اشخاص
صفر احمدی
معصومه عابدینی
13 بازدید
صفر احمدی کی پیدائش 1950 میں مسجد سلیمان کے ایک گاؤں جہانگیری میں ہوئی۔ ان کی والدہ ایک گھریلو خاتون تھیں اور ان کے والد کھیتی باڑی اور مویشی پال کر روزی کماتے تھے۔ ابتدائی ایام میں، وہ روزانہ گھر سے اسکول تین سے چار کلومیٹر پیدل سفر کرکے پہنچتے تھے۔ لیکن گاؤں میں مڈل اسکول نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے مسجد سلیمان میں اپنے رشتہ داروں کے پاس چلے گئے۔ کچھ عرصے کے بعد، اپنے والد کے اہواز میں اسپتال میں داخل ہونے کی وجہ سے، انہیں واپس آنا پڑا اور انہوں نے اپنے والد اور خاندان کی کفالت کے لیے اسکول کے بعد تھوڑی سی تنخواہ پر کام کرنا شروع کردیا۔
جب والد کی بیماری لاعلاج ہوگئی اور ڈاکٹروں نے بھی جواب دے دیا اور ان کے بھائی کو شوش شہر کے نزدیک ملازمت مل گئی تو وہ بھی وہاں چلے گئے۔ ابھی ان کے قیام کو کچھ دن نہیں گزرے تھے کہ1975 میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔
اسلامی انقلاب کے عروج کے ساتھ ہی احمدی اور ان کے کئی دوستوں نے شہر شوش میں امام خمینی کے شاگردوں میں سے ایک سید محمد کاظم دانش (اسلامی کونسل میں عوام کے نمائندے اور’’ ہفتم تیر‘‘ کے شہداء میں سے ایک) کی قیادت میں پہلوی حکومت کے خلاف جدوجہد کی تحریک میں شامل ہوگئے۔ وہ امام خمینی کے کتابچے بانٹ کر دوسروں کو پہلوی حکومت کے جرائم سے آگاہ کرتے رہےا۔ احمد ی اور ان کے ساتھیوں کی کوششوں سے پہلا احتجاجی مطاہرہ شوش میں منعقد ہوا اور اس سلسلے میں ان کی اور ان کے دیگر دوستوں کی ساواک نے شناخت کرلی اور مارچ کے ایک دن بعد انہیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ لیکن وہ ان سے اقبال جرم نہ کروا سکے اور عوامی دباؤ کے سبب ان کو اور ان کے دوستوں کو رہا کرنا پڑا۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، احمدی پہلے تو اسلامی انقلاب کمیٹی میں شامل ہوئے اور پھر سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے رکن بن گئے۔ کردستان کی بغاوت کے آغاز کے ساتھ ہی وہ فوج کے ساتھ کردستان چلے گئے ۔22 ستمبر 1980 کو مسلط کردہ جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی وہ اور دوسرے جنگجو ساتھی بعثی دشمن کی جانب روانہ ہوئے جو کرخہ کی طرف شوش سے تقریباً چار کلومیٹر کے فاصلے تک پیش قدمی کرچکا تھا، اور وہ دشمن کی بڑی تعداد کے خلاف اس وقت تک کھڑے رہے جب تک امدادی فوج نہیں پہنچ گئی۔ . دشمن کے حملوں کے دوران ان کا بازو اور ہاتھ زخمی ہوئے اور انہیں علاج کے لیے شہدائے شوش ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
اسکے بعد انہیں فوجی ٹریننگ کے لئے بھیج دیا گیا۔ انہوں نے شاہرود میں چہل دختر بیرک میں تقریباً تین ماہ خدمات انجام دیں۔ اپنی سروس کے دوران انہوں نے بیرکوں میں اسلامی انجمن تشکیل دی۔ کچھ عرصے کے بعد ان کی آنکھوں میں خرابی کی وجہ سے انہیں نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ اس کے بعدوہ شوش میں واپس آئے اور شوش کی بسیج کے رکن بن گئے۔
