آپریشنز

آپریشن قدس 1

محمد علی عباسی اقدام
17 دورہ

آپریشن قدس1، محدود قدس کاروائیوں کے سلسلے کا پہلا آپریشن تھا جو 14 جون 1985ء (عالمی یوم قدس کے موقع پر) کو سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی کمان میں اور خیبر اور بدر کے آپریشنل علاقے کے شمال، ہور الہویزہ کے علاقے میں شروع کیا گیا اور 17 جون 1985ء کو ختم ہوا۔

بدر آپریشن کی اہمیت اور خصوصیات نے عراق کو مختلف ردعمل ظاہر کرنے پر مجبور کیا۔ اس معنی میں کہ آپریشن کے ساتھ ہی اس نے تہران پر اپنے فضائی حملے شروع کر دیے۔ عراقی فوج کا نئے جہتوں میں مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں عوام کی سرگرم موجودگی اور اُن میں مزاحمت کے جذبے کو بڑھانے کی ضرورت تھی ور دوسری طرف اُسی جیسے مقابلے کی ضرورت بھی لازم ہو گئی تھی۔ پس امام خمینی قدس سرہ الشریف کے اِس قول کے مطابق کہ ’’دنیا سے فتنے کے خاتمے تک جنگ لڑی جائے گی‘‘، دفاع کی سپریم  کونسل میں اُن کے نمائندے آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی نے تہران کے نماز جمعہ میں تجویز پیش کی کہ یوم القدس کو عراق کے ساتھ مقابلے اور جنگ کے حامی مارچ کریں تاکہ جنگ کے بارے میں عوام کی رائے واضح ہو سکے۔ عراقی حکومت کی جانب سے عوام پر بمباری کرنے کی بار بار دی جانے والی دھمکیوں کے باوجود قدس کے دن مارچ ہوا اور اسی دوران سپاہ کے مجاہدین نے ہور الہویزہ کے علاقے میں آپریشن قدس1 شروع کر دیا۔

بدر آپریشن کا بنیادی ہدف بصرہ –عمارہ کے درمیان اسٹریٹجک روڈ کو بلاک کرنا تھا جو  اِس آپریشن میں ناکامی کی وجہ سے اِس سڑک پر قبضہ اور ہور الحمار میں موجودگی اب بھی کمانڈروں کے پیش نظر تھی۔ دوسری جانب قلیل مدت میں مذکورہ اہداف کے حصول کے لیے دیگر آپریشنز پر عمل درآمد ممکن نہیں تھا۔ اس وجہ سے ھور میں زیادہ موجودگی اور بصرہ-عمارہ روڈ  کے قریب جانا ایجنڈے میں شامل تھا۔ ھور کے اس علاقے میں، جو البیضاء کے شمال سے دریائے دجلہ تک جاری ہے، بصرہ –عمارہ روڈ  کے نزدیک ہونے کے لئے بہترین سیکٹر کے طور پر ابوذکر اور ابو لیلیٰ  چوکیوں کو منتخب کرنے اور قبضہ کرنےکے لئے تشخیص دیا گیا۔

 

قدس1 آپریشن کو  ابوذکر اور ابو لیلیٰ چوکیوں پر قبضہ کرنے، اس سیکٹر میں آپریشن جاری رکھنے کے لیے مناسب قدم جمانے، دفاعی لائن کی مرمت، دفاعی لائن کو دجلہ کے قریب لانے  اور بصرہ-عمارہ روڈ پر گولہ باری کے امکان  کے مقاصد  کے لئے ڈیزائن کیا گیا اور صوبہ مازندران میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی 25ویں کربلا ڈویژن کو یہ آپریشن  انجام دینے کی  ذمہ داری سونپ دی گئی۔ مشن کی اطلاع کے بعد اس ڈویژن کی انٹیلی جنس فورسز نے مسلسل اور سنجیدگی کے ساتھ علاقے کی شناخت پر کام شروع کردیا۔ آپریشن کے لیے چار اہم اہداف کی نشاندہی کی گئی: ابو ذکر چوکی، ابو لیلیٰ گاؤں، مختار جھیل اور دشمن کی پشت پر محافظ بنکر۔آبنائے صف، خیطہ، معارج اور اعظم کے چار سیکٹروں  سے شناخت کا کام کیا گیا۔  آپریشن کے علاقے میں فورسز کے کام اور کنٹرول کی پیشرفت کے لئے یہ طے ہوا کہ ہر ہدف کے لئے دو کراسنگ شناخت کر لئے جائیں اور آٹھ کراسنگ تک شناخت کا کام جاری رکھا جائے۔

