آپریشنز
آپریشن فتح 3
اعظمسادات حسینی
17 دورہ
اکتوبر نومبر 1986ء میں، رمضان کیمپ کی کمان میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی فورسز نے کردستان ڈیموکریٹک پارٹی عراق کے تعاون سے عراقی سرزمین میں تین سو کلومیٹر گہرائی میں زاخو -دھوک کے علاقے میں آپریشن فتح 3 انجام دیا۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے، جلال طالبانی کی قیادت میں پیٹریاٹک یونین کردستان عراق کے قریب ہو کر اور رمضان کیمپ کی تشکیل کے بعد، عراقی سرزمین پر غیر منظم فعالیت کی منصوبہ بندی کی اور فتح کی غیر منظم کاروائیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا۔
پہلا آپریشن فتح 1 تھا، جو11 اکتوبر 1986ء کو عراقی سرزمین میں 150 کلومیٹر کی گہرائی میں کرکوک کے تیل کی تنصیبات ، فوجی اور جاسوسی کے اڈوں پر حملہ کرنے اور عراقی تیل کی برآمد میں خلل ڈالنےکے ہدف کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد 26 اکتوبر 1986ء کو عراقی کردستان کے شہر دوکان میں دفاع مقدس کے محاذوں کے شمالی سیکٹر میں فتح 2 آپریشن کیا گیا۔ کچھ دنوں بعد 15 نومبر 1986ء کو آپریشن فتح 3 کیا گیا، جس کا مقصد عراقی سرزمین میں گھسنا اور اِسی شمالی محاذ میں عراقی امدادی مراکز اور بیس کو نقصان پہنچانا تھا۔
یہ آپریشن تین سیکٹر زاخو، دشت اربیل اور موصل میں کیا گیا اور ایرانی فورسز کی فتح کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ عراق کی ڈیموکریٹک پارٹی کی فورسز، بارزانی فوجیوں پر شامل تھیں اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی غیر منظم جنگوں کے کیمپ کی فورسز نے آپریشن فتح 3 کے پہلے مرحلے میں زاخو سیکٹر میں عراق کے 38ویں ڈویژن کی قیام گاہ کو موجود افراد سمیت تباہ کر دیا۔یہ ٹھکانہ تلگبر کے علاقے میں تھا کہ جو عراق سے ترکی تک بین الاقوامی سڑک اور تیل کی پائپ لائنوں کی حفاظت کا ذمہ دار تھا۔ ایرانی فورسز نے زاخو سیکٹر میں اِس شہر کا محاصرہ کر کے گل اسپی وادی اور اِس کے ساتھ ملحقہ بلند چوٹیوں پر عراقی پوزیشنوں پر شدید حملے کیے جو عراقی سرزمین میں تھے۔
اس آپریشن کے دوسرے مرحلے میں، جو 17 نومبر 1986ء کو انجام دیا گیا، ایرانی فورسز نے عراق-ترکی ٹرانزٹ روڈ کو بلاک کرکے اس اہم سڑک کو مکمل طور پر کنٹرول کرتے ہوئے عراقی فورسز کے ساتھ لڑائی شروع کر دی، اور کئی ٹینکوں، عملے کی گاڑیوں کو تباہ اور متعدد افراد کو ہلاک اور زخمی کرنے کے علاوہ زاخو شہر کو عارضی طور پر محاصرے میں لینے کے قابل ہو گئے۔ اس محاصرے کے دوران عراقی کرد فورسز نے دراندازی اور وسیع آپریشن میں شہر میں داخل ہو کر ایندھن کے ٹینک،پیٹرول اسٹیشن، کسٹم، اڈےاور تیل کی لوڈنگ کے اسٹیشن سمیت اہم سرکاری مراکز کو تباہ کر دیا۔ زاخو کے محاصرے کے لئے ایرانی فورسز کی موجودگی میں، عراقی طیاروں نے اس شہر پر بمباری کی جس کے نتیجے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک اور زخمی ہوئی۔ اس کے بعد رمضان کیمپ کے مجاہدین نے عراقی کرد فورسز کے ساتھ مل کر زاخو کے ارد گرد اسکیلہ وادی کو بند کردیا اور اس وادی میں واقع تمام عراقی فوجی اڈوں کو اہلکاروں سمیت تباہ کر دیا۔ موصل سیکٹر میں بھی عراقی فوج کی ایک قیام گاہ ایرانی فورسز کے محاصرے میں آگئی اور اِس قیام گاہ کی تباہی کے دوران اِن میں مقیم کئی عراقی فوجی جن میں دو افسر بھی دیکھے جا سکتے تھے، مارے گئے۔ یہ آپریشن دو دن تک جاری رہا اور اربیل سیکٹر میں اس کا پھیلاؤ زیادہ ہوگیا۔ دشت اربیل کے علاقے میں آپریشن کے دوران ایک عراقی گنر ہیلی کاپٹر کو بھی مار گرایا گیا۔
اس آپریشن میں عراقی بیس پر موجود پانچ سو سے زائد فوجی ہلاک، زخمی اور گرفتار ہوئے۔ متعدد ٹینک، بکتر بند گاڑیاں اور 20 فوجی گاڑیاں بھی تباہ ہوئیں، اس کے علاوہ عراق کے حی صدام شہر کے فوجی اور حکومتی مراکز کو عمومی نقصان پہنچا اور دھوک شہر میں بھی کچھ حکومتی مراکز کو بھی کلی طور پر نقصان پہنچا۔