقیقی  المناک اور انسانی داستان پر مبنی ہے جو سردشت کے کیمیائی حملے کی سانحے میں موجود تھے۔ [3]

کہا جاتا ہے کہ مہدویان نے سردشت کے کیمیائی حملے کے موضوع کے انتخاب کے ذریعے اپنے سابقہ موضوعات سے کافی فاصلہ اختیار کیا ہے اور یہ انتخاب معنی خیز ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ اپنی پچھلی چار فلموں (ایستادہ در غبار، ماجرای نیمروز، لاتاری اور رد خون) میں تقریباً مستقل اداکاروں کو منتخب کرتے تھے لیکن " درخت گردو" کے اداکاروں کا انتخاب کچھ حیرت انگیز تھا۔ مہدویان کی فلموں کے مستقل اداکار ہادی حجازی فر اس فلم میں نظر نہیں آئے۔ پیام معادی اور مہران مدیری کا غیر متوقع چناؤ اس فلم کی خبروں اور شہرت کا باعث بنا۔ پیام معادی پہلی بار اس ہدایتکار کی فلم میں کام کر رہے تھے۔ مہدویان اس بار سردشت کے کیمیائی حملے کے واقعے کی طرف گئے اور انہوں نے فلم کے بیشتر حصوں کی تصویر کشی کردستان کے شہر بانہ میں کی۔ انہوں نے اس فلم کے ہوائی مناظر کو پیش کرنے کے لیے تہران کے مغرب میں واقع شکاری بیس کا رخ کیا۔ فلم ساز نے اس فلم میں تصویر کشی کے تین انداز اپنائے ہیں، کیونکہ فلم کے واقعات تین مختلف زمانوں (1987، 2004، 2016) میں رونما ہوتے ہیں۔ ہدایتکار نے سنہ 1980 کی دہائی کے ماحول کو پیش کرنے کے لیے 16 ملی میٹر کا فورمیٹ منتخب کیا، سنہ 2000 کی دہائی کے واقعات کے لیے 35 ملی میٹر کا فورمیٹ منتخب کیا اور سنہ 2010 کی دہائی کے لیے ڈیجیٹل کیمرے بروئے کار لائے۔

اس فلم کے اداکاروں کے انتخاب پر ایک اعتراض جو کیا گیا ہے وہ مہران مدیری کا انتخاب ہے۔ وہ سینما میں مزاحیہ کرداروں کے لیے مشہور ہیں، اس لیے ایک سنجیدہ ڈاکٹر کے کردار میں ان کا انتخاب اس ناظر کے لیے ناقابل یقین ہے جس کے ذہن میں ان کی مزاحیہ تصویر  ہے، اور یہ انتخاب فلم کے سنجیدہ اور المناک دھارے کو مخدوش اور بے اثر کر دیتا ہے۔

بعض ناقدین کا خیال ہے کہ فلم میں جنگ کے مناظر کی نمائش فلم ساز کی جنگ کے مناظر اور اس کی جذباتی کیفیات کو ہالی ووڈ کے انداز میں پیش کرنے کی رغبت کا نتیجہ ہے۔ فلم کا لہجہ خیالی ہے اور یہ سردشت کے کیمیائی حملے کے حقیقی ماحول سے دور ہو گئی ہے اور ناظر کو اس دور کے لوگوں اور واقعے کا صحیح احساس منتقل نہیں کر پاتی۔ ان ناقدین کے خیال میں ہدایتکار سردشت کے کیمیائی حملے کے سانحے کی گہرائی کو پیش کرنے میں ناکام رہا ہے اور محض درد ناک اور دل دہلا دینے والے مناظر کے ذریعے ناظر کے جذبات کو مجروح کرتا ہے۔

ماہرین کے مطابق اس فلم میں ہدایتکار کی فنی و فنکارانہ عناصر پر دسترس پہلے سے بڑھی ہے اور فریم بندی اور کیمرہ رہنمائی پر اس کی مہارت فلم کی سب سے بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ نیز فلم ساز منظر تراشی سے اچھی طرح واقف ہے اور ایک انسانی سانحے کو پیش کرنے کے لیے تین مختلف ادوار میں بیان کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ تفصیلات سے بھرپور گہرے اور طویل مناظر اور ماضی کے زمانے کی تجدید میں اس کی توانائی اس کی صلاحیتوں کی گواہی دیتی ہے۔ البتہ اس کے کام کا مواد پہلے سے کمزور ہے اور مکالمہ نگاری بھی کمزور ہے۔ اس کی پچھلی تخلیقات میں نظریاتی نقطہ نظر زیادہ سنجیدہ تھا، لیکن اس فلم میں اس نے محتاط رویہ اختیار کیا ہے۔ نیز اس کیمیائی سانحے کی کہانی بیان کرنے میں وہ حقیقت تک نہیں پہنچ سکا۔ ہدایتکار کو اپنی پہلی فلم سے ہی اپنے نظریاتی نقطہ نظر کی بنیاد پر پہچانا اور متعارف کرایا گیاتھا، لیکن یہ چیز اس فلم میں نظر نہیں آتی۔ اسے اس فلم میں موقف اختیار کرنا چاہیے تھا اور اس کیمیائی حملے کی حقیقت کو آشکارا کرنا چاہیے تھا، لیکن وہ ایسا کرنے سے کتراتا ہے اور انکار کرتا ہے۔ ہدایتکار نے اس فلم میں جو مکمل طور پر جنگ سے متعلق ہے غیر جانبدارانہ نقطہ نظر اختیار کیا ہے۔

ناقدین کے مطابق مجموعی طور پر یہ فلم نہ تو ایک جنگ مخالف شاہکار قرار پاتی ہے اور نہ ہی کسی خاص آرڈر پر بنائی گئی ہےیا جیسا کہ کہا جاتا ہے حکومتی نقطہ نظر کی حامل ہے، بلکہ اس فلم میں کوئی نظریہ یا آیڈیا نہیں ہے۔ وہ اس ہولناک انسانی سانحے کا ذمہ دار ایک ہوائی جہاز کے پائلٹ کی غلطی کو ٹھہراتا ہے نہ کہ مغربی حکومتوں بالخصوص امریکہ کی صدام کو بے دریغ امداد کو۔ وہ صدام اور مغربی ممالک کی اس کے ساتھ معاونت کو اس عظیم سانحے کے محرک کے طور پر پیش نہیں کرتا اور محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے اصل مقصد کو فنا کر دیتا ہے۔ وہ اپنے مقصد سے بھٹکنے کے لیے بیان کی ڈرامائی کیفیت کو اتنا پیچیدہ کر دیتا ہے کہ مرکزی خیال کے اظہار کی کوئی گنجائش نہیں رہتی، اور کیمیائی حملے کی پوری حقیقت کے بجائے وہ صرف پرجوش اور افسوس ناک مناظر پر انحصار کرتا ہے جو ناظر کی آنکھوں میں آنسو اور سینے میں آہیں لے آئے۔

 

[1] http://www.sourehcinema.com.

[2]  ایرانی فلم اور سینما کی سالانہ شماریاتی سالگرہ، تہران، 2022، صفحہ 12

[3] https://www.manzoom.ir؛ http://www.sourehcinema.com