آپریشنز
آپریشن والفجر 4
لیلا حیدری باطنی
17 دورہ
آپریشن والفجر 4، 23 ستمبر 1983ء ایران کے مغرب میں صوبہ کردستان پنجوین علاقہ اور عراقی سرزمین میں سلیمانیہ کے شمالی محاذ پر کیا گیا۔ آپریشن کا مقصد وادی شیلر، پنجوین گیریژن پر قبضہ کرنا اور انقلاب مخالف عناصر کی آمد و رفت کے راستوں کو بند کرنا تھا۔
اپریل /مئی 1983ء میں ایرانی فوجی کمانڈر اس نتیجے پر پہنچے کہ بصرہ اور فکہ کے مشرق میں شلمچہ اور زید چوکیوں کے آپریشنل سیکٹر، جو کہ عراق کے شہر بصرہ تک ایرانی فورسز کےمواصلاتی رابطے کا سیکٹر تھا، بند کر دئیے گئے ہیں ، اور ان سیکٹروں میں فوجی نقل و حرکت بہت زیادہ جانی و مالی نقصانات کے ساتھ ہوگی۔ اس لیے انہوں نے پہاڑی محاذ پر آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا۔
1983ء کی سردیوں کے اختتامی مراحل میں والفجر 3 اور 4 آپریشنز کو ڈیزائن اور منظور کیا گیا۔ والفجر 3 کا کامیاب جارحانہ آپریشن 29 جولائی سے 9 اگست 1983ء کو ایلام میں کیا گیا۔ آپریشن کا اہم ترین نتیجہ مہران کی آزادی تھا۔ آپریشن والفجر 4 بھی ستمبر 1983ء میں ایرانی کردستان اور عراق کے درمیان سرحد پر دہانہ شیلر کے علاقے میں انجام پایا۔ آپریشن کی ذمہ داری ارومیہ میں حمزہ سید الشہداء کیمپ کے سپرد کی گئی۔ سپاہ کی طرف سے علی رضا رضاییان اور فوج کی جانب سے کرنل امیر بیگی کیمپ کے کمانڈر تھے۔ عراقی فوج نے یہ جانتےہوئے کہ آپریشن ہونے والا ہے، بانہ اور مریوان شہروں پر بمباری بڑھا دی۔
والفجر4 کا آپریشنل علاقہ مریوان، سردشت اور بانہ شہروں کے درمیان تھا۔ دشت شیلر گہری کھائیوں اور کانی مانگا، سورن، سورکوہ جیسی حساس چوٹیوں، گیریژن اور عراقی شہر پنجوین کی وجہ سے خطے کے اسٹریٹیجک اور اہم مقامات میں سے سمجھا جاتا تھا۔
آپریشن والفجر 4 کا مقصد سورکوہ سے سورن چوٹیوں پر دفاعی لائن کو جوڑنا، سرحدی لائن کو کلیئر کرنا اور مریوان کے مغرب میں قوچ سلطان چوٹیوں کو آزاد کرنا تھا۔ کامیابی کی صورت میں دشت شیلر کے علاقے میں ایران کی دفاعی لائن کو چھوٹا کیا جا سکتا تھا اور فورس کے استعمال میں بچت ہو سکتی تھی۔ نیز اس علاقے سے انقلاب مخالف عناصر کا راستہ بند ہو جاتا اور مریوان دشمن کی فائرنگ رینج سے نکل آتا۔ اِسی طرح شہر اور پنجوین گیریژن اور گرمک پر قبضے اور سلیمانیہ صوبے میں آپریشن کے مقدمات فراہم ہو جاتے۔ آپریشن کے دیگر اہداف میں عراقی سرزمین پر لری، کنگرک، گرمک، مارو، خلوزہ 1 اور2 ، برالہ اور سربرالہ کی چوٹیوں پر قبضہ کرنا تھا۔
آپریشن والفجر 4 کی جنگی تنظیم چار ٹیکٹیکل کیمپوں پر تشکیل دی گئی تھی۔ حمزہ 1 ٹیکٹیکل کیمپ، جس میں سپاہ کی جانب سے 14ویں امام حسینؑ ڈویژن جبکہ فوج کی جانب سے 21ویں حمزہ ڈویژن کی دوسری بریگیڈ مریوان سیکٹر میں پنجوین چوٹیوں پر قبضہ کے لئے مدنظر رکھی گئی۔ حمزہ 2ٹیکٹیکل کیمپ میں سپاہ کی جانب سے 44ویں قمر بنی ہاشمؑ بریگیڈ اور فوج کی جانب سے 28ویں کردستان ڈویژن سے تیسری بریگیڈ مریوان سیکٹر میں مارو، برالہ اور سربرالہ پر قبضہ کرنے کے لئے شامل تھیں۔ حمزہ 3 ٹیکٹیکل گروپ میں سپاہ کی جانب سے 8ویں نجف ڈویژن اور 31ویں عاشورا ڈویژن اور فوج کی جانب سے 28ویں کردستان ڈویژن کی دوسری بریگیڈ کو پہلے مرحلے میں بانہ سیکٹر میں لری، کنگرک اور گرمک چوٹیوں پر قبضے اور دوسرے مرحلے میں کانی مانگا چوٹیوں پر قبضے کے لئے تعین کیا گیا۔ حمزہ 4 ٹیکٹیکل کیمپ میں سپاہ کی جانب سے 25ویں کربلا ڈویژن اور( فوج کی جانب سے) 28ویں کردستان ڈویژن کی پہلی بریگیڈ جن کی تعیناتی کا اعلان آپریشن کی صورتحال کے مطابق کیا جانا تھا۔
والفجر 4 آپریشن کو چار مراحل اور دو سیکٹروں میں انجام دیا گیا۔ پہلا مرحلہ حمزہ سید الشہداء کے مرکزی کیمپ کی کمان میں ’’یا اللہ یا اللہ یا اللہ‘‘ کوڈ کے اعلان سے 19 اکتوبر 1983ء کو ٹھیک رات بارہ بجے (20 اکتوبرکی صبح) شروع ہوا۔
بانہ سیکٹر میں 8ویں نجف ڈویژن نے 31ویں عاشورہ ڈویژن اور 28ویں کردستان ڈویژن کی دوسری بریگیڈ کے ہمراہ لری، گرمک، کنگرک کی اہم چوٹیوں پر قبضہ کر لیا۔ حمزہ 3 ٹیکیکل کیمپ کی فورسز نے بھی جنوب کی سمت پیش قدمی کرتے ہوئے کنگرک چوٹی، شیخ حسن چوٹی اور عراق کی 428 ویں بریگیڈ کے کیمپ پر قبضہ کر لیا اور ڈپٹی بریگیڈ کو اسیر کر لیا۔
مریوان سیکٹر میں 44ویں قمر بنی ہاشمؑ بریگیڈ، 21ویں حمزہ ڈویژن کی تیسری بریگیڈ کے ہمراہ مارو، برالہ، سربرالہ، ہفت توانان اور خلوزہ 1 اور 2 کی چوٹیوں پر قبضے کی غرض سے وارد عمل ہوئی لیکن صرف خلوزہ چوٹی پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو سکی۔ حمزہ 2 ٹیکٹیکل کیمپ نے ہفت توانان کی اصلی چوٹی اور خلوزہ 2 چوٹیوں میں سے ایک چوٹی پر بھی قبضہ کر لیا۔
آپریشن کی دوسری رات، مریوان سیکٹر میں، 14ویں امام حسینؑ، 25ویں کربلا ڈویژنز اور 28ویں کردستان ڈویژن کی پہلی بریگیڈ سہ درختی، تخم مرغی، ہرگنہ چوٹیوں اور زلہ کی حساس اور اہم چوٹیوں (سنگ معدن اور آفندی چوٹی) پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ اِن چوٹیوں پر قبضہ بہت اہم تھا کیونکہ ایک طرف عراقی شہر پنجوین پر مکمل برتری رکھتی تھیں اور دوسری طرف پنجوین نالپاریز اور روکان کی اہم ترین گھاٹی مغربی حصے کی فائرنگ رینج میں واقع تھی۔ حمزہ 4 ٹیکٹیکل کیمپ کی بھی ذمہ داری تھی کہ سربرالہ ، برالہ اور ہفت توانان اور خلوزہ 2 کی باقی چوٹیوں کو کور کرے اور دائیں جانب سے 8ویں نجف ڈویژن کے ساتھ الحاق مکمل کرے۔
اِن علاقوں میں عراقی فوج نے شکست تسلیم کرتے ہوئے اگرچہ زبردست جوابی حملے کیے لیکن اُنہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور جانی نقصان کے علاوہ اُس کی فورسز کے بہت سے افراد گرفتار ہو گئے۔ آپریشن کے تیسرے دن (22 اکتوبر 1983ء) آپریشن کمانڈر نے 14ویں امام حسینؑ ڈویژن کو حکم دیا کہ زلہ اور سید مصطفی چوٹیوں پر قضہ کرے لیکن کچھ مشکلات کی وجہ سے فورسز کو عقب نشینی کرنا پڑی۔
