آثار
برادہ ھای خورشید فیچر فلم
زینب احمدی
14 دورہ
فیچر فلم " برادہ ھای خورشید" محمد حسین حقیقی نے 1995ء میں بنائی۔ یہ فلم ایک ایسے شخص کی کہانی بیان کرتی ہے جس کا باپ محاذ جنگ میں شہید ہو جاتا ہے اور وہ خود بھی اُس کی تلاش میں محاذ پر پہنچ جاتا ہے۔
اس فلم کے ہدایت کار محمد حسین حقیقی، معاون ہدایت کار نادر مقدس، علی بریران، عباس اردکانی اور بہزاد مصلح ہیں۔ فلم نامہ نگار محمد علی حسین نژاد اور محمد حسین حقیقی، تصویر کے نگران حسن قلی زادہ، کیمرہ مین محمد تقی پاک سیما، اسکرپٹ سیکرٹری تورج عطاری، ساؤنڈ ایڈیٹر بہمن اردلان، ویژول ایفیکٹس علی اصغر پور ہاجریان، ایڈیٹرز آرش معیریان اور بہرام دہقان، بیک گراؤنڈ اسکور محمدرضا علیقلی، میک اپ ڈیزائنر عبداللہ اسکندری، میک اپ آرٹسٹ اصغر ہمت، سیٹ ڈیزائنرز محمدرضا رحمانی، علیرضا گرگین، محمد احمدی نژاد اور سلطان محمدی، فوجی لو جسٹکس کے نگران عباس سلطانی، مہدی سلطانی اور اسماعیل توکلی، پروڈکشن مینیجر اور پراجیکٹ کوآرڈینیٹر منوچہر شاہسواری ہیں۔ اداکاروں میں منوچہر آذر، شہین علی زادہ، آتش تقی پور، جعفر بزرگی، وحید رزاقی، علیرضا علیا، مہدی قلی پور، حسین محجوب، حسن نجفی، شہرام شریفی، مسعود علی شاہ، امین حیائی، محمدرضا فروتن اور دیگر شامل ہیں۔
یہ 99 منٹ کی فلم اسلامی جمہوریہ ایران کے نشریاتی ادارے کے زیرِ انتظام تیار ہوئی اور یکم جون 1997ء کو سینٹرل، توسکا، جمہوری، فلسطین، رودکی اور دیگر سینما گھروں میں ریلیز ہوئی جس کی کل آمدنی 51,486,200 ریال رہی۔[1]
علی کو معلوم ہوتا ہے کہ اُس کا باپ محاذ جنگ پر زخمی ہوا ہے۔ وہ فوراً فرنٹ لائن پر پہنچتا ہے اور اسے پتہ چلتا ہے کہ اُس کا باپ، جو زخمی حالت میں ایک بیلڈوزر پر سوار تھا، ایک فوجی کارروائی کے دوران پیچھے ہٹنے میں ناکام رہا اور شہید ہو گیا۔ علی کو اپنے باپ کی شہادت پر یقین نہیں آتا اور وہ سیّد احمد، بسیج دستے کے کمانڈر، سے درخواست کرتا ہے کہ اُس کے باپ کی لاش کو واپس لایا جائے۔ سیّد احمد، علی کے باپ کا بہت احترام کرتا ہے اور کئی بار اپنے دستے کے ساتھ دشمن پر حملہ کرتا ہے مگر نقصانات کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اِس دوران علی ایک مجاہد سعید سے بیلڈوزر چلانا سیکھ لیتا ہے، ایک کارروائی میں حصہ لیتا ہے اور زخمی ہو جاتا ہے۔ سیّد احمد، جو راتوں رات کو علی کو واپس لینے آیا تھا، شہید ہو جاتا ہے۔ علی زخمی ہاتھ پاوں کے ساتھ اپنے دستے کے پاس پہنچتا ہے۔ اب وہ مکمل طور پر بدل چکا ہے اور اپنے باپ کی لاش کو واپس لینے کے خیال سے دستبردار ہو جاتا ہے۔ کچھ عرصے بعد، جنگ کے شہداء کی لاشوں کو محاذ سے واپس لایا جاتا ہے اور اُن کی تدفین کی جاتی ہے۔[2]
ماہرین کے مطابق فلم کی کہانی اور بیانیہ کمزور ہے اور بعض اوقات دستاویزی فلم کا روپ دھار لیتا ہے۔ موضوع میں جدت نہیں ہے، تاہم اس مخصوص موضوع کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے تاکہ محاذ جنگ کے حقایق کے بارے میں عوامی غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکے۔ دراصل مسئلہ موضوع کی تکرار میں نہیں بلکہ تخلیقی اور درست پیشکش کی کمی ہے۔ جب موضوع ہی تکراری ہو تو ہدایت کار کو نئے زاویوں اور تخلیقی خیالات سے کام لینا چاہیے ، مگر ایسا نہیں ہو سکا۔
فلم کی ایک بڑی کمزوری کہانی کا پہلے سے اندازہ ہو جانا ہے، جس کی وجہ سے ناظرین کے لیے نہ کوئی جوش و جذبہ رہتا ہے اور نہ ہی دلچسپی۔