25ویں کربلا ڈویژن نے علاقے  کی حفاظت اور اِس میں فعال موجودگی کے امکان، اپنی فورسز کی تربیت اور تجربے کو بڑھانے کےلئے علاقے میں دفاعی لائن تشکیل دی اور فورسز کی چار بٹالین کو تعینات کر دیا۔ ہر بٹالین کی ذمہ داری تھی کہ کسی لڑائی کے بغیر خود کو دشمن کی پوزیشنوں کے نزدیک کریں۔ لہٰذا فورسز نے کسی جھڑپ یا کمین لگائے بغیر عراقیوں کے سامنے موثر پیش قدمی کی، اس طرح کہ بعض سیکٹروں میں پوزیشنوں سے ایک سے دو کلومیٹر فاصلے تک پہنچ گئے۔

اس علاقے میں عراقی فوج کی پوزیشنیں اور رکاوٹیں مختلف نوعیت کی تھیں۔ فوگاس بیرل (ناپالم) اور گول خاردار تاریں اِن رکاوٹوں کی مثالیں تھیں۔ عراقیوں نے ابوذکر چوکی کے آس پاس اور اُس کے گرد خشک زمین پر متعدد خندقیں بنا رکھیں تھیں۔ اِسی طرح مختار جھیل پر، خندق کے علاوہ ا  کیموفلاج  موبائل بھی موجود تھیں جو زگزیگ کرتے ہوئے ایک دوسرے کو کور دیتے تھے اور ابوذکر چوکی کو محفوظ بنانے میں یہ  ایک موثر عنصر شمار ہوتا تھا۔

14 جون 1985ء بروز جمعہ کو جب ملک بھر میں قدس کے عالمی دن کے موقع پر لوگوں نے مارچ کیا،ہم زمان  عراقی فوج کی طرف فورسز کی نقل و حرکت شروع ہو گئی۔ رات 9 بجے کربلا کی 25ویں ڈویژن کے کمانڈر نے آپریشن کو  ’’یا محمد رسول اللہ، یا اللہ، یا اللہ، قد تری انا فیہ ففرج عنی یا کریم، اللہ اکبر‘‘  کوڈ پڑھتے ہوئے آپریشن شروع کرنے کا حکم  جاری کیا۔ اس کے بعد تمام سیکٹروں کے کمانڈروں نے اپنی کارروائیاں شروع کر دیں۔

آپریشن کے علاقے کو دو سیکٹروں میں تقسیم کیا گیا اور طبر اور علی نہر دو بیس اُن کے لئے مشخص کردئیے گئے۔ علاقے اور دشمن کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے یہ طے پایا کہ مجاہدین کی پانچ بٹالینز عملی طور پر حصہ لیں گی۔ پہلے سیکٹر کا راستہ طبر سے آبنائے کسر، ترابہ چوکی اور آبنائے نہروان پر  ختم ہوتا تھا۔ دوسرے سیکٹر کا راستہ بھی علی نہر سے آبنائے صف اور وہاں سے ابوذکر اور ابو لیلیٰ چوکی تک پہنچتا تھا۔

آپریشن کی حمایت کے لیے، ایئر ڈیفنس یونٹ نے چار 14.5 ملی میٹر طیارہ شکن بندوقیں نصب کرنے کے لئے  آبنائے نہروان، مختار جھیل، آبنائے معارج اور آبنائے صف-خیطہ کو مدنظر رکھا ہوا تھا۔ لشکر کے سازوسامان یونٹ نے چار چھوٹی کاتیوشا(میزائل لانچر)، 23  لائٹ  اور ہیوی مشین گنیں اور تین 106 ملی میٹر توپیں صف، ترابہ، مشروع اور مختار کے پانی کے تالابوں اور راستوں میں تیرتی ہوئی حالت میں  فورسز کی موثر مدد کے لئے مخصوص تھیں۔  

قدس کے محدود آپریشنز کے سلسلے کا پہلا آپریشن تین دن کی لڑائی کے بعد ختم ہوا۔ اس آپریشن میں عراقی قبضے میں تقریباً 200 مربع کلومیٹر کا علاقہ ایرانی جنگجوؤں نے فتح کر لیا۔ عراق کی دوسری حطین بریگیڈ کی ایک پوری بٹالین تباہ ہو گئی اور اس بریگیڈ کو شدید نقصان پہنچا۔ مجموعی طور پر، تقریباً 200 عراقی فوجی ہلاک، 200 زخمی، اور 100 کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے علاوہ عراقی فوج کی پندرہ کشتیاں، ایک PC7 طیارہ اور دو ہیلی کاپٹر تباہ ہو گئے۔چار  طیارہ شکن توپیں ، چھ مارٹر اور تیس پانی پر تیرنے والے پل کے قطعات اِس آپریشن کی غنیمت میں شامل ہیں۔ آپریشن قدس1 میں مجاہدین کے چالیس افراد شہید، تیس زخمی اور ھور کے علاقے میں تین لاپتہ ہو ئے۔