آپریشنز

آپریشن قدس 3

محمد علی عباسی اقدام
16 دورہ

آپریشن قدس 3، قدس آپریشنز کے سلسلے کا تیسرا محدود آپریشن ہے، جو10 اور 11 جولائی 1985ء کو سپاہ  پاسدارن کے 19ویں فجر ڈویژن کی کمان کے تحت انجام دیا گیا،  جس کا مقصد  194پہاڑی پر قبضہ کرنا تھا جو دریائے میمہ کےمغرب میں، دہلران کے عمومی علاقے میں واقع ہے جو سیاہ وادی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔  اس آپریشن کے ساتھ ہی جمہوری  اسلامی  کی فوج نے شرھانی کے علاقے میں بھی ایک آپریشن کیا جس نے قدس 3 آپریشن کی حمایت کے لیے زمینہ فراہم کیا۔

بدر آپریشن کے بعدتمام یونٹوں سے کہا گیا کہ وہ محدود آپریشن کرنے کے لیے علاقے کا انتخاب کریں اور اس کی نشاندہی کریں۔ خاتم الانبیاء ﷺہیڈ کوارٹر  نے ذیلی کیمپوں کی تجویز کے ساتھ بعض یونٹوں  کے لئے کچھ علاقوں کا حکم دیا۔  23 اپریل 1985ء کو صوبہ فارس کے 19ویں فجر ڈویژن کے کمانڈر نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر انچیف کے ساتھ ایک میٹنگ میں قصر شیرین، سومار اور خاص طور پر دریائے میمہ کے مغرب میں عراق کے قصبے طیب کے شمال سمیت متعدد علاقوں میں محدود آپریشنز کی  تجویز پیش کی۔ لیکن خاتم الانبیاء ﷺکیمپ نے فجر ڈویژن سے کانی شیخ کے علاقے میں عمل کرنے کو کہا۔  19ویں فجر ڈویژن کا دریائے میمہ کے مغرب میں واقع علاقے پر اصرار اس وجہ سے تھا کہ عراقیوں نے علاقے کی پہاڑیوں  خصوصاً 194  چوٹی پر قدم جما کر  دہلران پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ اس کے علاوہ 19ویں فجر ڈویژن کی فورسز کے پاس دفاعی خط ہونے کے باعث وہ اُنہیں اچھی طرح جان چکے تھے۔  19ویں فجر ڈویژن کے افسران کے اصرار اور خاتم الانبیاء ﷺ کیمپ کی موافقت  کے بعد 28 جون 1985ء کو ڈویژن نے عملی کاروائی شروع کردی۔ اِس آپریشن کی عملی منصوبہ بندی میں 19ویں فجر ڈویژن کے ذمے 194  چوٹی پر موجود عراقی فورسز کی تباہی اور اُنہیں قید کرنا اور علاقے کو مستحکم کرنا شامل کیا گیا لیکن فورسز کی کمی کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ مجاہدین تباہی کرنے، قیدی بنانے اور غنیمت حاصل کرنے کے بعد واپس پلٹ جائیں گے۔

قدس 3 کا  آپریشنل علاقہ  عراقیوں میں ’’عین منصور‘‘ کی پہاڑیوں  اور مقامی باشندوں میں ’’سیاہ وادی ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ علاقہ دریائے میمہ کے مغرب میں دہلران-طیب کے عمومی علاقے  میں واقع ہےا ور اِس میں پہاڑیوں کا ایک سلسلہ موجود ہے جن میں 216، 214، 172، 194، 128، 137 اور 100 چوٹیاں شامل  ہیں ۔ اِسی طرح دریا کےمشرق  میں جو بیات علاقے کے نام سے مشہور ہے،  208  چوٹی، علاقے ممیہ کے مغربی کنارے پر برتری رکھنے کے سبب بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ یہ علاقے اور پہاڑیاں سرحدی لائن کے شمال میں اور ایرانی سرزمین میں واقع ہیں اور عراقیوں نے خرمشہر کی آزادی کے بعد پسپائی میں ان علاقوں کے ایک اہم حصے کو اپنی حساسیت اور فوجی اہمیت کی وجہ سے محفوظ کر لیا تھا۔

