آپریشنز
آپریشن کربلا 4
اعظمسادات حسینی
15 دورہ
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی زمینی فورس نے 1986ء میں دریائے اروند کے مغرب میں (خرمشہر کے جنوب میں) شلمچہ کے آپریشنل علاقے میں آپریشن کربلا 4 کو ڈیزائن کیا اور انجام دیا۔
1986ء کے شروع میں آپریشن والفجر 8 کے انجام دینے اور اِس کی کامیابی کے بعد، جمہوری اسلامی کے حکام نے فیصلہ کیا کہ ملک کی تمام فورسز اور وسائل کو ہم آہنگ اور تیار کر کے وسیع پیمانے پر آپریشن کیا جا ئے اور جنگ کا کام تمام کر دیں۔ اس لئے سال 1986ء کو جنگ کی تقدیر کا نام دیا گیا ۔سال کی ابتداء میں ابو الخصیب اور بصرہ کے مشرق میں بڑے پیمانے پر آپریشن کو ڈیزائن کرنا سپاہ پاسداران کے ایجنڈے میں شامل ہو گیا۔ آپریشن کے فائنل ڈیزائن اور حکمت عملی کی منظوری 27، 28 اور 29 ستمبر 1986ء کو ہونے والے اجلاس میں دی گئی۔ اِن کاروائیوں کو تقدیر بدلنے والے آپریشن کا نام دیا گیا۔
آپریشن کربلا 4 کے لئے ایران کے جنوب مغربی اور عراق کے جنوب مشرقی، شلمچہ کےآپریشنل علاقے کا انتخاب کیا گیا۔ یہ علاقہ بصرہ کے جنوب مشرق میں واقع ہے اور شمال میں زید کے سیلاب زدہ علاقے، مشرق میں خرمشہر، جنوب میں دریائے اروند اور اروند صغیر جبکہ مغرب میں زوجی نہر اور عراقی شہر تنومہ اور الحارثہ سے ملتا ہے۔
اس آپریشن کے اہداف میں ایران کے لیے بہتر سیاسی اور عسکری پوزیشن پیدا کرنا، اروند کے مغربی علاقے میں عراقی فورسز کو تباہ کرنا، رہائشی علاقوں پر عراقی حملوں کا جواب دینا، آبادان اور خرمشہر کے شہروں پر عراقی گولہ باری کرنے والی پوزیشنوں کو حاصل کرنا، بصرہ اور عراق کی حساس تنصیبات اور بندرگاہوں تک رسائی پیدا کرنا، ابو الخصیب کے علاقے پر قبضہ اور جزیرہ نما فاو میں ٹھہری ہوئی فورسز کا محاصرہ کرنا اور جنوب کی طرف سے بصرہ کے لئے خطرہ پیدا کرنا شامل تھے۔
سپاہ پاسداران نے اِس آپریشن کے انجام دینے کے لئے 1500 بٹالین فورس کی درخواست کی تاکہ تین علاقوں ھور، بصرہ کے مشرق اور ابو الخصیب کی طرف سے عراقی فورسز پر حملے کیے جا سکیں۔ اِس تعداد میں فورسز(تقریباً ساڑھے لاکھ) فراہم کرنا ممکن نہیں تھا اور آپریشن کے لئے تین سو بٹالین تیار ہوگئیں۔ اِن فورسز کو ایک لاکھ افراد پر مشتمل سپاہ محمدﷺکے طور پر منظم کیا گیا اور تہران کے آزادی اسٹیڈیم میں اِن ایک لاکھ افراد کو جمع کرنےکے بعد، 3 دسمبر 1986ء کو آپریشن کے لئے مطلوبہ علاقے میں بھیج دیا گیا۔
جنگ کی تقدیر کا تعین کرنے کے لئے ملکی وسائل اور بڑے پیمانے پر تشہیر کی دس ماہ بھرپور کوشش انجام دینے کے بعد، ایسی صورت حال میں جب ملک کے صنعتی، اقتصادی وسائل اور پانی اور بجلی کےمراکز عراق کی شدید بمباری کا نشانہ بن رہے تھے، آپریشن انجام دینے کا حکم صادر کر دیا گیا۔ آپریشن انجام دینے کی ذمہ داری سپاہ پاسداران کے چار کیمپوں، نوح (بائیں طرف کو محفوظ بنانے اور جزیرہ مینو کے سامنے پیش قدمی کرنے کے لئے)، کربلا (جزیرہ ام الرصاص کے سامنے دشمن کے جوابی حملے کا مقابلہ کرنے کےلئے، آس پاس کی سڑکوں کی طرف پیش قدمی کرنے اور پورے آپریشنل علاقے کو محفوظ بنانے کے لئے)، قدس (آبی گزرگاہ سے عبور کرنے کےلئے اور پیٹروکیمیکل اور ابو الخصیب کے علاقوں میں پیش قدمی کرنے کے لئے) اور نجف (شلمچہ میں پانچ ضلعی علاقے کے شمال سے بوارین جزیروں اور ام الطویلہ تک آپریشن کرنے کے لئے) کے پاس تھی اور فوج کی زمینی فورسز کے کئی یونٹس فرنٹ لائنز پر اور فوج کی ایوی ایشن فورس بھی آپریشن میں مدد کے لئے شریک تھی۔