آپریشن کی چوتھی رات، حمزہ 2 ٹیکٹیکل بیس کی فورسز نے بانہ اور مریوان کے دو سیکٹروں کے درمیان چوٹیوں اور علاقے کو کلیئر کیا اور دونوں سیکٹروں کو ملاتے ہوئے اگرچہ خلوزہ 2 اور پنجوین کے اطراف کی چوٹیاں اُسی طرح دشمن کے قبضے میں رہیں لیکن آپریشن کے پہلے مرحلے کے اختتام کا اعلان کر دیا گیا۔
کمانڈروں کی منصوبہ بندی کے مطابق آپریشن کے پہلے مرحلے میں حاصل نہ ہونے والے مقاصد کو لازماً دوسرے مرحلے میں مکمل کیا جانا تھا۔ لہٰذا بانہ سیکٹر میں 31ویں عاشورا ڈویژن نے عراقی فوج کی دو بٹالین کو تباہ اور خلوزہ اور کلو چوٹیوں پر قبضہ کر لیا۔ 8ویں نجف ڈویژن بھی 31ویں عاشورا ڈویژن کی فورسز کی مدد سے جنوب میں کنگرک اور گرمک چوٹیوں کی جانب پیش قدمی میں کامیاب ہو گئی۔ مریوان سیکٹر میں بھی 14ویں امام حسینؑ اور 41ویں ثار اللہ ڈویژنز نے دشمن کے آٹھ ٹینکوں کی تباہی، سید مصطفی چوٹی اور سنگ معدن اور اصلی چوٹی کے کچھ حصے پر قبضہ کر لیا لیکن یہ دوبارہ دشمن کی فوجوں کے قبضے میں چلے گئے۔
24 اکتوبر 1983ء کو 31ویں عاشورہ، 41ویں ثار اللہ اور 14ویں امام حسینؑ ڈویژنز نے متوقع اہداف کو حاصل کیا اور بانہ سیکٹر میں کنگرک کے علاقے سے مریوان سیکٹر میں کلو اور ولیاوہ علاقوں تک پشتہ تعمیر کیا۔ 26 اکتوبر کو ایک سخت لڑائی کے بعد سویی کے مغربی آپریشنل علاقے میں اہم ترین چوٹیوں 1470 اور 1530 اور دوسری طرف پنجوین کے شمال مشرق میں ہرگنہ کی جنوبی چوٹی کو آزاد کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ پنجوین شہر رہائشوں سے خالی اور فوجی گیریژن میں تبدیل ہو چکا تھا اور عراقی فوج نے آپریشن والفجر 4 سے آگاہ ہوتے ہوئے اِس کے ایک بڑے حصے کو تباہ کر دیا تاکہ اِسے ایرانی فورسز کے ہاتھوں میں جانے سے بچایا جا سکے۔ حمزہ سید الشہداء کیمپ کے کمانڈر علی رضاییان 25 اکتوبر کو شہید ہو گئے۔
3 نومبر 1983ء کی صبح، کانی مانگا چوٹیوں پر قبضے کے لئے اور اُس کے مغرب میں سڑک کے کچھ حصے کو کلیئر کرنے کے لئے والفجر 4 آپریشن کے تیسرے مرحلے کا حکم جاری کیا گیا۔ابتداء میں 31ویں عاشورہ ڈویژن نے شیخ گزنشین چوٹی کے کچھ حصے پر قبضہ کر لیا۔ 27ویں محمد رسول اللہﷺ ڈویژن بھی اگرچہ 1866 چوٹیوں، شاخ تارچر اور دو اہم چوٹیوں 1904 اور 1900 پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئی لیکن متعدد بار ردو بدل ہونے کے بعد یہ چوٹیاں دوبارہ عراقی قبضے میں چلی گئیں۔ اِس کے باوجود 4 نومبر تک ایرانی فورسز پہلے سے مقررہ اہداف میں سے کافی حد تک حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں اور 14ویں امام حسینؑ ڈویژن نے شیخ گزنشین کی مغربی چوٹی پر قبضہ کرنے اور دشمن کی کمانڈ پوسٹ تباہ کرنے کے ساتھ اپنا مشن ختم کر دیا۔ اگلے چند گھنٹوں میں 27ویں محمد رسول اللہﷺ ڈویژن مقررہ اہداف تک پہنچ گئی اور 17ویں علی بن ابیطالب ؑ ڈویژن نے بھی کانی مانگا کے مغرب میں سڑک کو کلیئر کر دیا۔ قبضوں کے نتیجے میں سڑک کے جنوب میں شیخ گزنشین چوٹی کی جانب ایرانی فورسز کی پیش قدمی اور فورسز کے لاجسٹک مسائل کا حل تھا۔