216 ویں چوٹی پر دفاعی لائن اور اس کے دفاع کی ذمہ داری  باختران(کرمانشاہ) کی 205ویں ژاندارمری بٹالین کے سپرد تھی  جو 58ویں ذوالفقار ڈویژن کے ماتحت تھی۔ عراق کی  فرنٹ لائن بھی 194ویں چوٹی پر مالحہ نالے کے سامنے واقع تھی۔ عراقیوں کے اِس چوٹی پر قدم جمانے کی وجہ سے وہ اپنی لائن اور دہلران کے عمومی علاقے پر اچھی طرح نظر رکھ سکتے تھے۔ اِس آپریشن میں اُن کی رکاوٹوں میں والمر ا بارودی سرنگوں کی دو قطاریں اور سرکلر خاردار تاروں کی دس قطاریں تھیں۔ اِس محور میں عراقی مورچوں  کے آس پاس  سرکلر خاردار تاروں کی سولہ قطاریں اور فوجی اڈے اور ہیڈکوارٹر کے گرد روشن اور بارودی سرنگوں سے بھرپور تین میدان اور 24 تاروں والی خاردارتاریں نصب تھیں۔

10 جولائی 1985ء  کو شام سات بجے، 19ویں فجر ڈویژن کے دستے فرح آباد گاؤں میں جمع ہوئے اور مغرب اور عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد عراقیوں کے ساتھ لڑائی والے علاقے میں چلے گئے۔ گاڑیوں کی کمی، اندھیرا پھیلنے اور زیادہ دور تک نہ دیکھ سکنے، راستے کی تنگی اور چلنے کے مسائل جیسی وجوہات کی وجہ سےفورسز  لڑائی والے مقام  پر دیر سے پہنچیں۔ خاص طور پر قاسم بن الحسنؑ بٹالین جو وقت پر مشن والی  جگہ تک نہیں پہنچ سکی۔ امام مہدی عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف بٹالین کے مجاہدین نے  ہر ممکن حد تک خود کو دشمن کے قریب کر لیا لیکن مجموعی طور پرآپریشنل فورسز کی تیاری کے اعلان تک آپریشن کے  متوقع وقت سے ایک گھنٹہ زیادہ گزر چکا تھا۔

تمام بٹالینز نے  پہنچنے کے بعد 11 جولائی 1985ء کو صبح 2:40 بجے آپریشن شروع کرنے کے لئے اپنی تیاری کا اعلان کر دیا۔ اِس کے بعد9 1ویں فجر ڈویژن کے کمانڈر نبی رودکی نے 2:45 بجے آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا۔ آپریشن کا کوڈ  ’’ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم، انا فتحنا لک فتحنا مبینا، یا امام صادقؑ، یا امام صادقؑ، یا امام صادقؑ، اللہ اکبر ‘‘ تھا۔

قاسم بن الحسن ؑ بٹالین نے مرکزی سڑک کے سیکٹر سے، مرکزی سڑک کے دائیں اور بائیں طرف فوجی ٹھکانوں، سڑک پر موجود فوجی  اڈے اور سڑک 1 سے اپنے آپریشن کا آغاز کیا۔ امام مہدی عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی بٹالین کی فورسز نے بھی دشمنوں کے بنکروں کے قریب پہنچ کر اُنہیں گھیرے میں لے  لیا۔ امام علی ؑ بٹالین جس کے ذمہ سیکٹر کے بائیں جانب کاروائی کرنا تھا، نے لڑائی کا آغاز کردیا اور ابتدائی لمحات میں ہی عراقی مورچوں میں گھس گئے۔

