آثار

آخری اتوار

بہناز باقرپور
16 بازدید

یکشنبہ آخر ، حوزہ ہنری  کی ایک سو اکیاونویں کتاب ہے جو ایران عراق جنگ کے واقعات کو سمیٹے ہوئے ہے۔

معصومہ رامہر مزی کی جوانی کا عرصہ ایران عراق کی جنگ کے آغاز کا دور تھا۔ وہ  14  سال کی عمر میں ہی آبادان کے اسپتالوں میں رضاکارانہ نرسنگ کی خدمات انجام دینے لگیں۔ یہ کتاب جنگ کے آغاز سے خرم شہر کی آزادی تک کے عرصہ کا احاطہ کرتی ہے۔

اس کتاب کی اشاعت اول  242  صفحات پر مشتمل تھی۔  2004  میں  میں یہ کتاب نرم جلد کے ساتھ  2200  کی تعداد میں چھپی اور اس کی قیمت  16000  ایرانی ریال مقرر کی گئی۔ حوزہ ہنری کے شعبہ سورہ مہر  نے اس کتاب کو نشر کیا۔

یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصہ میں جامع مسجد خرم شہر  کے ایک حصہ کی تصویر ہے ۔ یہ تصویر خرم شہر کی آزادی کے آپریشنز کے دوران کی ہے ۔ اس تصویر کے سامنے ایک کبوتر کی تصویر ہے جو جس نے سر پر جنگی خود پہنا ہوا ہے  اور سینہ پر جنگی سپر ۔ کبوتر کی پشت پر  کج خط میں، سفید رنگ سے ، صفحہ کے نچلے حصہ پر موٹا موٹا کتاب کا نام لکھا ہوا ہے۔ [i]

کتاب کا اصل متن شروع ہونے سے پہلے کے صفحات عنوان، شناخت نامہ، انتساب، اشاریہ پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں فہرست نہیں ہے۔ واقعات کو بارہ فصول میں تقسیم کیا گیا ہے مگر کسی بھی فصل کو کوئی عنوان نہیں دیا گیا ۔

پہلی فصل  رامہرمزی کے بچپن کے واقعات سے شروع ہوتی ہے۔ اس میں ان کے کثیر العیال  مرحوم والد کا تذکرہ ہے۔ پھر قم کے سفر اور والد کی قبر پر حاضری ، آبادان میں انقلاب کی کامیابی کے بعد مختلف  گروہوں اور جتھوں  کی سرگرمیوں کا ذکرہے۔ اس کے وہ عراق کی جانب سے ایران پر حملہ کے آغاز کی روایت بیان کرتی ہے۔

دوسری فصل میں رامہرمزی آبادان سے لوگوں کی ہجرت بیان کرتی ہیں اور پھر مختلف اسپتالوں میں رضاکاروں کی سرگرمیوں کے بارے میں لب کشا ہوتی ہیں۔ خرمشہر میں جنگجووں میں غذا کی تقسیم اور اپنے بھائی اسماعیل کی شہادت کے بارے میں بیان   کے بعد آبادان سے شیراز کی جانب  سفر کے بارےمیں بیان کرتی ہیں۔

چوتھی فصل میں وہ   آبادان کے طالقانی اسپتال  میں  پہنچنے  اور زخمیوں کی تیمارداری کے بارے میں بیان کرتی ہیں۔

پانچویں فصل میں وہ تہران کے سفر اور  حسینیہ جماران میں امام خمینیؒ سے ملاقات کے واقعات بیان کرتی ہیں۔

آٹھویں فصل آپریشن ثامن الائمہ کے زخمیوں کی تیمار داری  اور ’’شکست حصر آبادان‘‘  کے واقعات پر مشتمل ہے۔

دسیوں فصل  آبادان کے پسماندہ علاقوں میں  ویکسینیشن  اوربہبود صحت کے لئے انجام دیئے جانے والے کاموں پر مشتمل ہے۔ بارہویں فصل ماہ شہر اور آبادان میں آپریشن بیت المقدس کے زخمیوں کے دیکھ بھال اور خرم شہر کی آزادی کے واقعات کا احاطہ کرتی ہے

کتاب کے آخر میں گیارہ صفحات تصاویر اور اسناد کے لئے مختص ہیں۔

کتاب یکشنبہ آخر سورہ مہر کی جانب  13  بار چھاپی جا چکی ہے۔ اس کی دوسری اشاعت  2006، تیسری اور چوتھی اشاعت 2007، پانچویں اور چھٹی اشاعت 2009، نویں اشاعت 2008ء[ii]،  دسیوں اور گیارہویں اشاعت  2011، بارہویں اشاعت 2012 اور تیرہویں اشاعت 2017  میں کی گئی۔ تیسری اشاعت میں کتاب کا عنوان خط مورب کی جگہ افقی حالت میں لکھا گیا ہے اور  کبوتر کی تصویر  چھاپی نہیں گئی۔ گیارہویں اشاعت سے کتاب کی جلد پر رامہر مزی کے بچپن ی تصویر چھاپی گئی ہے۔  کسی بھی اشاعت میں  کتاب کے اندرونی متن میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

کتاب یکشنبہ آخر  کو  سال  2005  میں دفاع مقدس کی کتابوں میں  میں دوسری پوزیشن  حاصل ہوئی۔ [iii]

