آپریشنز
آپریشن عاشورہ 4
اعظمسادات حسینی
15 دورہ
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے 9ویں بدر بریگیڈ نے 1985ء میں عاشورہ 4 آپریشن انجام دیا تاکہ ہور الہویزہ کے آپریشنل علاقے میں ام النعاج جھیل کو مکمل طور پر آزاد کرایا جا سکے۔
اگست 1985ء کو بدر بریگیڈ کی فورسز نے القدس 4 آپریشن کے دوران ہور الہویزہ کے علاقے میں عراق کی ام النعاج جھیل کے ایک حصے کو آزاد کرایا۔ آپریشن عاشورہ 4 اس جھیل کی مکمل آزادی کے لیے 110 مربع کلومیٹر کے علاقے میں گزشتہ آپریشن میں کام کرنے والی فورسز کے امتزاج سے کیا گیا۔
خاتم الانبیاء کیمپ کی طرف سے آپریشنل ایریا کی حدود کا تعین کرنے اور یہ آپریشن بدر بریگیڈ کو سونپنے کے بعد علاقے کی شناخت اور تیاری شروع ہو گئی۔ اس دوران دو عراقی فوجیوں کے پناہ لینے،مناسب معلومات رکھنے کی وجہ سے آپریشن میں موثر کردار ادا کرنے میں کامیاب رہی۔
عراق نے ام النعاج جھیل میں 117ویں بریگیڈ کی 6ویں بٹالین کی دو کمپنیوں میں چار ثا بت چوکیوں اور ایک متحرک تیرنے والی چوکی کو جنگی حالت میں تیار رکھا ہوا تھا اور فرسان الہور نامی فورسز یعنی ہور انٹیلی جنس فورسز عراقی کمین گاہوں میں موجود تھے۔ 9ویں بدر بریگیڈ کی فورسز نے اسماعیل دقائقی کی کمان میں 23 اکتوبر 1985ء کو صبح دو بجے یا موسیٰ الکاظم ؑ کے کوڈ سے عاشورہ 4 کا ایمفیبئس(Amphibious) (خشکی اور پانی پر کیا جانے والا ) آپریشن شروع کیا۔
فورسز ام النعاج جھیل کے مغرب میں دشمن کو بے خبری میں جا لینے کے اصول سے استفادہ کرتے ہوئے اور اسی طرح فوج کے توپخانے کی موثر مدد کے ساتھ آسانی سے اپنے اہداف تک پہنچ گئیں اور اس طرح پندرہ عراقی کمین گاہیں سقوط کر گئے اور جھیل کے مکمل حصول تک پیش قدمی جاری رہی۔ عراق نے آپریشن کے پہلے دن جوابی حملے کا آغاز صبح 11:05 کیا لیکن عراقی مجاہدین نے، جو سرکنڈوں کے درمیان گھات لگائے ہوئے تھے، ان پر حملہ کر کے ان کے جوابی حملے کو بے اثر کر دیا۔ دوسرا جوابی حملہ بھی اسی دن دوپہر دو بجے عراقی PC7 طیاروں اور توپ خانے کی مدد سے شروع ہوا۔ دوسرے جوابی حملے کا جواب بھی پہلے جوابی حملے کی طرح دیا گیا اور اس کے نتیجے میں عراقی فورسز متعدد ہلاک، زخمی اور قیدی کرانے اور آٹھ کشتیوں کو چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئیں۔اس تعاقب میں ابوالخیر نامی عراقی مجاہدین کا ایک کمانڈر شہید ہوا۔
27 اکتوبر کو عراق نے ام النعاج جھیل کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے لگاتار تین بار حملہ کیا۔ پہلے حملے میں آٹھ کشتیاں جنہیں پانچ PC7 طیاروں کی مدد حاصل تھی، استعمال ہوئیں۔ دوسرے حملے میں آٹھ کشتیاں اور ایک بی آر ٹی -50 (بی آر ٹی-50 ایک سویت یونین کے زمانے کی عملہ منتقل کرنے والی گاڑی ہے جو خشکی اور پانی دونوں جگہ استعمال ہوتی ہے۔ اِسے انگریزی میں Soviet amphibious armored personnel carrier کہتے ہیں) جنہیں فضائی مدد حاصل تھی، استعمال کیے گئے۔ تیسرا حملہ المجری سے بارہ چھوٹی کشتیوں اور PC7 طیاروں کی حمایت سے شروع کیا گیا۔ عراقی مجاہدین نے سرکنڈوں میں کیموفلاج کیا اوراس کے بعد دشمن پر حملہ آور ہوئے۔ اس کے علاوہ بدر بریگیڈ کے عراقی مجاہدین میں سے ایک کو عراقی کشتی کا پیچھا کرتے ہوئے مشین گن ( دوشکا۔ DShK۔ سویت یونین کی بنی ہوئی مشین گن ) میں فنی خرابی پیش آئی جس کی وجہ سے وہ گولی نہ چلا سکا اس نے اپنی کشتی عراقی فورسز کی کشتی سے ٹکرا دی جس سے اُن کی کشتی ڈوب گئی۔
اس آپریشن کی پہلی رات بدر بریگیڈ کے دستوں نے تقریباً آٹھ کلومیٹر طویل آبی گزرگاہ بنائی اور اس طرح وہ عراقی کمانڈ ہیڈ کوارٹر کی پشت تک پہنچنے اور اُن کی فعالیت کو روکنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس آپریشن میں عراقی فورسز کے 76 افراد پکڑے گئے اور ابتدائی گھنٹوں میں ہی 300 سے زائد افراد مارے گئے۔ آپریشن کی صبح عراق کے متعدد جوابی حملوں کے باوجود بدر بریگیڈ کے صرف پندرہ کے قریب اہلکار شہید ہوئے اور یہ سب بریگیڈ کمانڈر اسماعیل دقایقی کی تدبر اور فکری قوت کا نتیجہ تھا۔
عاشورہ 4 آپریشن میں ایران نے تمام مقرر کردہ اہداف حاصل کر لیے اور اس آپریشن کے نتیجے میں عراق میں ہو الہویزہ کے علاقے میں 110 مربع کلومیٹر کا علاقہ، 64 فوجی اڈے، جھیل کے مغرب میں سات آبی گزرگاہوں، تین چوکیوں اور تین عراقی کمین گاہوں پر قبضہ کر لیا۔
اِس آپریشن میں عراقی 416 افراد قید، ہلاک اور زخمی ہوئے۔ بڑی تعداد میں مشین گنیں (دوشکا) اور آر پی جی، 27 چھوٹی اور بڑی کشتیاں، 99 نیم بھاری ہتھیار، دس عدد 14.5 ایم ایم کیلیبر کی اینٹی ایئرکرافٹ گن اور چار عدد 82 اور 60 ایم ایم مارٹر عراق سے غنیمت میں حاصل کر لیے گئے۔ اس آپریشن کے دوران 25 چوکیاں، ایک PC7 طیارہ اور ایک سو چھوٹی بڑی عراقی کشتیاں بھی تباہ کر دی گئیں۔