مفاہیم اور اصطلاحات

کیمیائی جنگ

ندا مراد
26 دورہ

عراق کی جانب سے ایران پر مسلط کی گئی جنگ میں عراقی  کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو ’’کیمیائی جنگ‘‘ کا نام دیا گیا۔

جنگ ایک جارحانہ فوجی کارروائی ہے[1] اور اس کی کئی اقسام ہیں جن میں سے ایک کا نام " کیمیائی جنگ" ہے۔ اس جنگ میں ایسے ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں جن میں کیمیائی عوامل شامل ہوں۔[2]کیمیائی عامل وہ مرکبات ہوتے ہیں جو انسان، جانور، پودے یا اشیا میں مہلک، ضرررساں یا مفلوج کنندہ اثرات پیدا کرتے ہیں۔ ان میں مفلوج کنندہ عوامل مثلاً آنسو گیس سی ایس (CS)، ضرررساں یا چھالہ پیدا کرنے والے عوامل جیسے گیس خردل، مہلک عوامل جیسے اعصابی گیسیں، پھیپھڑوں کو مفلوج کرنے والے زہریلے گیسیں اور خون کو متاثر کرنے والے عوامل شامل ہیں۔[3]ایسے ہتھیار اپنی شدید تباہ کن طاقت اور ماحول پر نہایت مضر اثرات کے باعث ’’غیر روایتی ہتھیاروں‘‘ میں شمار ہوتے ہیں، اور ان کی تیاری اور استعمال کو 1925ء کی جنیوا کنونشن کے تحت ممنوع قرار دیا گیا ہے۔[4]

27 اپریل 1915ء کو پہلی جنگِ عظیم کے دوران، بیلجیم کے علاقے "یپرس" میں جرمن افواج نے پہلی بار اتحادی افواج کے خلاف 168 ٹن مہلک کلورین گیس استعمال کی، جس سے چھ ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ اس دن کو بعد ازاں ’’جدید کیمیائی جنگ کی پیدائش کا دن‘‘ کہا جانے لگا۔ پہلی جنگِ عظیم میں ان ہتھیاروں کے استعمال کے نتیجے میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک یا زخمی ہوئے، جس کے بعد دنیا کے ممالک نے 17 جون 1925ء کو جنیوا میں ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس میں حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں، دم گھٹانے والی زہریلی گیسوں اور دیگر بیکٹیریائی طریقۂ جنگ کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی۔

اگرچہ دوسری جنگِ عظیم میں یہ ہتھیار استعمال نہیں ہوئے، لیکن عراق نے ایران کے خلاف جنگ میں بڑی مقدار میں کیمیائی عوامل اور مواد حاصل کیا، جو سوویت یونین کے ذخائر اور بعض یورپی ممالک و ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے فراہم کیے تھے۔[5]

1960 کی دہائی میں، عراق نے کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری کا پروگرام شروع کیا۔[6] اور 1982ء سے ان کا چھوٹے پیمانے پر استعمال بھی کیا۔[7]

7 اور 8 اگست، پھر اواخر اکتوبر اور اواخر دسمبر 1983ء میں، صوبہ آذربائیجانِ غربی کے شہر پیرانشہر کے قریبی کچھ دیہات اور عراق کے دشت شیلر کا علاقہ—جو حال ہی میں آپریشن والفجر 4 کے دوران کلیرکیا گیا تھا— کوعراقی فضائیہ نے گیسِ خردل سے بھرے بموں سے نشانہ بنایا۔[8]اسی طرح27 اور 28 اکتوبر 1983ء کو صوبہ کردستان کے شہر بانہ اور اس کے اطراف کے دیہات پر بھی گیسِ خردل سے حملہ کیا گیا۔[9]

22 فروری   1984ء کو آپریشن خیبر کے دوران، جو ہورالہویزه کے علاقے میں انجام پایا،[10]عراق نے اعصابی گیس ’’تابون‘‘ کا استعمال کیا، جس سے ایران کے بہت سے فوجی شہید یا زخمی ہوئے۔[11] اس کے بعد محاذِ جنگ پر کیمیائی متاثرین کے علاج کا ایک علیحدہ نظام قائم کیا گیا، جو ایمرجنسی لائن سے لے کر پچھلے محاذ کے عارضی اسپتالوں تک عام زخمیوں سے الگ تھا۔[12]

