اشخاص

حافظ اسد

فاطمہ دانش شکیب
21 دورہ

حافظ اسد (1930-2000) شام کے 18ویں صدر تھے، اور انہوں نے عراق- ایران جنگ کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کی طرفداری اور  حمایت کی۔

وہ 1930 میں شام کی بندرگاہ " لاذقیہ" میں پیدا ہوئے۔ ثانوی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے  ایئر فورس آفیسرز اکیڈمیں تعلیمی  سلسلہ جاری رکھا  اور وہاں سے فارغ ہونے کے بعد ایئر فورس میں شامل ہو گئے۔ فروری 1966  سے نومبر 1970   تک وہ وزیر دفاع اور شامی فضائیہ کے کمانڈر کے عہدے پر فائز رہے۔ 13 نومبر 1970 کو سویلین حکومت کے خلاف بغاوت کے بعد وہ شام کے صدر بن گئے۔ اپریل 1971 میں  شام کی بعث پارٹی کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے اور پھر  مسلح افواج کے کمانڈر انچیف بن گئے[1]۔

ایران کے اسلامی انقلاب سے پہلے پہلوی حکومت ہمیشہ شام کی پالیسیوں کو مغربی ایشیا میں عدم استحکام کا باعث سمجھتی تھی۔ ایران اور عراق کے درمیان سرحدی تنازعات کا حل، پہلوی حکومت کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنا، مصری- شامی اتحاد کا خاتمہ اور شام اور عراق میں بعث پارٹی کا اقتدار میں آنا، شام اور پہلوی حکومت کے درمیان تعلقات میں  مزید کشیدگی  کا باعث بنا۔ 1973 کی عرب -اسرائیل جنگ کے دوران شام کو ایران کی  جانب سےغیر فوجی امداد اور قرض کی فراہمی کے نتیجے میں ان تعلقات میں بہتری  آئی[2]۔ تاہم، (عراق اور ایران کے درمیان) الجزائر معاہدے کو حافظ اسد کی طرف سے غداری سمجھا  گیا[3]۔

جب امریکی ثالثی[4] میں مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوا تو اس کے بعد بہت سے عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا، مگر اس کے نتیجے میں شام تنہا ہو گیا[5]، اسی عرصہ  میں  1978 میں ایران میں اسلامی انقلاب  کامیابی سے ہمکنار ہوا جس پر حافظ اسد نے  استقبال کرتے ہوئے  انقلاب کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا[6]۔

1980 میں جب عراق نے ایران پر حملہ کیا تو شام نے ابتدا میں غیر جانبدارانہ موقف اختیار کیا۔ تاہم، جنگ شروع ہونے کے بعد پہلے ہفتوں میں، انہوں نے کچھ ہتھیار اور سازوسامان ایران کو بھیجے[7]۔ نومبر 1979 میں، حافظ اسد نے دمشق میں یاسر عرفات سے ملاقات کی[8]  اور سعودی عرب اور اردن کے بادشاہوں کو ٹیلی فون پر جنگ بند کروانے پر راضی کرنے کی کوشش کی[9]۔ 26 اکتوبر 1980 کو عراقی فوج نے خرمشہر پر قبضہ کر لیا[10] جس سے حافظ اسد کو پریشانی لاحق ہوئی، کیونکہ شام کو اب عراق اور اسرائیل، دونوں کی دشمنی کا سامنا کرنا  تھا[11] لیکن عراقی فوج کو خرمشہر میں روک دیا گیا[12]، اور اس طرح ایران نے پہل کی اور حافظ اسد زیادہ آسانی سے ایران کی حمایت میں اپنی پوزیشن بنانے میں کامیاب ہوگئے۔

1982  میں شام اور ایران کے درمیان ایک معاہدہ ہوا  جس کے بعد، حافظ اسد نے عراقی سرزمین میں صدام حسین کے اندرونی مخالفین بشمول کردوں کو مضبوط کرنا شروع کیا[13]۔ انہوں نے بحیرہ روم کی پائپ لائن کے ذریعے عراقی تیل کی ترسیل منقطع کر دی، جس سے بغداد کو تیل کی سالانہ آمدنی کے ایک چوتھائی حصے سے محروم ہونا پڑا[14]۔ اس کے علاوہ، ایران پر ہتھیاروں کی پابندی کے عروج پر، انہوں نے سوویت یونین، لیبیا اور الجزائر سے ہتھیاروں کی منتقلی کے ذریعے اسلامی جمہوریہ  ایران کو جدید ہتھیار فراہم کیے[15]۔ عرب متحدہ محاذ کی تشکیل کو روکنا[16] اور مئی 1982  میں ایران کی حمایت میں عرب سربراہی اجلاس کا بائیکاٹ کرنا حافظ اسد کے اہم ترین اقدامات میں شامل تھا[17]۔

1982 میں، ایران -عراق   جنگ جب خود  عراق کے اندر پھیل گئی تو صدام حسین نے پے در پے شکستوں کا سامنا کرتے ہوئے صلح اور امن کا مطالبہ کردیا۔ حافظ اسد، جو اس وقت تک عراق کو جارح قرار دے رہے تھے، کو اچانک عالمی برادری بالخصوص عرب ممالک کے منفی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا[18]۔ دمشق -بغداد تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے عرب حکومتوں کی کوششیں، حافظ اسد کی حکومت کو مختلف اقتصادی امداد کی پیشکش، 1985 میں صدام کی جانب سے ایرانی تیل کی تنصیبات پر بمباری، اور دمشق کی جانب سے ایران سے حاصل کیے گئے قرضوں کی واپسی میں تاخیر نے، دونوں ممالک کے مابین تعلقات  کو ایک بار پھر متاثر کیا[19]۔