اس کتاب کا  عربی ترجمہ ’’الاحد الاخیر‘‘[iv] اور انگریزی ترجمہ “Eternal Fragrance”  کے نام سے نتشارات صریر نے 2014  میں شایع کیا۔ اس  ترجمہ کی رونمائی اس سال فرانکفرٹ میں ہوئی۔[v]

 اس کتاب نے جعفری، موسوی سیرجانی اور فرزاد جیسے محقیقن کی توجہ بھی حاصل کی اور انہیں نے ’’سیر کاربرد ہای زنانہ زبان در دو کتاب یکشنہ آخر و دختر شینا با نگاہی نہ رویکرد زبانی سارا میلز میں اس کا تذکرہ کیا۔ [vi] موحدیان عطار، خوارسگانی اور معمار نے ۱۴۰۱ ہجری شمسی میں مقالہ ’’ تحلیل ہویت زن ایرانی بر مبنای ارزش ہائی اساسی در کتاب ہائی خاطرات مقدس‘‘  میں اس کتاب پر بھی تحقیق پیش کی۔[vii]

صادقی، مر تضوی اور رحیمی نے  1399  ہجری شمسی میں اپنے مقالہ ’’ تحلیل مسائل اجتماعی پشت جبھہ در چہار اثر داستانی  دفاع مقدس، بررسی تفاوت ہای نگرش نویسندگان مرد و زن بہ مسائل پشت جبھہ‘‘  میں اس کتاب کا ذکر کیا۔[viii]

بعض نشر و اشاعت کے اداروں نے بھی اس کتاب کا تعارف پیش کیا ہے جیسے

روزنامہ کیہان میں زہرا عباسی اور را مہرمزی کی گفتگو۔[ix]

روزنامہ  رسالت میں ’’جنگ اپنے خاص معنی میں زندگی ہے‘‘ کے عنوان سے رامہر مزی کا انٹرویو۔[x]

روزنامہ رسالت ’’ جنگ میں خواتین کے کردار پر مکمل نظر نہیں تھی‘‘ کے عنوان سے رامہر مزی کا انٹرویو۔[xi]

پدرام عباسی بعنوان ’’ الا بہ روزگاران، پندرہ روزہ  مہر۔[xii]

حشمت اللہ سلیمی، فصلنامہ رشد آموزش تاریخ۔[xiii]

مرجان قند نے چہرۂ زنان جنگی را از یاد بردہ ایم میں اس کتاب کا تذکرہ کیا ہے۔[xiv]

محمود جوان بخت نے  بھی روزنامہ ایران میں ’’یکشبہ آخر، ایسی کتاب ہے جس کو پڑھا جانا چاہئے‘‘ کے عنوان سے اس کتاب کا تذکرہ کیا ہے۔[xv]

اس  کتاب کے  چھپے ہوئے نسخوں کے علاوہ اس کا  صوتی [xvi]   اور الیکٹرانک نسخہ بھی ناشر کی جانب سے پیش کیا جاچکا ہے۔[xvii]

 

[i]  معصومہ رامہر مرزی کے مطابق کبوتر اور فوج کے اتباط کے بارےمیں انہیں کوئی اطلاع نہیں تھی۔

 

[ii] کتاب شناخت نامہ پر نویں اشاعت کی تاریخ بالضرورہ غلط ہے۔

[iii] سیمای آثار ۱۷ دورہ کتاب سال دفاع مقدس، تہران، بنیادحفظ آثار و نشر ارزشہائیدفاع مقدس، ۱۳۹۷، صفحہ۲۳

[iv] رامہر مرزی معصومہ، الاحد الاخیر،تہران، بنیاد حفظ آثار و نشر ارزش ہائی دفاع مقدس، نشر صریر، ۱۳۹۳ ھ ش

[v] رامہر مزی سے ٹیلیفونک گفتگو، روزنامہ وطن امروز، ۱۳۷۵ اور۱۵ب مرداد ۱۳۹۳ ص ۹

[vi] فصلنامہ متن پژوہی ادبی ۲۵ [۸۹] صفحہ ۵۹ تا ۸۵

[vii] پژوہش نامہ اسلامی و زنان خانوادہ، شمارہ ۲۹ ص ۹ تا ۲۹

[viii] مجلہ فنون ادبی، پیاپی۳۳۔ ص ۳۹ تا ۵۶

[ix] کیہان شمارہ ۱۸۸۹۳

[x] روزنامہ رسالت شمارہ ۷۰۹۶، تاریخ ۱۰ مہر ۱۳۸۹ ص ۱۹

[xi] روزنامہ رسالت، ۷۳۰۷، ۱۶ تیر ۱۳۹۰، ص ۱۹

[xii] پندرہ روزہ مہر، پیاپی ۱۲۸، ص ۱۰ سال ۱۳۹۰ ہجری شمسی

[xiii] فصلنامہ رشد آموزش تاریخ ، ۱۸ [۲] ص ۷۹

[xiv] روزنامہ ایران شمارہ ۶۶۱۱، ۱۵ مہر ۱۳۹۶ ہجری شمسی، ص ۱۴

[xv] روزنامہ ایران شمارہ ۷۴۵۰، اول مہر ماہ ۱۳۹۹ ہجری شمسی، صفحہ ۱۴

[xvi] http://Ketabrah.ir/go/b66424

 

[xvii] https://www.faraketab.ir/book/575