انہوں نے فتح المبین آپریشن میں حصہ لیا۔ آپریشن’’الیٰ بیت المقدس‘‘ کے قریب پہنچتے ہی احمدی کو دانیال بٹالین کی کمان ملی اور انہیں کوشک کے علاقے میں بھیجا گیا ۔ چھرے لگنے سے ان کے بازو، ٹانگوں اور پیٹ میں زخم آئے۔ لیکن جزوی صحت یابی کے بعد انکے اپنے اصرار پر انہیں محاذ پر واپس بھیج دیا گیا اور امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی پندرہویں بریگیڈ میں جا کر شہید رجائی بٹالین کے نائب کا عہدہ سنبھال لیا۔
وہ والفجر کے ابتدائی آپریشن میں وہ عملیات انجام دینے والی ٹیم کا حصہ تھے، اگرچہ ان کا پہلو شدید زخمی ہوا تھا، لیکن انہوں نے دوسروں کے ساتھ اچھا رویہ رکھا اور انہیں آگے بڑھنے کی ترغیب دی۔ لیکن ان کی چوٹیں اتنی شدید تھیں کہ بالاخر انہیں تہران بھیجنا پڑا۔
اس کے بعد احمدی آٹھویں ریجن کور کے رکن بن گئے اور امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام بریگیڈ میں خدمات انجام دیں۔ اگست 1983 میں شادی کے بعد، وہ آپریشن خیبر کی تیاری کے لئے فوراً محاذ پر واپس پہنچ گئے۔ آپریشن خیبر سے چند دن پہلے ایک رپورٹر نے ان سے پوچھا کہ وہ اپنے خاندان کے لیے کیا پیغام دینا چاہیں گے۔ انہوں نے جواب دیا: "میرے پاس کوئی پیغام نہیں ہے۔ کیونکہ میرا تعلق میرے خاندان سے نہیں ہے اور میں شہداء کے خاندان سے وعدہ کرتا ہوں کہ یا تو ہم کربلا کا راستہ کھولیں گے یا پھر شہید ہو جائیں گے۔
یکم جنوری 1984 کو حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام بریگیڈ کے سپہ سالار مقرر ہوئے۔ خیبر آپریشن کے آغاز کے ساتھ ہی اسی بٹالین کی کمانڈنگ پوزیشن میں وہ بعثی افواج کے خلاف ڈٹ گئے اور 26 فروری 1984 کو ایسے وقت جب وہ اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ دجلہ کے کنارے تعینات تھے مارٹر گولہ کی زد میں آکر شہید ہوگئے۔
شہید احمدی نے اپنی وصیت میں لکھا: ’’بھائیو اور بہنو، خاموش مت بیٹھو۔ یہی وقت ہے بغاوت کا۔ خاموش مت رہو؛ لاتعلق نہ ہو۔ اس وقت بے حسی گناہ ہے۔ پوری تاریخ میں دو خطوں سے زیادہ کچھ نہیں ہے: صحیح اور غلط خط؛ ایک خدا کی لکیر اور دوسری شیطان کی لکیر۔ جو خدا کی صف میں نہیں ہے وہ بلاشبہ شیطان کی صف میں ہے۔ ہو سکتا ہے اسے کبھی معلوم بھی نہ ہوسکے کہ وہ کس خط پر ہے۔ یقین کریں کہ اس انقلاب کی طاقت ،الٰہی طاقت ہے۔ جو بھی انقلاب کی مخالفت کرے گا وہ ہلاک ہو جائے گا۔ انقلاب کا کارواں اتنی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے کہ جو انقلاب کی پیش رفت کو روکنا چاہے گا، انقلاب کا پہیہ اسے تباہ کر دے گا۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں شہداء کے راستے کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے گا۔[1]
[1] دفاع مقدس کے انسائیکلو پیڈیا کے ایک مقالہ کی تلخیص، دائرۃ المعارف دفاع مقدس جلد ۱ صفحہ ۳۶۲ تا ۳۶۴، مرکز دائرۃ المعارف پژوہشگاہ ( ریسرچ سینٹر) علوم و معارف دفاع مقدس تہران ۲۰۱۱