دستہ یک
بہناز باقرپور
11 بازدید
کتاب "دستہ یک" عراق کی جانب سے ایران پر مسلط کردہ جنگ میں عملیات والفجر 8 کی ایک رات کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔
یہ کتاب لشکر 27 محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی حمزہ بٹالین کے فرسٹ اسکواڈ کے دستہ اول کے مجاہدین کی یادداشتیں ہیں۔ 29 افراد پر مشتمل یہ دستہ، جو "دانش آموزی دستہ" کے نام سے معروف تھا، ان کی عمریں زیادہ تر 16 سے 19 سال کے درمیان تھیں اور ان میں سےآدھے طالب علم تھے جو محاذ پر اپنے سبق اور اسکول کے کام نمٹاتے تھے۔ 13 فروری 1986 کی رات، عملیات والفجر 8 کے دوران، یہی دستہ دشمن کے محاذ پر حملے کی قیادت کر رہا تھا۔ اس حملے میں دستے کے چودہ افراد شہید ہوئے جبکہ بعد کی کارروائیوں میں چار دیگر افراد بھی جام شہادت نوش کر گئے۔ موجودہ کتاب اس دستے کے بچ جانے والے گیارہ افراد کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔[1]
اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 832 صفحات پر مشتمل، وزیری سائز، ہارڈ کور میں، ایک لاکھ ریال کی قیمت پر، 1100 کاپیوں کے ہمراہ، اصغر کاظمی کی تحقیق و ترتیب کے ساتھ، سازمان تبلیغات اسلامی کے سورہ مہر پبلیکیشنز کی جانب سے 2007 میں شائع ہوا۔ کتاب کے سرورق پر فرسٹ اسکواڈ کے مجاہدین کی تصویر[2] ہے جو سرورق کے اوپری دو تہائی حصے پر محیط ہے۔ سرورق کا نچلا ایک تہائی حصہ سرخ رنگ میں ہے۔ کتاب کا عنوان بڑے اور سفید حروف میں لکھا گیا ہے۔ عنوان کے صفحے، شناختی صفحہ اور انتساب کے بعد کتاب کی فہرست میں درج ذیل شامل ہیں: پیش گفتار، تمہید، پہلا حصہ: دستہ یک (پہلے بارہ ابواب کے عنوانات بالترتیب: باغ، بی نشان، برادر خواندہ، کلاہ آہنی، ققنوس، گلستانہ، ساعت مچی، سایہ ہا، خون، دز، سوت، امانتی)، دوسرا حصہ: گروہان یک (باب نمبر 13: روز نوشت ہا، باب چہاردہم: دفتر یادگاری)، تیسرا حصہ: گردان حمزہ (باب پانزدہم: شب خرچنگ، باب شانزدہم: جادہ سوم) اور ضمائم (دستہ یک کی ستونی ترتیب، دستہ یک کے شہداء کے ناموں کی فہرست، تحریری دستاویزات کی فہرست، تصاویر کی فہرست، تصاویر)۔ فہرست مطالب کے بعد، پیش گفتار نومبر 2006 میں اور تمہید اصغر کاظمی کے قلم سے لکھی گئی ہے۔ کتاب کا پہلا حصہ، جو کتاب کا زیادہ بڑا حصہ ہے، دستہ یک کے بچ جانے والے مجاہدین کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ یہ یادداشتیں ان کے مغاذ جنگ پر بھیجے جانے کے ابتدائی ایام سے شروع ہوتی ہیں اور ان کا نقطہ عروج 12 فروری 1984 (آپریشن کی رات) کے آخری اوقات ہیں۔ ان مجاہدین میں سے ہر ایک "دستہ یک" کے ایک یا دو اپنے ساتھیوں کا ذکر کرتا ہے جو شہید ہو گئے تھے۔ ہر باب کے آغاز میں[3] راوی کی تصویر اور آخر میں اس باب سے متعلق دستاویزات ہیں جن میں تصاویر، ہاتھ سے لکھے ہوئے نوٹ، دستاویزات اور اسی باب کے شہیدوں کے خاندانوں سے انٹرویوز شامل ہیں۔ پہلے حصے کے ابواب کے عنوانات اور راوی مندرجہ ذیل ہیں:
باب ۱: باغ، محسن گودرزی کی یادداشتیں، آر پی جی زن؛ باب ۲: بینشان، اصغر علیمحمد پوراہر، پہلا کمک آر پی جی زن؛ باب ۳: برادرخواندہ، اصغر لکآبادی، تیسرا کمک آر پی جی زن؛باب ۴: کلاہ آہنی[4]، سیروس مہدیپور، امدادگر؛باب ۵: ققنوس، حمیدرضا رمضانی، حمل مجروح؛باب ۶: گلستانہ، حسین گلستانی، آر پی جی زن؛باب ۷: ساعت مچی، محمدجواد نصیریپور، پہلا کمک آر پی جی زن؛باب ۸: سایہہا، علی بیبیجانی، پہلا کمک تیربار؛باب ۹: خون، حسن اعلایینیا، تخریبچی؛باب ۱۰: دز، بہنام باقری، امدادگر؛باب ۱۱: سوت، مہدی ملکی، حمل مجروح؛باب ۱۲: امانتی، حسین فیاض، معاون دستہ۔
اس حصے میں سب سے طویل باب پانچواں باب ہے اور سب سے مختصر باب ۱۰ اور ۱۱ ہیں۔
حصہ دوم، جس کا عنوان ہے 'گروہان یک'، اس میں گروہان یک کے عمومی ماحول سے متعلق یادداشتیں شامل ہیں۔ یہ یادداشتیں دو شہید بھائیوں عربعلی و عبداللہ قابل (تیرہواں باب) اور علی شہبازی (چودہواں باب) کی روزانہ کی ڈایریوں سے لی گئی ہیں۔[5]
تیسرا حصہ ، جس کا عنوان ہے 'گردان حمزہ'، میں ہادی قیومی، گروہان دوم کے کمانڈر (پندرہواں باب ) اور محمود امینی، گردان حمزہ کے کمانڈر (سولہواں باب) کی یادداشتیں شامل ہیں، جو بتاتی ہیں کہ بٹالین کی کیسے قیادت کی گئی اورآپریشن کی رات میں ان کا کارکردگی کیسی تھی۔
کتاب کے آخر میں پیوست مندرجہ ذیل چیزوں پر مشتمل ہے: دستہ یک کی کالمی ترتیب، دستہ یک کے شہداء کے ناموں کی فہرست، کتاب کی تحریری دستاویزات کی فہرست، تصاویر کی فہرست (متن میں استعمال ہونے والی دستاویزات اور تصاویر کو ترتیبی نمبر دیے گئے ہیں۔ فہرستوں میں دستاویزات اور تصاویر کے صفحہ نمبر کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے)، تصاویر (کتاب کے متن میں استعمال ہونے والی 123 سیاہ و سفید تصاویر کے علاوہ، یادداشتوں کو واضح کرنے کے لیے کتاب کے آخر میں 91 اضافی رنگین تصاویر استعمال کی گئی ہیں)۔
"دستہ یک" کے اٹھارہ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ دوسرا تا پانچواں ایڈیشن 2008 میں، چھٹا تا دسواں ایڈیشن 2009 میں، گیارہواں تا چودہواں ایڈیشن 2010 میں، پندرہواں ایڈیشن 2011 میں، سولہواں ایڈیشن 2012 میں، سترہواں ایڈیشن 2015 میں اور اٹھارہواں ایڈیشن 2022 میں شائع ہوئے۔ ان ایڈیشنز میں ناشر، سرورق اور کتاب کے مشمولات میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
دستہ یک نے 2008 میں دفاع مقدس کے بارہویں سالانہ کتاب ایوارڈ میں یادداشت کے زمرے میں پہلا مقام حاصل کیا۔ [6]رہبر انقلاب اسلامی نے 22 ستمبر 2007 کو اس کتاب کے بارے میں فرمایا: "میں نے حال ہی میں ایک کتاب پڑھی ہے جو ہمارے آپریشنز میں سے آپریشن کےنزدیک چند دنوں کی تفصیل ہے؛ ایک دستے کے بچ جانے والے افراد کی زبانی، نہ کہ کسی لشکر یا بریگیڈ یا بٹالین کی ۔ اس دستے کے کچھ افراد بچ گئے اور انہوں نے رپورٹ دی۔ یہ بہت ہی با ذوق مصنف اور محقق ہے، اور حقیقتاً اور انصافاً اس قسم کے کام بہت قیمتی ہیں، نے جا کر ان افراد کی زبانی باتوں کو جزئیات کے ساتھ جمع کیا ہے جو ایک چھ سات سو صفحات کی کتاب بن گئی ہے۔ ہم صرف یہ سنتے ہیں کہ فاو آپریشن ہوا۔ بہت سے اہم کام جو اس آپریشن میں ہوئے، ہم انہیں بس سطحی سا جانتے ہیں: انہوں نے اروند کو عبور کیا، فاو پر قبضہ کیا، نمک کی فیکٹری فتح کی، فلاں کام کیا۔ ہم کلیات جانتے ہیں؛ لیکن یہ ہم نہیں جانتے کہ اس کے لیے قدم بہ قدم کیا صورتحال پیش آئی ۔ ایک عظیم الشان مینی ایٹر کا صفحہ انتہائی مہارت اور خوبصورتی کے ساتھ ہمارے سامنے رکھا گیا ہے، اور ہم دور کھڑے ہو کر دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں واہ۔ ہم قریب نہیں جاتے تاکہ دیکھیں کہ مینی ایٹر کے ہراہم مقام پر، کتنا فنکارانہ ہنر استعمال ہوا ہے۔ یہ کام کچھ خاص لوگ کرتے ہیں۔ اور انہوں نے کیا ہے۔ اب یہ نمونہ جو میں نے دیکھا، ان کاموں میں سے ایک ہے۔ امید ہے کہ یہ کام جاری رہیں گے۔"[7]
رضا گلچین (2007/2008) نے اصغر کاظمی کے ساتھ "نگاہ انسانی بہ جنگ" کے عنوان سے ایک گفتگو میں کتاب "دستہ یک" کو روزنامہ جام جم میں متعارف کرایا ہے۔ [8] کاوہ بیات (2007/2008) نے "جنگی دیگردستہ یک" کے عنوان سے ایک مضمون میں اس کتاب کا تعارف اور تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔ [9] ماہنامہ سورہ (2007/2008) نے اصغر کاظمی کے ساتھ ایک گفتگو میں کتاب "دستہ یک" کی تیاری سے لے کر اشاعت تک کے مراحل کی تفصیلی روداد شائع کی ہے۔ [10] چھپے ہوئے نسخوں کے علاوہ، کتاب "دستہ یک" کا الیکٹرانک ورژن بھی دستیاب ہے۔ [11]
[حوالہ جات کے لیے: ماہنامہ سورہ، شمارہ 36، دسمبر 2007 تا مارچ 2008، صفحہ 67۔ کاظمی، اصغر، دستہ یک، تہران: سورہ مہر، 2007، ضمائم، تصاویر۔ کاظمی، اصغر، دستہ یک، تہران: سورہ مہر، 2006، صفحہ 177۔ کاظمی، اصغر، دستہ یک، تہران: سورہ مہر، 2007، صفحہ 618 اور 626۔ سیمای آثار 17 دورہ کتاب سال دفاع مقدس، تہران: بنیاد حفظ آثار و نشر ارزشہای دفاع مقدس، سازمان ادبیات و دفاع مقدس، 2018، صفحہ 32۔ شیرازی، علی، نسیم سبز خاطرہہا، تہران: سورہ مہر، 2010، صفحہ 238 اور 239۔ روزنامہ جام جم، شمارہ 2025، 16 جون 2007، صفحہ 11۔ جہان کتاب، شمارہ 222-223، نومبر-دسمبر 2007، صفحہ 22۔ ماہنامہ سورہ، شمارہ 36، دسمبر 2007 تا مارچ 2008، صفحات 60-69۔ نیز کتاب کی الیکٹرانک نسخہ بھی دستیاب ہے۔
[1] ماهنامه سوره، ش36، جنوری، فروری، مارچ 2008، ص67
[2] عکس شماره 182 (کاظمی، اصغر، دسته یک، تهران: سوره مهر، 2008، پیوستها، عکسها).
[3] یہ توضیحات کتاب کے تمام ابواب کے لیے ہیں
[4] سیروس مهدیپور15 دسمبر 1986 کو شہید ہوتے ہیں. یہ باب آڈیو کیسٹس کی مدد سے تیار کیا گیا ہےجسے سیروس مہدی کے والد نے تیار کیا تھا؛ یعنی جب بھی سیروس مہدی محاذ جنگ سے واپس جاتے تھے تو ان کی جنگ کے متعلق گفتگو کو ان کے والد ریکارڈ کرتےتھے. (کاظمی، اصغر، دسته یک: تهران: سوره مهر، 2006، ص177
[5] یہ دونوں بھائی 12 دسمبر 1986 کو شہید ہوئے. (کاظمی، اصغر، دسته یک، تهران: سوره مهر، 2008، ص618 و 626
[6] سیمای آثار 17 دوره کتاب سال دفاع مقدس، تهران: بنیاد حفظ آثار و نشر ارزشهای دفاع مقدس، سازمان ادبیات و دفاع مقدس، 2018، ص32
[7] شیرازی، علی، نسیم سبز خاطرهها، تهران: سوره مهر، 2011، ص238 و 239.
[8] روزنامه جام جم، ش2025،17 جون 2007، ص11.
[9] جهان کتاب، ش222 و 223، نومبر دسمبر 2007، ص22
[10] ماهنامه سوره، ش36، جنوری فروری مارچ 2008، ص69-60
[11] https://www.faraketab.ir/book/6228-%D8%AF%D8%B3%D8%AA%D9%87-%DB%8C%DA%A9