آپریشن کوڈ کے اعلان سے پہلے، 24 دسمبر 1986ء کو رات نو بجے قدس کیمپ کے سیکٹر میں دریائے اروند میں غوطہ خوروں کو بھیجا گیا لیکن دشمن کی فورسز نے اُنہیں مشین گنوں کے ذریعے نشانہ بنایا۔ شواہد اور قرائن سے بتا رہے تھے کہ عراق آپریشن سے باخبر تھا اور اِس نے آپریشن کا سب سے اہم راستہ یعنی ام الرصاص کے دونوں طرف پانی کے کم گہرائی والے کناروں کو جنہیں آبنائے آپریشن کہا جاتا تھا، بند کردیا تھا۔ البتہ نوح، کربلا اور نجف کیمپوں کے سیکٹروں میں دشمن کی حرکت نہ ہونے کی وجہ سے حالات معمول کے مطابق نظر آ رہے تھے۔
یہ آپریشن 24 دسمبر 1986ء رات ساڑھے دس بجے یا محمد ﷺ کے کوڈ سے شروع ہوا۔
عراق کی ہوشیاری صرف ایرانی فورسز کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے پر انحصار نہیں کرتی تھی بلکہ امریکی جاسوسی نظام سے موصول ہونے والی معلومات پر زیادہ انحصار کرتی تھی۔ اس تعاون کا انکشاف امریکی حکام نے اس وقت کیا جب 90 کی دہائی کے آخر میں عراقی فوج کے کویت پر قبضے پر امریکہ اور عراق کے درمیان تنازعہ عروج پر تھا۔ عراقیوں نےآپریشن کربلا 4 کے ساتھ اپنے تصادم کو "عظیم دن" کی جنگ قرار دیا تھا۔
ہر جانب حملے کے آغاز کے ساتھ ہی نجف، قدس، نوح اور کربلا کیمپ کے سیکٹروں میں فورسز نے پیش قدمی کی اور اپنے اہداف پر قبضہ کر لیا۔ لیکن کربلا کیمپ کے سیکٹر میں جزیرہ بلجانیہ پر 14ویں امام حسینؑ ڈویژن کی فورسز میدان میں نہیں اتر سکیں۔ قدس کیمپ بھی جزیرہ ماہی کے کنارے کو کلیئر کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا البتہ جزیرہ ام الرصاص میں کربلا کیمپ کی فورسز پیش قدمی میں کامیاب ہو گئیں۔ شلمچہ کے علاقے میں حالات بہتر تھے اور نجف کیمپ کے تحت یونٹوں سے 19ویں فجر ڈویژن پانچ ضلعی علاقے میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی اور 57ویں حضرت ابو الفضل ؑ ڈویژن بھی پیش قدمی میں کامیاب ہو گئی۔ نوح کیمپ کی 33ویں المہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف بریگیڈ جزیرہ مینو میں بہت مشکل سے کربلا کیمپ کی 32ویں انصار الحسینؑ بریگیڈ سے ملنے میں کامیاب ہوئی۔نوح کیمپ سے 7ویں ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ڈویژن جزیرہ سہیل میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی۔
25 دسمبر کی صبح 2 بجکر 10 منٹ پر کربلا کیمپ سے انصار الحسین علیہ السلام بریگیڈ اور نوح کیمپ سے 33ویں المہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف بریگیڈ کے نامناسب حالات کی اطلاع ملی۔ اس کے بعد کربلا کیمپ کی 8ویں نجف اشرف ڈویژن بھی مشکلات میں گھِر گئی۔ 3 بج کے 17 منٹ پر 7ویں ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ڈویژن نے بھی اعلان کر دیا کہ جزیرہ سہیل کے کچھ علاقے کو کلیئر کرنے کا امکان نہیں ہے۔ دیگر کیمپوں میں بھی حالات سازگار نہیں تھے اور مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں ہو سکا ۔
