ابراہیمی سر یزدی، محمد

معصومہ عابدینی
53 بازدید

سید محمد ابراہیمی سر یزدی (1962-1987)،  دفاع مقدس کے دوران الغدیر کی 18 ویں  بریگیڈ کے  ڈپٹی کمانڈرتھے۔

سید  محمد ابراہیم سریزدی  1962 ء میں رفسجان کے شہرِ انار میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی اور ثانوی تعلیم اپنے آبائی شہر میں ہی حاصل کی اس کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ یزد ہجرت کرگئے۔ اعلیٰ ثانوی تعلیم کے لیے یزد کے ایک ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ میں داخلہ لیا  اور معماری کے شعبہ میں اعلیٰ ثانوی ڈگری حاصل کی۔

انقلاب اسلامی سے قبل جب انقلاب کے سلسلہ میں مظاہروں  اور احتجاجات کا سلسلہ اپنے عروج پر تھا  تو سید محمد بھی دوسرے افرادکے ہمراہ اس کام میں شریک ہوتے تھے۔

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد 22  نومبر 1980  کو  آپ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے رکن بنے اور رضا کارانہ  طور پر عازم کردستان ہوئے۔ اس کے بعد آپ نے فوجی ٹریننگ شہید بہشتی تہران کی بیرک میں مکمل کی اور وہیں نقشہ بنانے اور نقشہ پڑھنے کی تربیت حاصل کی۔ اس کورس کو مکمل کرنے کے بعد آپ جنوب کے مورچوں کی جانب عازم سفر ہوگئے۔ جنوب میں سوسنگرد کے علاقہ میں  آپ کو  شناسائی کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ایک دن معمول کے گشت کے دوران ان کا پیر شدید زخمی ہو گیا اور آپ کو علاج کے لئے واپس یزد بھیج دیا گیا۔ ابھی آپ مکمل صحت یاب نہ ہوئے تھے کہ دوبارہ جنگ کے میدان میں  واپس آگئے۔

سید محمد ابراہیمی نے خیبر، بدر،قدس5،  والفجر8،  کربلا 4،   اور کربلا 5  کے آپریشنز میں شرکت کی۔

ابراہیمی، 1982 ء میں یزد کے علاقہ میں سپاہ کے آپریشنل کمانڈر تعینات ہوئے۔ سات ماہ بعد یعنی  13   نومبر 1982ء کو کمانڈنگ سینٹر صاحب الزمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف  کے  ایگزیکٹیو ڈائریکٹر  مقرر ہوئے۔ 23  ستمبر 1983  کو ابراہیمی الغدیر کی اٹھارہویں بریگیڈ کے آپریشنل کمانڈر بنے اور  28  ، اگست 1986  کو آپ الغدیر کی اٹھارہویں بریگیڈ میں نائب بریگیڈیئر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔

چونکہ ابراہیمی کو نقشہ خوانی کی مہارت حاصل تھی سو وہ زیادہ مواقع پر  کمرے میں رہ کر نقشہ پر کام کرتے تھے۔ ان کے بنائے ہوئے نقشہ ہمیشہ سپاہ کے عہدہ داروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتے تھے۔ آپریشن خیبر میں جب علاقہ کا کچھ حصہ عراقی فوجوں کے اختیار میں تھا  تو ابراہیمی نے جنگجوؤں سے  کہا کہ اس علاقہ کے  تفصیل کاغذ پر کھینچیں۔ اس بنیاد پر ابراہیمی نے جو نقشہ تیار کیا  اس کے سبب وہ خود پہلے شخص تھے جنہوں نے آپریشن میں  دشمن کی پناہ گاہ (parapet) کو  فتح کیا۔

 15 شعبان ( 1986ء) کو  ابراہیمی رشتہ ازدواج  سے منسلک ہوئے۔ ان کی زوجہ کہتی ہیں: ’’انہوں نے شادی سے قبل مجھ سے بات کی اور کہا کہ میں تو زیادرہ تر جنگ کے میدان میں ہوتا ہوں اور جنگی میدان میں ہونے کا مطلب ہے شہادت، گرفتاری و قید، لاپتہ  ہونا یا معذور ہوجانا۔ آیا آپ راضی ہیں کہ اس حال میں بھی مجھ سے شادی کریں؟  میں نے تو پہلے ہی سب کو جان کر ان کا انتخاب کیا تھا سو ان کے اس قول پر بھی اپنی رضامندی کا اظہار کر دیا۔ وہ ہماری شادی شدہ زندگی کی نو ماہ میں سے کوئی چار ماہ ہی یزد میں رہے ہونگے۔‘‘

کربلا 5 کے آپریشن میں ابراہیمی ، 28 جنوری 1987 ء   کو اپنے وائرلیس آپریٹر کے ہمراہ فوجی مورچے سے  نکل کھڑے ہوئے اور اپنے وائرلیس آپریٹر کے ساتھ شلمچہ  کی فرنٹ لائن  کی جانب بڑھے۔ اگلی صفوں  میں پہنچے تو توپ کا ایک گولہ آپ کے پہلو پر آن لگا جس کے سبب آپ شہید ہوگئے۔ آپ کا بیٹا سید محمد علی آپ  کی شہادت کے بعد پیدا ہوا۔ شہید سید محمد ابراہیمی، اپنی شہادت سے قبل دوبار شدید زخمی ہوئے تھے جس کی وجہ سے ان کو جانبازی کا درجہ بھی عنایت کیا گیا تھا۔[1]

 شہید سید محمد ابراہیمی کا جسد خاکی ان کی شہادت کے بعد مدتوں لا پتہ رہا ۔ جس وقت عراقی ہلاک شدگان اور ایرانی شہدا کے جنازوں کا تبادلہ شروع ہوا تو  گیار ہ جولائی 1996 ء کو سید محمد ابراہیمی شہید کا جنازہ بھی ایران پہنچا۔ تشیع جنازہ کے بعد آپ کو گلزار شہدائے یزد میں دفن کیا گیا۔

 

[1] دفاع مقدس کے انسائیکلو پیڈیا کے ایک مقالہ کی تلخیص، دائرۃ المعارف دفاع مقدس جلد ۱، صفحہ ۲۷۳،۲۷۴، ناشر مرکز دائرۃ المعارف پژوہشگاہ (ریسرچ سینٹر) علوم و معارف دفاع مقدس۔ تہران ۲۰۱۱