5 نومبر کو 1904 اور 1900 چوٹیوں پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لئے 27ویں محمد رسول اللہﷺ ڈویژن کے ٹھکانوں پر عراقی فوج کے حملے بڑھ گئے اور آٹھ گھنٹے کی کوشش کے بعد وہ چوٹیوں پر دوبارہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ لہذا 17ویں علی بن ابی طالبؑ ڈویژن کے دستے کو اِس پہاڑی کی بعض مغربی چوٹیوں پر قبضے کے لئے کانی مانگا کے مغرب میں سڑک پر پیش قدمی کرنے پر مامور کیا گیا لیکن عراقی فوج کی طرف سے سخت مزاحمتی حملوں کا سامنا کرنا پڑا اور وہ پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس طرح والفجر 4 آپریشن کا تیسرا مرحلہ اختتام پذیر ہوا۔
والفجر 4 آپریشن کا چوتھا اور آخری مرحلہ 19 نومبر 1983ء کو رات ساڑھے نو بجے شروع ہوا۔ اِس مرحلے میں حمزہ 1 ٹیکیکل کیمپ کے ایجنڈے میں کانی مانگا چوٹیوں، اِس کے مشرق و مغرب میں چوٹیوں ، شاخ تارچر پہاڑی کی دو مغربی چوٹیوں، روکان گھاٹی، سنگ معدن چوٹی پر قبضے اور اِسی طرح کانی مانگا کے غرب سے کلز کے علاقے تک پیش قدمی شامل ہوئی۔ عراقی فوج نے تیسرے اور چوتھے مرحلے کے دوران وقفے میں تباہ شدہ یونٹوں کو علاقے سے نکالا اور نئے یونٹوں کو علاقے میں داخل کیا۔ عراقیوں کی ہوشیاری اس بات کا باعث بنی کہ پیش قدمی کی رفتار سست رہے۔ اگرچہ ابتداء میں چوٹیوں پر قبضہ ہو گیا لیکن دشمن کی شدید گولہ باری اور بڑی تعداد میں پیادہ دستوں کی آمد اس مرحلے پر ایران کی ناکامی کا سبب بنی۔
کمانڈروں نے آپریشن کے بعض حصوں کی ناکامی کی وجوہات کے طور پر کئی یونٹوں کے درمیان اہداف کی تقسیم، گہری منصوبہ بندی نہ ہونے اور یونٹوں کے درمیان ناہم آہنگی کو قرار دیا۔ جاسوسی کے لئے درکار وقت کی کمی اور موجودہ طریقوں کی تکرار بھی اِس ناکامی میں بے اثر نہیں تھے۔ اس لئے عراق کی جانب سے اسٹریٹیجک چوٹیوں کی حفاظت میں شدید مزاحمت اور موسم سرما کے آغاز کی وجہ سے 21 نومبر 1983ء کو آپریشن کے خاتمے کا اعلان کیا گیا۔
عراقی فوج نے اس آپریشن میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا اور 23 اکتوبر سے آپریشنل علاقے میں تقریباً توپوں کےبیس کیمیائی گولے داغے ۔ 25 اکتوبر کو نیز بانہ کے کئی دیہاتوں میں جو والفجر 4 آپریشنل علاقے کے قریب تھے، کیمیائی بمباری کی ۔
والفجر 4 آپریشن کی کامیابیوں میں کانی مانگا چوٹیوں پر قبضہ برقرار رہنے کو سامنے رکھتے ہوئے، مقبوضہ علاقوں سے تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کی آزادی، ماریوان کے مغرب میں قوچ سلطان چوٹی کی آزادی، سورن چوٹیوں کی سورکوہ سے الحاق، شیلر وادی کے وسیع علاقے پر قبضہ، انقلاب مخالف آمد و رفت کے راستوں کو بند کرنا اور عراقی شہر پنجوین اور متعدد دیہاتوں پر برتری کی جانب اشارہ کر سکتے ہیں۔
والفجر آپریشن کے تسلسل میں آپریشن والفجر 5، 16 فروری 1984ء کو صوبہ ایلام کے چنگولہ سیکٹر میں کیا گیا۔