اس علاقے سے عراقی فورسز کی ناواقفیت اور بے خبری، بٹالینز کی کامیابی اور علاقے کو کلیئر کرنے میں سب سے اہم عوامل میں سے تھا۔ قاسم بن الحسن ؑ بٹالین کی عراقی اڈوں کو تباہ کرنےمیں کامیابی کے باوجود یہ بٹالین سڑک کے اردگرد نالوں میں واقع کمین گاہوں کو مکمل کلیئر نہیں کر سکی۔ امام مہدی عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف اور قاسم بن الحسن ؑ بٹالین کو سیکٹر کے دائیں جانب سے واپسی کے وقت مشکل کا سامنا کرنا پڑا، اِس طرح کہ عراقیوں نے مسلسل فائرنگ سے فوجیوں کی نقل و حرکت کو روک دیا اور مجاہدین کو بہت زیادہ جانی نقصان پہنچایا۔ امام علی ؑ بٹالین کو واپسی پر کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئی اور اپنے مقاصد کے حصول میں اُس نے کامیابی سے عمل کیا۔

قدس 3 آپریشن کو کامیاب آپریشنز میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ بیس سے تیس مربع کلومیٹر کے علاقے کو کلیئر کر کے سات سو سے زائد عراقی فوجیوں کو ہلاک اور زخمی  کرنا، گولہ بارود کے دس ڈپو، چھ 106 ایم ایم بندوقیں، ایک فضائی دفاعی ہتھیار اور عراقی فوج کی بڑی تعداد میں ہلکی اور بھاری گاڑیاں تباہ  کرنا اِس آپریشن کے سب سے اہم نتائج میں سے تھا۔ مجموعی طور پر قدس 3 آپریشن کے انجام دینے سے عراقی فوج کی 805ویں انفنٹری بریگیڈ مکمل طور پر تباہ ہو گئی اور دوسری بٹالین کا 60فیصد حصہ تباہ ہو گیا اور تیسری بٹالین کو بھی نقصان پہنچا۔

 

اس آپریشن میں ایک اہم مسئلہ داخلی فورسز کی روحانی حالت  کا مناسب ہونا تھا کہ حتیٰ مشکلات اور کمزوریوں پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے۔ اِس آپریشن میں واپس پلٹتے ہوئے ہونے والا جانی نقصان،  پیش قدمی اور فورسز کی لڑائی سے  زیادہ تھا۔  امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف بٹالین کے  پیش قدمی کرنے، کلیئر کرنے اور دشمن کو تباہ کرنے کے دوران ایک شہید اور دو زخمی ہوئے  تھے لیکن واپسی پر اُن کے  چھ افراد شہید اور چالیس سے زائد زخمی ہوئے۔

11 جولائی 1985ء کو جب قدس آپریشن انجام دیا گیا تو فوج نے بھی زیر قبضہ علاقوں کو واپس لینے کے لئے شرہانی کے علاقے میں کاروائی کی۔ یہ بھی ایک عامل تھا کہ عراقیوں کی توجہ  شرہانی محاذ کی جانب رہے اور وہ اپنے توپخانے کی گولہ باری اُسی علاقے میں  مرکوز رکھے۔ دراصل فوج کی کاروائی عملی طور پر قدس 3 آپریشن کے لئے ایک دھوکہ دینے والی کاروائی تھی  جس  سے بالواسطہ طور پر  (قدس 3 آپریشن کے لئے) مدد ملی۔

11 جولائی کی صبح 6:45  بجے، عراقی فورسز نے 137 چوٹی کی طرف تیاری کے فائر  اور ہیلی کاپٹر کے  ذریعے فائرنگ کرتے ہوئے  جوابی حملے کا آغاز کیا اور موسیان اور دہلران کے دونوں شہروں پر دو جہازوں کے ذریعے بمباری   بھی کی۔ایرانی فوج کی گولہ باری اور اُن کے ٹینکوں کو آگ لگنے سے اُن کی پیش قدمی رک گئی۔ لیکن دوپہر بارہ بجے تک وہ 137 چوٹی پر قدم جمانے اور رات تک 194چوٹی پر ٹھہر جانے میں کامیاب ہو گئے۔