تنقید نگاروں کے مطابق ہدایت کار نے کرداروں کی تشکیل پر کوئی توجہ نہیں دی اور تمام کردار ایک جیسے اور بے جان نظر آتے ہیں۔ کرداروں کے رویے پہلے سے سوچے ہوئے اور معمول کے ہیں — پکے اور مومن مجاہدین جن کا رویہ سخت اور رسمی ہے اور جن کی گفتگو میں صرف عرفانی اور ہدف پر مبنی باتیں ہیں۔ فلم پورے طور پر اخلاقیات کا مرقع ہے، اور اس میں وہ جاذبیت اور سسپینس موجود نہیں جو ناظر کو اپنی طرف کھینچ سکے۔ اسی قسم کے موضوعات کو دوسرے ہدایت کاروں نے زیادہ دلچسپ اور پرکشش انداز میں پیش کیا ہے۔ فلم میں علی کے کردار کی تبدیلی بھی پہلے سے ہی اندازے میں آجاتی ہے اور ناظر پر کوئی گہرا اثر نہیں ڈالتی۔[3]
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ "برادہ ھای خورشید" اپنے نام کی مانند — جو مجاہدین کو خدائی روح کے سورج سے نکلنے والی کرنوں کے مترادف قرار دیتا ہے — خلوص اور سچائی سے بھرپور فلم ہے، مگر اس میں کہنے کے لیے کچھ نیا نہیں۔ جو کچھ بھیاس فلم میں پیش کیا گیا ہے وہ پہلے ہی دیگر جنگی فلموں میں کہا جا چکا ہے۔ اسی وجہ سے ناظر پہلے دیکھی ہوئی فلموں کے تجربے کی بنا پر ہر بات کا اندازہ لگا لیتا ہے اور اس کے جذبات میں کوئی ہلچل پیدا نہیں ہوتی۔
کہا جاتا ہے کہ ہدایت کار ضمنی باتوں میں اُلجھ کر رہ گیا ہے۔ مثال کے طور پر علی کی اپنے باپ کی لاش کو واپس لانے کی ضد ایک اچھا موضوع تھا جس کو بنیاد بنا کر ہدایت کار تفصیلات میں جا سکتا تھا، کہانی میں کشش پیدا کر سکتا تھا اور ناظر کے دل و دماغ کو کہانی کے ساتھ جوڑ سکتا تھا، مگر فلم ساز میں نئے مسائل اُٹھانے کی ہمت اور زحمت نہیں ہے۔ وہ مسئلہ بیان کرنے کے بعد اُسے چھوڑ دیتا ہے اور کسی دوسرے مسئلے کی طرف چلا جاتا ہے۔ ایک جنگِ مقدس کی فلم میں بیان کی وسیع گنجائش موجود تھی اور وہ ماورائی موضوعات جیسے معجزات، کشف و کرامات کو شامل کر کے فلم کی سنسنی اور اثر انگیزی کو بڑھا سکتی تھی، مگر ہدایت کار ان کے دائرے میں داخل ہونے سے گریز کرتا ہے۔ ہدایت کار نے علی کے کردار میں تبدیلی کے ذریعے فلم پر ایک جذباتی بار ڈال کر اسے یکسانیت سے نکالنے، ناظر کو سوچ میں ڈالنے اور اسے ملوث کرنے کی کوشش نہیں کی۔ معجزات، روحانی تبدیلی، اور کشف و کرامات جیسے پرکشش عناصر کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ ہدایت کار نے ان طاقتور عناصر کے اثر کو مجاہدین کے درمیان ہونے والی چند سادہ سی باتوں پر چھوڑ دیا ہے۔
فلم کے تکرار آمیز بیانیے کے باوجود، مناظر میں دلچسپی اور سنیماٹک کشش پیدا کرنے اور کرداروں کو نکھارنے کے بہت سے مواقع موجود تھے — مثلاً علی کے باپ کی گمشدگی کا پراسرار پہلو جو ایک پرجوش ڈرامے کو جنم دیتا ہے، اور ایک اجنبی کی مجاہدین کے درمیان موجودگی جو ایک پراسرار اور دلچسپ موضوع ثابت ہو سکتا تھا۔
اس سب کے باوجود، فلم میں چند خوبصورت مناظر بھی موجود ہیں، جیسے ایک مذہبی شخصیت کی شہادت کا منظر۔ آخر میں، ایڈیٹر نے کوشش کی ہے کہ تدوین کے اثرات کے ذریعے فلم کے بعض پھیکے مناظر کی تلافی کرے اور وہ اس میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔[4]
[1] ایرانی فلم اور سنیما کی سالانہ اعداد و شمار کی رپورٹ 1990-2016، صفحہ 11
[2] بہارلو، عباس، فیلم شناخت ایران – فیلم شناسی سینمای ایران (1993-2003)، تہران، قطرہ، 2014، صفحہ 124
[3] روزنامہ رسالت، صفحہ ادب و ہنر، شمارہ 3217، 19 فروری 1997، صفحہ 4
[4] - فراستی، مسعود، فرھنگ فیلم ھای جنگ و دفاع ایران 1980-2012، تہران، ساقی، 2013، صفحات 56-59
