ابراہیمی، محمد تقی

معصومہ عابدینی
48 بازدید

محمد تقی ابراہیمی (1958-1986)،  دفاع مقدس کے دوران بیت المقدس بریگیڈ سنندج کے ڈپٹی انچارج تھے۔

محمد تقی ابراہیمی، 1957 میں اصفہان کے علاقہ قہدریجان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم قہدریجان میں ہی حاصل کی۔ قہدریجان میں ہائی اسکول نہ ہونے کی وجہ سے  محمد تقی اور چنددیگر نوجوان فلاورجان چلے گئے تاکہ وہاں کے ہائی اسکول میں داخلہ لے سکیں۔ وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ وہاں کی معین تعداد پوری ہوگئی ہے لہذا ان لوگوں کو وہاں داخلا نہ مل سکا۔ محکمہ تعلیم تربیت سے رابطہ کے بعد ان کی مدد سے ان لوگوں نے رضا کارانہ طور پر کام شروع کیا اور خود ہی ایک ہائی اسکول بنانے کی ٹھانی۔یہاں انہوں نے ایک کمرہ بنایا اور تعلیم شروع کی ۔ اگلے سال ایک مزید کمرہ بنایا اور یوں بالترتیب انٹرمیڈیٹ کے مکمل ہونے تک قہدریجان کا  ہائی اسکول ’’دبیرستان جلال‘‘ مکمل ہوچکا تھا۔  ہائی اسکول کا آخری سال انقلاب اسلامی کے مظاہروں اور احتجاجات کے عروج کا سال تھا۔ محمد تقی ابراہیمی اور ان کے دوستوں نے قہدریجان میں پہلی بار احتجاج اور مظاہروں کا انتظام کیا۔ محکمہ امن و امان کی  پولیس سے جھڑپ کے دوران یہ لوگ گرفتار بھی ہوئے۔ پولیس نے ان کو ساواک کی تحویل میں دے دیا جو ان کو فولاد شہر لے گئی۔ ان کی گرفتاری کے خلاف علاقہ کے مکینوں نے خوب احتجاج کیا اور مظاہروں کے لئے سڑکوں پر نکل آئے۔

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد محمد تقی پہلے انقلاب اسلامی کی کمیٹی اور اس کے بعد سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی قہدریجان سے ملحق ہوگئے۔ مجلس خبرگان کی حفاظت کی ذمہ داری نبھانے کے لئے آپ کا تبادلہ تہران میں کر دیا گیا۔ آپ، امام خمینی کی جانب سے بیس ملین افراد پر مشتمل فوج کے قیام کا حکم صادر ہونے پر واپس قہدریجان آگئے۔ یہاں آپ بسیجی رضاکاروں کی تربیت میں مشغول ہوگئے۔ پانچ ماہ تک آپ قہدریجان میں ہی شہید بہشتی کیمپ ، باغ ابریشم  کے عہدہ دار رہے اس کے بعد آپ کا تبادلہ بیت امام خمینی میں ہوگیا۔ چھ ماہ تک آپ امام خمینی کے گھر کے محافطین میں شامل رہے۔  جس وقت کردستان میں آشوب برپا ہوا تو آپ وہاں چلے گئے اور چھ ماہ تک ضد انقلاب عناصر کی سرکوبی کے لئے فوجی دستہ بھیجنے کے کام پر مامور رہے۔

آٹھ سالہ عراق ایران جنگ شروع ہوئی تو آپ کا زیادہ تر وقت محاذ پر ہی گذرا۔ 1982 میں آپ شادی کے بندھن میں بندھے اور زوجہ کو بھی کردستان لے گئے۔

آپریشن ثامن  الائمہ علیہ السلام (آبادان  کا محاصرہ توڑنے کا آپریشن) میں شامل تھے اور اس آپریشن کے بعد آپ کردستان واپس آگئے اور دوبارہ فوجیوں کو محاذ پر بھیجنے کی ذمہ داری نبھانے لگے۔ اس کے بعد  سنند ج کی سپاہ کی ہم آہنگی آپ کے سپرد کی گئی۔ تین ماہ آپ سنندج کے ایک علاقہ حسین آباد میں تعینات رہے۔ اسی عرصہ میں سنندج کی جند اللہ بٹالین کی ذمہ داری آپ کو سونپی گئی۔ یہ بٹالین  فوج، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی اور محکمہ امن و امان  کے افراد پر مشتمل تھی۔ 

محمد تقی ابراہیمی پہلی بار سنندج میں ایک  محور کی پاک سازی کےدوران زخمی ہوئے۔ یہاں  آپ ایک گولی کا نشانہ بنے۔ محمد تقی کو  پہلے سنندج اور پھر اصفہان کے ایک اسپتال میں منتقل کیا گیا۔ صحت یابی کے بعد وہ کردستان آگئے۔ سنندج میں بیت المقدس بریگیڈ کی تاسیس کے بعد آپ اس بریگیڈ کے آپریشنز کے انچارج بن گئے۔ اسی کے ساتھ آپ اس بریگیڈ کے ڈپٹی کمانڈر بھی تھے۔

آپ دوسری بار،  1985 میں، مریوان کے علاقہ کی آزادی کے موقع پر  زخمی ہوئے۔ اس بار آپ کے الٹے ہاتھ کی دو انگلیوں کے پورے کٹ گئے تھے۔

محمد تقی ابراہیمی نے جنگی کھیلوں میں بالخصوص تکوانڈو میں بلیک بیلٹ  حاصل کر رکھی تھی۔

والفجر 9 کے آپریشن میں، اس علاقہ کی جانچ پڑتال کی ذمہ داری محمد تقی ابراہیمی کو دی گئی تھی۔ وہ حاج اکبر آقا بابائی کے ہمراہ اس علاقہ کی جانچ پڑتال پر نکلے اور اس ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے 26 فروری 1986 کو  توپ کا ایک گولہ آپ کے سر پر لگا جس کے سبب آپ شہید ہوگئے۔ محمد تقی ابراہیمی کا  مزار، گلزار شہدائے قہدریجان میں ہے۔ آپ کے شہادت سے 15 دن قبل یعنی   گیارہ فروری 1986ء کو آپ کے بھائی مہدی نے بھی جام شہادت نوش کیا تھا۔  وہ والفجر 8 کے آپریشن میں شریک  تھے۔[1]

 

[1] دفاع مقدس کے انسائیکلو پیڈیا کے ایک مقالہ کی تلخیص، دائرۃ المعارف دفاع مقدس جلد۱، صفحہ ۲۷۲، ۲۷۳۔ ناشر: مرکز دائرۃ المعارف پژوہشگاہ (ریسرچ سینٹر) علوم و معارف دفاع مقدس۔ بآ بیآ۔ ۲۰۱۱۔