گروہ، ادارے، آرگنائزیشنز

شیراز کی 37ویں آرمرڈ بریگیڈ

محسن شیرمحمد
19 دورہ

شیراز کی 37 ویں بکتر بند بریگیڈ، عراق کی جانب سے ایران پر مسلط کی گئی آٹھ سالہ جنگ کے دوران زمینی فوج کی بکتر بند یونٹوں میں سے ایک تھی۔

37 ویں بکتر بند بریگیڈ کی تشکیل کا آغاز 1971ء میں ہوا۔ اسی سال، شیراز میں واقع بکتر بند تربیتی مرکز میں ایک مکمل بکتر بند اور جنگی بٹالین کو منظم کر کے اس بریگیڈ کی ابتدائی بنیاد رکھی گئی۔ 1975ء میں، دو بٹالین—یعنی 239 ویں بٹالین جس میں ایم-47 ٹینک تھے اور 237 ویں بٹالین جس میں چیفٹن ٹینک شامل تھے—بریگیڈ کے سپرد کیے گئے اور اس کا تنظیمی ڈھانچہ مکمل کیا گیا۔ اس کے بعد یہ بریگیڈ تربیتی امور کی اعانت کے لیے بکتر بند تربیتی مرکز کے تحت کام کرنے لگی۔[1]

یہ بریگیڈ جنگ کے آغاز سے قبل، تنظیمی ساخت کے اعتبار سے ان اجزا پر مشتمل تھی: 237 ویں بٹالین، جس میں تین کمپنیاں اور 53 چیفٹن ٹینک شامل تھے؛ 238 ویں بٹالین، جس میں دو کمپنیاں اور 34 عدد ایم-60 ٹینک موجود تھے؛ 239 ویں بٹالین، جو دو کمپنیوں اور چونتیس ٹینکوں پر مشتمل تھی؛ ایک بکتر بند سوار کمپنی، جس کے پاس سات اسکورپین ٹینک تھے؛ 177 ویں کمپنی، جو BMP-1 اور BMP-2 بکتر بند نفربردار گاڑیوں پر مشتمل تھی، جن کی مجموعی تعداد چالیس تھی؛ اور آخر میں بریگیڈ ہیڈکوارٹر کی کمپنی۔[2]

ستمبر 1980ء میں، عراق کی سرحدی جارحیتوں کے نتیجے میں اس بریگیڈ کو شیراز سے خوزستان کے شمال مغربی سرحدی علاقے "فکّہ" بھیجا گیا، جہاں اس نے دفاعی مورچوں میں تعینات ہو کر علاقے کا دفاع سنبھالا۔[3] بعد ازاں، 8 نومبر  1980ء کو بریگیڈ کے کچھ یونٹوں کو "دوسلک" (خوزستان کے شمال مغرب) کی بلندیوں پر جنگی گروہ-38 کے نام سے تعینات کیا گیا۔[4]

عراق کی جانب سے ہمہ گیر حملے اور جنگ کے آغاز کے بعد، شیراز کا 38 ویں بکتر بند جنگی گروپ—جس میں بریگیڈ 37 کے باقی ماندہ یونٹ، بکتر بند مرکز کے بعض عناصر، اور 191 ویں انفنٹری بٹالین سے ایک پیدل کمپنی شامل تھی—خوزستان روانہ کیا گیا۔ 8 اکتوبر 1980ء سے اس گروپ نے "گمبوعہ" جنگل کے دفاع اور "دِب حردان" (جو کہ اہواز سے پندرہ کلومیٹر مغرب میں واقع ہے) کی آزادی کی ذمہ داری سنبھالی۔[5]

عراقی فوج کے ابتدائی حملوں کے ایّام میں، اگرچہ 37 ویں بکتر بند بریگیڈ کو ایک خود مختار بریگیڈ کے طور پر تاحال مکمل معاونتی یونٹ دستیاب نہ تھے، پھر بھی اس نے عراق کی پہلی مکانیائزڈ ڈویژن کے حملے کا دفاع کیا اور فکّہ، دوسلک اور چنانی کے محاذ پر، دزفول کی دومی بریگیڈ اور زمینی فوج کی 21 ویں ڈویژن کے یونٹوں کی مدد سے دشمن کی پیش قدمی کو ایک ہفتے تک مؤخر کیا۔ اس نے عراقی افواج کی، نادری پل اور دریائے کرخه کے مغربی کنارے پر پیش رفت روک دی۔ بعد ازاں جب 21 ویں ڈویژن کے یونٹ علاقے میں پہنچ کر کرخه کے مغربی اور مشرقی کنارے پر مستحکم ہو گئے تو 8 نومبر 1980ء کو بریگیڈ 37 کو اہواز کے شمال میں دس کلومیٹر پر واقع چینی ریفائنری کے قریب منتقل کر دیا گیا۔[6]

