آپریشنز
اربیل آپریشن
معصومه سجادیان
17 دورہ
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے رمضان کیمپ نے عراق مخالف گروپوں کے تعاون سے 1986 سے 1988 کے درمیان عراق کے اربیل علاقے میں محدود کاروائیاں کیں۔
صوبہ اربیل پہاڑی علاقے میں اور عراق کے شمال میں واقع ہے جو مشرق سے ایران کے سرحدی شہروں پیرانشہر، سردشت اور شمال سے ترکی سے ملحق ہے۔ یہ صوبہ، موصل سے 80 کلومیٹر مشرق میں واقع ہے اوراس کے جنوب میں کرکوک اور جنوب مشرق میں سلیمانیہ واقع ہیں۔صوبہ اربیل دس شہروں کے ساتھ دو دریاؤں بڑے زاب اور چھوٹے زاب کے درمیان واقع ہے۔ اربیل کا وسیع میدانی علاقہ بھی اس کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ ہیبت سلطان اور سفین کے دو پہاڑی سلسلے اسے رواندوز کے میدانی علاقے سے جدا کرتے ہیں۔
اربیل میں کرد، عربی اور ترکی بولیاں بولی جاتی ہیں۔ زیادہ تر لوگ سنی ہیں اور زراعت اور مویشی پالتے ہیں۔ اگرچہ کرد علاقوں کی خودمختاری کا سرکاری طور پر 1974 (1352 شمسی) میں عراقی حکومت نے اعلان کیا تھا، لیکن کردوں نے اسے ایک دکھاوے کا عمل قرار دیا۔
ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایرانی کردستان کا علاقہ انقلاب مخالف عناصر کی مسلح کاروائیوں کے نتیجے میں ناامن ہوگیا۔ انقلاب مخالفین کی لاجسٹک سپورٹ اور سپلائی لائن عراق کی سرحدی پٹی میں واقع تھی اور عراقی فوج اُن کی پشت پناہی کرتی تھی۔
عراق کے شمالی صوبوں میں فوجی اڈوں کے قیام اور مخالفین کی آزادانہ نقل و حرکت نے عراقی علاقوں اور اُن کی اسٹریٹیجک تنصیبات تک پہنچنا آسان بنا دیا۔ عراقی حکومت کے مخالف گروہوں کی جانب سے عراقی فوج کے خلاف جنگ اور مشترکہ کاورائیوں میں جمہوری اسلامی ایران سے تعاون کے رحجان نے زمینہ فراہم کیا کہ عراقی کردستان کے علاقے میں متعدد آپریشنز انجام دئیے جا سکیں۔ ان کارروائیوں کے اہداف میں عراقی فوج کو مشغول رکھنا، اندرونی علاقوں میں دراندازی، عراق کے دائرہ اختیار کو غیر محفوظ بنانا، جنوبی سیکٹر میں عراقی فوج کے ارتکاز کو روکنا، عراق کی شمالی سرزمین کو آزاد کرانا اور ایرانی کردستان میں امن قائم کرنا تھا۔
سرحد پار کارروائیاں تین طریقوں سے کی گئیں۔ رمضان کیمپ کی طرف سے کچھ کارروائیاں آزادانہ طور پر کی گئیں، لیکن اِن میں انٹیلیجنس یا مخالف گوریلا فورسز کی مدد سے بھرپور استفادہ کیا گیا۔ بعض کارروائیاں عراق مخالف قوتوں نے آزادانہ طور پر کیں اور انہیں رمضان کیمپ کی حمایت سے مستفید ہوئے اور بعض کارروائیاں رمضان کیمپ اور مخالفین نے مشترکہ طور پرانجام دیں۔
رمضان کیمپ کی کمان میں سپاہ کی 9ویں بدر، پاسداران کی اسپیشل 6ویں ڈویژن، 75 ویں ظفر بریگیڈ اور 65ویں ہجرت بریگیڈ شامل تھیں۔ کیمپ کے ساتھ تعاون کرنے والے عراق مخالف گروپوں میں پیٹریاٹک یونین کردستان عراق، ڈیموکریٹک پارٹی کردستان عراق، سید الشہداء فورسز، حزب الدعوہ اسلامی، عوامی جمہوری پارٹی کردستان، حزب اللہ کرد عراق، عراق سوشلسٹ پارٹی، اسلامی موومنٹ عراق، اسلامی امل آرگنائزیشن عراق، سپاہ اسلامی کردستان عراق اور پیشمرگان (کرد مسلحہ گروہ) مسلمان شامل تھے۔
31 اگست 1986 سے 31 جولائی 1988 تک عراق کے اربیل علاقے میں 166 آپریشن کیے گئے۔ چالیس آپریشن مشترکہ طور پر کیے گئے اور باقی آپریشنز آزادانہ یا رمضان کیمپ کے تعاون سے کیے گئے۔
پہلا آپریشن 31 اگست 1986 کو مشترکہ طور پر حیات روڈ پر گھات لگا کر اور دو عراقی فوجی گاڑیوں پر اچانک حملہ کر کے کیا گیا۔ اربیل کے علاقے میں 20 مزید اسی طرح سے گھات لگا کر کاروائیاں کی گئیں۔
