آپریشنز

شہید مدنی آپریشن

سمانه کرمیان
17 دورہ

شہید مدنی آپریشن عراق کی جانب سے ایران کے خلاف مسلط کردہ جنگ کے پہلے سال میں ایران کا آخری آپریشن ہے جو 18 ستمبر 1981ء کو سوسنگرد-بستان روڈ کے جنوب میں کیا گیا۔

شہید رستمی  آپریشن کے بعد، جو 16 جون 1981ء کو دہلاویہ آزاد کرانے کے لیے کیا گیا تھا۔عراقیوں نے دہلاویہ کو خالی کر دیا اور اس کے مغرب میں قیام پذیر ہو گئے۔ لیکن یہ علاقہ  ابھی تک مکمل طور پر ایرانی جنگجوؤں کے کنٹرول میں نہیں تھا۔ دغاغلہ سے دہلاویہ تک دشمن کے فرنٹ لائن کی پناہگاہوں پر قبضہ کرنے اور اُس کے بعد دہلاویہ گاؤں میں قبضہ کرنے اور اُس میں قدم جمانے کے لئے، 15 ستمبر 1981ء کو فوج اور سپاہ پاسداران کے کمانڈروں نے مشترکہ آپریشن کا منصوبہ بنایا  اور 18 ستمبر 1981ء کی تاریخ کا انتخاب کیا گیا۔  یہ آپریشن کارون کے مشرق میں رکی ہوئی فورسز  پر دشمن کے دباؤ کو کم کرنے، خوزستان کے 92ویں آرمرڈ ڈویژن کے جنوبی حصے کو دشمن کی رینج سے دور کرنے، بستان کے مشرق میں عراق کی دوسری اور تیسری مواصلاتی لائن کےلئے خطرہ ایجاد کرنے اور محاذوں کو فعال کرنےکے لئے انجام دیا گیا۔

اس آپریشن کا نام شہید آیت اللہ سید اسد اللہ مدنی،   تبریز میں امام جمعہ اور امام کے نمائندے کے نام پر رکھا گیا تھا جو  آپریشن سے ایک ہفتہ قبل 11 ستمبر 1981ء کو منافقین کے ہاتھوں شہید ہو گئے تھے۔

آپریشن کا علاقہ دہلاویہ گاؤں اور دغاغلہ دیہاتوں کے درمیان مغرب میں اور دریائے نیسان کے شمال میں واقع تھا۔

18 ستمبر 1981ء کو صبح ساڑھے چار بجے دہلاویہ سیکٹر میں شہید مدنی آپریشن کا آغاز ہوا۔ایک گھنٹے بعد، جنگجوؤں نے کئی عراقی ٹینکوں کو تباہ کر دیا، ان کے حصار کلیئر کر دئیے اور دشمن کی پہلی پناہگاہ پر قبضہ کر لیا۔  اس کامیابی کے بعد عراق کے دوسرے پشتوں کی جانب حرکت  جاری رہی۔ دوسرے پشتوں پر قبضہ کرنے کے بعد جنگجو آگے بڑھتے رہے اور اُنہوں نے تیسرے پشتوں   پر بھی قبضہ کر لیا۔

روشنی پھیلنے کے ساتھ ہی عراقی  جوابی حملے شروع ہو گئے۔ اِن مورچوں کے بائیں جانب دریائے العباس کی طرف داخلی فورسز کا کمزور پوائنٹ تھا۔ اِس جگہ شدید لڑائی ہوئی۔ عراقی فوج نے ٹینکوں کی تنظیم کے ساتھ اپنی طاقت کو دریائے العباس کے پشتوں  پر مرکوز کر رکھا تھا۔  یہ لڑائی پہلے دن شام  تک جاری رہی اور عراق اپنے شدید  دباؤ  کے ساتھ پشتوں  کا نصف حصہ دوبارہ واپس حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔

سویدانی سیکٹر میں آپریشنل فورسز نے 19 ستمبر کو صبح دو بجے چولانہ کے مغرب سے عراقی پوزیشنوں کی طرف اپنی حرکت شروع کی اور موجود رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے دو سو میٹر تک  اندر گھس گئے اور لڑنے اور پیش قدمی کے لئے تیار ہو گئے۔ عراقی فوج کی جوابی فائرنگ میں داخلی  فورسز نے پیش قدمی شروع کر دی۔ صبح ساڑھے پانچ بجے عراق کا پہلا پشتہ سقوط کر گیا۔  عراقی فوج کی رکاوٹوں اور ٹینک خندقوں کی موجودگی نے دوسرے اور تیسرے پشتے  میں داخل ہونا مشکل کر دیا تھا۔  اِس کے باوجود دوسرے اور تیسرے پشتوں کی جانب اس طرح  پیش قدمی جاری رہی  کہ صبح سات بجے آپریشنل فورسز  دوسرے اور تیسرے پشتوں کے علاوہ سویدانی، رملہ، دحیمی اور مگاصیص کے دیہاتوں پر قبضے کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ جنگجوؤں کی کامیابی کے بعد، عراقی فوج نے اپنی پوزیشنیں دوبارہ حاصل کرنے کے لیے متعدد جوابی حملے کیے اور 11 بجے تک گاؤں مگاصیص، سویدانی-دغاغلہ پشتوں  پر دوبارہ قبضہ کر لیا ۔ تاہم عراقی آپریشن سے پہلے والی پوزیشنوں پر واپس نہیں جا سکے۔

اس آپریشن میں فوج کے 55ویں ایوی ایشن بریگیڈ اور 16ویں آرمرڈ ڈویژن کے یونٹس، سپاہ  پاسداران  کی دو بٹالین اور غیر منظم جنگ کے ہیڈکوارٹر کی دو بٹالین نے حصہ لیا۔

دس سے پندرہ کلومیٹر کے علاقے کو آزاد کرانے کے علاوہ سوسنگرد کے مغرب میں آپریشن کی سب سے اہم کامیابی اس محاذ میں عراقیوں کی شمولیت اور کارون کے مشرق میں آپریشنل علاقے پر ان کے دباؤ اور توجہ کو کم کرنا تھا۔ اِس سے ثامن الائمہ آپریشن کو انجام دینے اور  ستمبر اکتوبر 1981ء میں آبادان کے محاصرے کو شکست دینے میں آسانی ہوئی۔

اس آپریشن میں عراق فورسز کے   500  افراد ہلاک یا زخمی اور  190 افراد گرفتار بھی ہوئے۔ اس کے علاوہ پچاس عراقی ٹینک اور عملہ بردار گاڑیاں تباہ ہوئیں اور متعدد ٹینک اور عملہ بردار گاڑیاں قبضے میں بھی لے لی گئیں۔ اس آپریشن میں دہلاویہ سیکٹر میں سپاہ  کے آپریشنل کمانڈر حسن ریختہ گران سمیت 168 ایرانی فوجی شہید ہوئے۔

شہید مدنی آپریشن کے بعدحمیدیہ-سوسنگرد اور اللہ اکبر پہاڑیوں کے آپریشنل علاقے کی  دفاعی لائنیں طریق القدس آپریشن کی انجام دہی تک جو 1981ء نومبر کے چوتھے ہفتے کے آغاز میں شروع ہوا، بغیر کسی تبدیلی کے اور غیر منظم کاروائیوں نے اِس محاذ میں کوئی تبدیلی  ایجاد نہیں کی۔