18 دسمبر 1980ء کو، "توکّل" [7]کے عنوان سے ایک آپریشنل منصوبہ، فوج کے "اروند"[8] ہیڈکوارٹر نے تیار کیا جس کا مقصد دریائے کارون کے مشرقی علاقوں سے عراقی فوج کو پیچھے دھکیلنا اور اہواز و ماہشہر سے آبادان کی جانب جانے والی شاہراہوں کو آزاد کرانا تھا۔[9]17  جنوری 1981ء میں اس منصوبے پر عمل درآمد ہوا، جس میں 37 ویں بکتر بند بریگیڈ نے بھی حصہ لیا۔ 10 جنوری 1981ء کو بریگیڈ نے دشمن کے مورچوں پر رات کے وقت  ایک حملہ کیا۔ ابتدا میں پیش قدمی کامیاب رہی، مگر دن نکلتے ہی بریگیڈ کے کچھ ٹینک اور بلڈوزر دشمن کی اینٹی ٹینک فائرنگ کی زد میں آ گئے۔ اس کے باوجود، ایرانی افواج نے دشمن کے دفاعی علاقے میں بعض مورچے قبضے میں لے لیے اور بریگیڈ 37 نے دشمن کے دفاعی حصار میں دراڑ پیدا کی۔ تاہم، دشمن کے دباؤ کے باعث بریگیڈ کو عقب  نشینی کرنا پڑی ۔[10]

20جنوری 1981ء سے بریگیڈ 37 کو آٹھ ماہ کے لیے یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ دریائے کارون کے مشرقی کنارے پر عراقی افواج کی مزید پیش قدمی کو روکے۔ بعد ازاں، اس بریگیڈ نے دیگر فوجیوں اور سپاہ  پاسداران کے ساتھ، 21 جون 1981ء کو خراسان کی 77 ویں ڈویژن کے ہیڈکوارٹر کی قیادت میں ایک، دو روزہ لڑائی کے دوران ماہشہر-آبادان شاہراہ کی بازیابی کے لیے آپریشن کیا، جس کے نتیجے میں عراق کی افواج شاہراہ کے مقبوضہ حصے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئیں۔[11]

37 ویں بکتر بند بریگیڈ نے، جس میں 237 ویں چیفٹن ٹینک بٹالین، 239 ویں مختلط ٹینک بٹالین، غیر منظم 177 ویں مکانیائزڈ انفنٹری بٹالین اور بکتر بند سوار کمپنی شامل تھیں، آپریشن "ثامن‌الائمہ" (محاصرۂ آبادان کا خاتمہ) میں، اکتوبر 1981ء میں شرکت کی۔[12] اس آپریشن کے دوران بریگیڈ 37 کی اہم کارروائیوں میں عراقی چھٹی بکتر بند بریگیڈ پر حملہ شامل تھا،[13] جس کے نتیجے میں دشمن کا بریگیڈ ہیڈکوارٹر قبضے میں  لے لیا گیا اور اہواز سے آبادان جانے والی شاہراہ کا ایک حصہ آزاد کرایا گیا۔[14]