اِسی سال 26 اکتوبر کو رمضان کیمپ اور حزب اللہ کرد عراق نے مشترکہ منصوبہ بندی کے تحت عراقی علاقے میں 20 کلومیٹراندر جا کر گوارای بارزان میں تین ٹھکانوں پر حملہ کیا۔ اِسی طرح کی دیگر 81 جارحانہ کاروائیاں کی گئیں۔
4 اپریل 1987ء کو اربیل میں مشترکہ طور پر دراندازی کی پہلی کارروائی کی گئی اور شیروان مازین کے علاقے میں ایک عراقی فوجی اڈے کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس آپریشن کے بعد اِسی علاقے میں دراندازی کی پانچ دیگر کارروائیاں کی گئیں۔
10 اپریل 1987 ء پیشمرگان حزب اللہ کرد عراق اور رمضان کیمپ کی فورسز پر مشتمل ایک ٹیم نے گلی بخمہ سوران کے علاقے میں ایک فوجی اڈے پر حملہ کیا اور اسے نقصان پہنچایا۔ اس کے بعد مزید پندرہ تخریبی آپریشن کیے گئے۔
12 مئی کو عراقی فوج کی دو بٹالینز نے دو دیہاتوں کو تباہ کرنے اور مخالفین کو دبانے کے لیے بالیان کے علاقے کی طرف حرکت شروع کی۔ بالیان اُن علاقوں میں سے ایک تھا جہاں ڈیموکریٹک پارٹی کردستان عراق اور رمضان کیمپ کا بیس تھا۔ بیس کے دستے بالیان کے علاقے سے باہر اسلحہ اور ساز و سامان کے ساتھ صف آراء ہو گئے۔ عراقی فوج جنھیں جلدی تصادم کی توقع نہیں تھی بے خبری میں پھنس گئے اور لڑائی کے بعد پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ یہ پہلا دفاعی آپریشن تھا اور بارہ دیگر دفاعی آپریشن بھی کیے گئے۔
پہلا تخریبی آپریشن 17 مئی 1987ء کو کیا گیا جس کا مقصد عراقی جنگی گاڑیوں کو نشانہ بنانا اور عراقی سرزمین میں پچاس کلومیٹر اندر جا کر اس کی فوج کے عقبی حصے کو غیر محفوظ بنانا تھا۔ حزب اللہ کرد کے پیشمرگان نے کولیکان سے دیانا جانے والی اور سیدکان سے دیانا جانے والی سڑکوں پر بارودی سرنگیں بچھا دیں۔ عراقی فورسز تقریباً پانچ گھنٹے تک اُس بارودی سرنگوں والے علاقے میں پھنسی رہیں اور تین ہلاک اور متعدد زخمیوں کے ساتھ دیانا شہر واپس لوٹ گئیں۔ 18 دیگر تخریبی کارروائیاں بھی کی گئیں۔
1 ستمبر 1987ء کو عراقی کردستان کی پیٹریاٹک یونین کے پیشمرگان نے رانیہ شہر میں ایک بعثی افسر کی نشاندہی کر کے اِس کا پیچھا کیا اور اُسے قتل کر دیا، جو بہت سے عراق مخالفین کی گرفتاری اور سزائے موت کا ذمہ دار تھا ۔ آٹھ مزید جارحانہ کارروائیاں کی گئیں۔
اربیل کے علاقے میں کی جانے والی کارروائیوں کے جواب میں عراقی فوج نے ’جھلسی ہوئی زمین کی پالیسی‘ (Scorched earth policy)اپنا لی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ رہائشی علاقہ جس پر ایرانی فورسز نے قبضہ کیا ہو یا ایرانی افواج کے ساتھ تعاون کیا ہو، اگر ممکن ہو تو اسے ملیا میٹ کر دیا جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو اِسے کیمیائی بموں سے نشانہ بنایا جائے۔
7 فروری 1988ء کو عراقی کردستان پیٹریاٹک یونین اور رمضان کیمپ کی فورسز نے صوبہ اربیل کے جنوب مغرب میں صدام کی گرمیوں کے موسم کے لئے بنائی گئی رہائش گاہ پر حملہ کیا۔ اس آپریشن میں تقریباً 350 افراد مارے گئے، سات سو سے زائد افراد زخمی ہوئے، پچاس افراد پکڑے گئے، اور ریڈار اسٹیشن اور ٹیلی کمیونیکیشن اسٹیشن تباہ ہوئے۔ اگلے دن صدام کے حکم سے بیس کمانڈروں اور مقامی اہلکاروں اور رہائش گاہ میں تعینات بریگیڈ کمانڈر کو پھانسی دے دی گئی۔
6 مارچ کو کرد پیٹریاٹک یونین فورسز اور رمضان کیمپ کے 220 افراد نے اربیل گیریژن (عراق کی 5ویں ڈویژن کا ہیڈ کوارٹر) پر حملہ کیا اور رات کوہی اپنے ٹھکانے پر واپس آ گئے۔
اربیل میں دو سال تک جاری رہنے والی کارروائیوں سے عراقی فوج، اُن کی تنصیبات اور وسائل و امکانات کو شدید نقصان پہنچا۔