کربلا- 5 آپریشن کا آغاز 9 جنوری 1987 کو کویت میں اسلامی رہنماؤں کے سربراہی اجلاس کے انعقاد کے ساتھ ہوا۔ حافظ اسد نے سربراہی اجلاس میں شرکت کی اور  اجلاس کی اس حتمی قرارداد کی حمایت کی جس میں عراق اور ایران کے درمیان فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 26 مارچ 1987 کو ختم ہونے والے کربلا- 5 آپریشن میں ایران کی فتح  نے عرب رہنماؤں کو اردن کے دارالحکومت عمان میں ایک ہنگامی اجلاس منعقد کرنے اور دمشق اور بغداد کے مابین مصالحت کی کوشش کرنے پر مجبور کردیا، یہاں تک  کہ صدام حسین اور حافظ اسدنے باہم ملاقات بھی کی[20]۔

بین الاقوامی برادری کی کوششوں سے سلامتی کونسل نے 20 جولائی 1987  کو قرارداد 598 منظور کر لی[21]۔ ایران نے ابتدائی طور پر تو  قرارداد کو ماننےسے انکار کیا، لیکن 18 جولائی 1988 [22] کو  حافظ اسد کی ثالثی میں   اسے تسلیم کر لیا[23]۔

جنگ کے خاتمے کے بعد دونوں ممالک  کے تعلقات میں  ایک بار  سے دراڑ آئی ، لیکن 1990 کے اواخر میں حافظ اسد نے خلیج فارس کے بحران کے موقع پر تہران کا سفر کیا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو فروغ  دیتے ہوئے آپس کے اختلافات کو حل کیا جا سکے   اور خلیج فارس کے بحران پر قابو پایا جا سکے ۔حافظ اسد  1997 میں اسلامی کانفرنس کے سربراہی  کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھی  ایران  آئے تھے۔ اس کے بعد 2000 کے اوائل میں ایران کے اعلیٰ عہدے داروں نے بھی دمشق کا سفر کیا۔ دمشق-تہران ملاقاتوں میں ترکی، لبنان، عراق، مصر اور اسرائیل کے مسائل زیر بحث تھے۔

حافظ اسد   عارضہ قلب لاحق ہونے پر  10 جون 2000 کو انتقال کر گئے[24]۔

 

 

[1] ساجدی، احمد، مشاهیر سیاسی قرن بیستم، تهران: محراب قلم، 1996، ص33 و 34.

[2] سلطانی‌نژاد، احمد، سیاست خارجی سوریه در جنگ ایران و عراق، تهران: صفحه جدید، 2013، ص142 و 143.

[3] رفیعی، عبدالله، بغداد تا دمشق و...، تهران: امیرمحمد، 2006، ص156.

[4] جزینی، علی، نقش سوریه در روند صلح خاورمیانه: سازش اعراب و اسرائیل، تهران: مؤسسه انتشارات آذریون، 1998، ص61.

[5] شه‌مرادی، حسین، علل همگرایی ایران و سوریه، تهران: مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 2016، ص96.

[6] سلطانی‌نژاد، احمد، سیاست خارجی سوریه در جنگ ایران و عراق، ص142 و 143.

[7] امامی، محمدعلی، سیاست و حکومت در سوریه، تهران: انتشارات وزارت امور خارجہ، 1997، ص238 و 239.

[8] شه‌مرادی، حسین، علل همگرایی ایران و سوریه، ص130.

[9] امامی، محمدعلی، سیاست و حکومت در سوریه، ص239.

[10] غفوری، علی، تاریخ جنگ‌های ایران از مادها تا به امروز، تهران: اطلاعات، 2009، ص499.

[11] سعیدی، ابراهیم، مباحث کشورها و سازمان‌های بین‌المللی (کتاب سبز)، تهران: وزارت امور خارجه، 1995، ص130

[12] غفوری، علی، تاریخ جنگ‌های ایران از مادها تا به امروز، ص499.

[13] شه‌مرادی، حسین، علل همگرایی ایران و سوریه، ص100 و 101.

[14] رفیعی، عبدالله، بغداد تا دمشق و...، ص161.

[15] سعیدی، ابراهیم، مباحث کشورها و سازمان‌های بین‌المللی (کتاب سبز)، ص225.

[16] سلطانی‌نژاد، احمد، سیاست خارجی سوریه در جنگ ایران و عراق، ص163.

[17] سعیدی، ابراهیم، مباحث کشورها و سازمان‌های بین‌المللی (کتاب سبز)، ص225

[18] سلطانی‌نژاد، احمد، سیاست خارجی سوریه در جنگ ایران و عراق، ص166.

[19] سابق، ص172.

[20] سابق ، ص182ـ180.

[21] همتی، ایرج، صفایی، داوود، دیپلماسی ایران و قطعنامه 598، تهران: صفحه جدید، 2014، ص211.

[22] سوداگر، احمد، 10 قطعنامه برای 8 سال دفاع، روزنامه ایران، ویژه‌نامه سالروز پذیرش قطعنامه 598، 18 جولائی 2010، ص21.

     [23] سلطانی‌نژاد، احمد، سیاست خارجی سوریه در جنگ ایران و عراق، ص174.

[24] شه‌مرادی، حسین، علل همگرایی ایران و سوریه، ص111ـ104.