بریگیڈ 37 نے "فتح‌المبین" آپریشن (مارچ 1982ء) میں بھی شرکت کی اور آپریشنل ہیڈکوارٹر کی طرف  سے"نصرآپریشن" کے پر مامور ہوئی۔ 23 مارچ 1982ء کو فیصلہ ہوا کہ بریگیڈ 37 کے تمام پہیئوں اور چین والی گاڑیاں، نادری پل عبور کرنے کے بعد "علی گره زد "کی پہاڑیوں تک روشن ہیڈلائٹس کے ساتھ حرکت کریں، کیونکہ ایران و عراق کے درمیان شدید گولہ باری کے باعث میدانِ جنگ دن کی مانند روشن ہو چکا تھا۔ ان حالات میں دشمن کو غافل کرنابے معنی تھا، لہٰذا ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کی روشن ہیڈلائٹس کے ساتھ منظم پیش قدمی، دشمن پر نفسیاتی دباؤ کا باعث بنی۔ بریگیڈ 37 نے منصوبے کے مطابق دشمن کی دفاعی لائن عبور کی، مغرب کی طرف پیش رفت کی، دشمن کے دفاعی نظام کو درہم برہم کر دیا[15] اور امام زادہ عباس تک پہنچنے میں کامیاب رہی۔[16] 25 اپریل کو بریگیڈ 37 اور عراق کی 10 ویں بکتر بند ڈویژن کے ٹینکوں کے درمیان شدید جھڑپ ہوئی۔[17]اگرچہ اس دوران بریگیڈ کے 13 ٹینک تباہ ہو گئے، تاہم اس نے دشمن کے جوابی حملے کو "عین خوش" کے محاذ پر روکنے میں کامیابی حاصل کی۔[18]

بریگیڈ 37 نے "بیت‌المقدس" آپریشن میں بھی فعال شرکت کی۔ اس آپریشن کے پہلے مرحلے میں، بریگیڈ کو دریائے کارون عبور کر کے "سرپل لائن" (اہواز-خرمشہر شاہراہ) پر قبضہ کا ہدف سونپا گیا۔[19] 29 اپریل 1982ء کی شب، بریگیڈ کے ٹینکوں نے دریائے کارون پر قائم عارضی پلوں سے عبور کیا اور 30 اپریل کی صبح کارروائی کے لیے مکمل تیار ہو گئے۔[20]

آپریشن "بیت‌المقدس" کے پہلے مرحلے میں، بریگیڈ 37 نے اہواز-خرمشہر شاہراہ پر قبضہ کر کے شاہراہ کے مشرقی جانب دفاعی مورچے قائم کیے۔ دوسرے مرحلے میں، بریگیڈ نے " حسینیہ چیک پوسٹ-25" پر حملہ کیا اور خرمشہر کے قلعوں تک پہنچتے ہوئے بین الاقوامی سرحد کے قریب پہنچ گئی۔15 مئی 1982ء کو ایک اور حملے میں، بریگیڈ نے قلعہ نمبر 12 سے 16 تک کی سرحدی پوزیشنوں پر قبضہ کر لیا۔ اسی آپریشن کے دوران، بریگیڈ نے عراق کی ایک توپ خانہ بٹالین کو گرفتار بھی کیا۔[21]

جنگ کے اگلے مراحل میں، بریگیڈ 37 نے "والفجر"  آپریشن میں مقدماتی طور پر حصہ لیا۔ 6 فروری 1983ء کو، اس بریگیڈ نے چار دن تک مغربی میشداغ کی ریتلی و صحرائی زمینوں میں (جنوب مغربی دزفول میں واقع شمالی چذابه سے جنوبی فکه تک) دیگر زمینی افواج اور پاسدارانِ انقلاب کے یونٹوں کے ہمراہ، شہر "العماره" کی طرف مشرقی سمت سے پیش قدمی اور دباؤ کے لیے حملہ کیا۔ اس آپریشن میں، بریگیڈ نے پیادہ یونٹوں کی پیش قدمی کی سہولت کے لیے آتشباری کا بھرپور استعمال کیا۔ ایرانی افواج، ہیڈکوارٹر "خاتم‌الانبیاء" (ص) کی کمان میں، عراق کی مسلسل دفاعی لائنیں توڑ کر ان کے مورچوں کی گہرائی تک پہنچ گئیں، تاہم دشمن کی شدید مزاحمت اور بعض محاذوں پر پیش آنے والی ناہمواریوں کے سبب، ایرانی افواج کو اپنی ابتدائی پوزیشنوں پر واپس آنا پڑا۔[22]

ابوغریب، فکه، قصر شیرین، تنگاب، نفت شہر کی شاہراہ، میمک، دشتِ ہلالہ، مهران، سومار، خسروی روڈ اور گیلانِ غرب جیسے اہم محاذوں پر دفاع، ان دیگر اقدامات میں شامل ہے جو بریگیڈ 37 نے جنگ کے اختتام تک انجام دیے۔[23]