اس آپریشن میں پہلی بار شلمچہ میں عراقی لائن توڑ دی گئی تاہم آپریشن جاری رکھنا ممکن نہیں ہو سکا۔ فورسز کی صورتحال اور اہداف کے حصول میں ناکامی کی وجہ سے 25 دسمبر رات 11 بج کے 45 منٹ پر آپریشن روکنے کا حکم جاری کر دیا گیا۔
آپریشن کربلا 4 کی قسمت کا تعین کرنے والے بہت سے عوامل میں سے دو عوامل دوسروں کے مقابلے میں زیادہ فیصلہ کن تھے: امریکی جاسوسی ایجنسی سے موصول ہونے والی معلومات کے ذریعے آپریشن کا انکشاف اور عراق کی جانب سے آپریشن والفجر 8 کے خلاف ناکامی سے حاصل ہونے والے تجربے کا استعمال جسے ایرانی فورسز نے کامیابی سے فاو میں انجام دیا تھا۔
عراقی بصرہ پر قبضہ کرنے کے حوالے سے اتنے وسیع پیمانے پر ہونے والے آپریشن کو سامنے رکھتے ہوئے چاہتے تھے کہ عراقی فتح پر زور دیں لیکن اس کے باوجود کہ آپریشن کربلا 4 اہداف کے اعتبار سے بہت بڑے پیمانے پر ہونے والا آپریشن تھا، لڑائی کے محدود وقت ہونے کی وجہ سے بہت سی سیاسی اور فوجی تقاریب میں اِن کاروائیوں کو ایران کی آخری بڑی کاروائیاں نہیں سمجھا گیا۔
آپریشن کربلا 4 میں ایرانی فورسز کے 985 افراد شہید ہوئے جبکہ 8071 افراد زخمی ہوئے۔
آپریشن کربلا 4 کے اہداف حاصل نہ ہو سکنے کے بعد، جمہوری اسلامی ایران کے حق میں سیاسی اور فوجی جنگی برتری کو برقرار رکھنے اور لڑائی کے محاذ کو ٹھنڈا ہونے سے بچانے کے لئے، آپریشن کربلا 5 ڈیزائن کیا گیا اور 9 جنوری کو انجام دیا گیا۔
سال 2015، مئی کے دوسرے ہفتے کے آخر میں آپریشن کربلا 4 کے 175 غوطہ خوروں کی لا شیں عراق کے ابوفلوس گاؤں سے تلاش کےدوران ملیں جنہیں ایران منتقل کیا گیا۔ شواہد کے مطابق یہ مجاہدین ، اِس حال میں کہ جب اِن میں سے اکثر زخمی تھے، فرنٹ لائن سے آگے دشمن کے ہاتھوں قید ہو گئے اور اِن کے جسم جن کے ہاتھوں اور بعضوں کے پاؤں کو باندھا گیا تھا، ایک اجتماعی قبر میں دفن کیا گیا تھا۔
سال 2018ء میں آپریشن کربلا 4 کی برسی کے موقع پر، محسن رضائی، سیکرٹری مجمع تشخیص مصلحت نظام اور سپاہ پاسداران کے سابقہ کمانڈر نے سائبر اسپیس ( انٹرنیٹ۔سوشل میڈیا) پر لکھا کہ آپریشن کربلا 4 دشمن کو دھوکہ دینے کے لئے انجام دیا گیا تھا۔ اِس پوسٹ کے مقابلے میں مختلف ردعمل سامنے آئے اور محسن رضائی نے اُن کے جواب میں کہا کہ اُن کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آپریشن شروع ہونے کے 24 گھنٹے بعد یہ آپریشن ایک دھوکہ دینے والے آپریشن میں تبدیل ہو گیا تھا۔نیز آپریشن کربلا 4 میں 41 ثار اللہ ڈویژن کے کمانڈر، میجر جنرل قاسم سلیمانی نے کہا کہ آپریشن کربلا 5 کے انجام دینے کے بعد دشمن کو یہ لگا کہ آپریشن کربلا 4 ایک دھوکہ دینے والی کاروائی تھی۔
راہیان نور کے کاروانوں کی زیارت کے لئے دریائے اروند کے کنارے آپریشنل علاقے میں شہداء کی یاد میں آپریشن کربلا 4 کی یادگار بنائی گئی ہے۔