مقدس دفاع کے دوران، بریگیڈ 37 کے 545 افسران و جوان شہید ہوئے، 1637 زخمی اور 703 اسیر ہوئے۔[24]  ان آٹھ برسوں میں اس بریگیڈ کی کمان بالترتیب کرنل محمدجعفر زمانفر، مجید صارمی، بریگیڈیئر علی عباسی، بریگیڈیئر محمود برومند، بریگیڈیئر عبدالحسین مقتدر اور بریگیڈیئر جلیل نیازی نے سنبھالی۔[25]

دفاع مقدس کے دوران، بریگیڈ 37 نے مجموعی طور پر بیس   آپریشنز میں حصہ لیا جن میں  دشمن پر حملہ کرنا  اور دفاع کرنا شامل ہیں۔ یہ بریگیڈ 23 اپریل 1980ء سے بارہ سال تک سرحدی علاقوں میں تعینات رہی،[26]اور اکتوبر 1992ء میں شیراز واپس آ گئی جہاں "سیاخ دارنگون" کے علاقے میں اسے تعینات کیا گیا۔ 1993ء سے اکتوبر 2007ء تک اس بریگیڈ کو جزیرہ ابوموسی میں تعینات کیا گیا اور بعد ازاں واپس اپنے مرکزی کیمپ، شیراز منتقل کر دیا گیا۔[27] فی الوقت، کرنل بہادر افشاری‌پور اس بریگیڈ کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں۔[28]

 

 

[1] غلام‌نژاد، جعفر، نبردهای ارتشیان فارس در دفاع مقدس، شیراز، فرهنگستان ادب،2021، ص 48.

[2] صارمی، مجید، گروه رزمی 38 در عملیات غرب اهواز، تهران، ایران سبز، 2019، ص 3.

[3] سابق، ص 11؛ صارمی، مجید، تیپ 37 زرهی در عملیات ثامن‌الائمه، تهران، انتشارات ایران سبز، 2010، ص 11.

[4] صارمی، مجید، گروه رزمی 38 در عملیات غرب اهواز، ص 4.

[5] صارمی، مجید، تیپ 37 زرهی در عملیات ثامن‌الائمه، ص 11.

[6] سابق، ص 11.

[7] صارمی، مجید، تیپ 37 زرهی در عملیات ثامن‌الائمه، ص 31.

[8] صادقی‌ گویا، نجاتعلی، دفاع از آبادان: دفاع از آبادان در سال اول جنگ تحمیلی، تهران، انتشارات ایران سبز،2012، ص172 و 173.

[9] صارمی، مجید، تیپ 37 زرهی در عملیات ثامن‌الائمه، ص 31.

[10] حسینی، سیدیعقوب، نبردهای منطقه خرمشهر و آبادان در سال اول جنگ تحمیلی، تهران، انتشارات ایران سبز، 2017، ص 370 و371.

[11] غلام‌نژاد، جعفر، همان، ص 53.

[12] صارمی، مجید، تیپ 37 زرهی در عملیات ثامن‌الائمه، ص 85.

[13] سابق ، ص 99.

[14] سابق ، ص 113.

[15] صارمی، مجید، گروه رزمی 38 در عملیات غرب اهواز، ص99.

[16] سابق ، ص 99.

[17] سابق ، ص 100۔

[18] معین‌وزیری، نصرت‌الله، نیروی زمینی ارتش در عملیات فتح‌المبین، تهران، ایران سبز،2002، ص 135.

[19] صارمی، مجید، تیپ 37 زرهی در عملیات بیت‌المقدس، همان، ص 2 .

[20] ، سابق ص 25 و 26..

[21] غلام‌نژاد، جعفر، همان، ص 58.

[22] سابق، ص 59.

[23] صارمی، مجید، گروه رزمی 38 در عملیات غرب اهواز، ص 102 و 103.

[24] غلام‌نژاد، جعفر، همان، ص 48.

[25] سابق، ص 48.

[26] سابق ، ص 47.

[27] سابق ، ص 48.

[28]  خودکفایی ‌ارتش در تولید تجهیزات نظامی/ بازآماد ادوات زرهی در تیپ ۳۷ زرهی شهید ‌عطری نزاجا»، خبرگزاری تسنیم، ۱۸، اپریل 2023.