آپریشن خیبر میں عراق کے کیمیائی حملے کے بعد، ایران کی درخواست پر اقوامِ متحدہ کا پہلا تحقیقی وفد ایران بھیجا گیا۔ اس وفد کی رپورٹ کے نتیجے میں 30 مارچ 1984ء کو ایک بیان جاری کیا گیاجس میں—بغیر عراق کا نام لیے—دونوں فریقوں کو 1925ء کے جنیوا پروٹوکول پر عمل کرنے کی دعوت دی گئی۔ یہ بیان قانونی طور پر کسی بھی قسم کی پابندی  سے خالی تھا، اور مارچ  1985ء میں آپریشن بدر کے دوران عراق نے دوبارہ کیمیائی ہتھیار استعمال کیے۔[13]اس حملے کے بعد، اقوامِ متحدہ کے ماہرین کی ایک دوسری رپورٹ، جس میں عراق کی جانب سے ایران پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تصدیق کی گئی، سیکریٹری جنرل کو پیش کی گئی۔[14]

 1984ء کے اواخر سے لے کر 1985ء کے اوائل تک، عراق نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال میں نسبتاً احتیاط برتی،[15] لیکن 9 فروری 1986ء کو آپریشن والفجر 8 کے آغاز—جس کے نتیجے میں "فاو" آزاد ہوا—کے بعد[16] وسیع پیمانے پر کیمیائی حملے کیے گئے۔[17] کچھ زخمیوں کو علاج اور بحالی کے لیے جرمنی، اسپین، آسٹریا اور سویڈن بھیجا جاتا تھا۔ ان اعزامات کا ایک اہم نتیجہ یہ نکلا کہ عراق کے کیمیائی حملوں کی خبریں دنیا بھر میں پھیلیں اور اس پر بین الاقوامی ردِعمل سامنے آیا۔[18] کیمیائی حملوں کے متاثرینِ کا پہلا گروپ  اسی سال 17 فرورین کو سویڈن روانہ ہوا۔[19]

ان حملوں کے بعد اقوامِ متحدہ کا تیسرا ماہرین کا وفد فاو پہنچا اور اس نے سلامتی کونسل کو ایک رپورٹ پیش کی جس میں عراق کے ذریعے گیسِ خردل اور اعصابی گیس کے استعمال کی تصدیق کی گئی۔ سلامتی کونسل نے 21 مارچ 1986ء کو جاری کردہ اپنے بیان میں پہلی بار کھل کر عراق کا نام لیا اور اسے ایران کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے والا قرار دیا۔[20] مارچ 1987ء کے وسط تک صرف آپریشن والفجر 8 کے علاقے میں ایران کے دستوں پر سات ہزار سے زیادہ توپ اور مارٹر کے شیل داغے گئے جو زہریلے مواد سے بھرے ہوئے تھے۔[21] اسی سال سے عراق نے حیاتیاتی ہتھیاروں (Biological Weapons) کی تیاری بھی شروع کر دی۔[22]

1983ء سے 1987ء تک، عراقی فوج نے ایران کے محاذوں، مراکز، پچھلی صفوں اور حتیٰ کہ شہروں، دیہات اور غیرملکی آبادیوں کو کیمیائی حملوں کا نشانہ بناتے ہوئے مجموعی طور پر 230 سے زائد مرتبہ حملے کیے، جن کے نتیجے میں تقریباً 44 ہزار افراد شہید اور زخمی ہوئے۔[23]

خرمشہر کے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کو 10 اور 11 اپریل 1987ء کو "کیتیوشا "راکٹس سے نشانہ بنایا گیا جو اعصابی گیس لے جا رہے تھے۔[24] چند روز بعد، 16 اپریل 1987ء کو صوبہ کردستان کے بانہ کے تابع دیہات آلوت اور کنده کو خردل گیس سے بھرے بموں سے ہدف بنایا گیا۔[25]

4 اپریل 1987ء تا 5 جون 1987ء کے عرصے میں، عراقی دستوں نے، جو اربیل صوبے کے تحت کرد کنٹرول والے گاؤں تھے، انہیں خردل گیس کے ذریعے مسلسل کیمیائی حملوں کا نشانہ بنایا۔[26]

عراق کے بار بار حملوں کے بعد، اقوامِ متحدہ کی چوتھی ماہرین کی ٹیم اپریل–مئی 1987ء میں ایران روانہ ہوئی۔ اس ٹیم کی رپورٹ کے باوجود، سلامتی کونسل نے عراق کی ان جرائم کو روکنے کے لیے کوئی عملی اقدام انجام نہ دیا۔[27]

جنوب مغربی آذربایجان کے شہر سردشت پر 28 جون 1987ء کو عراقیوں کے خردل گیس حملے کیے گئے،[28] جن کے نتیجے میں 110 افراد شہید اور تقریباً 8,000 زخمی ہوئے۔ اگلے روز، سردشت کے تابع "گلہ‌وش" گاؤں پر بھی چھ بموں کے ذریعے خردل گیس سے حملہ کیا گیا۔[29] ایران کی بار بار درخواستوں کے باوجود، اس حادثے کی تحقیقات کے لیے اقوامِ متحدہ کی جانب سے کوئی ماہر ٹیم وہاں  نہیں  بھیجی گئی۔[30]

14مارچ 1988ء کو صوبہ سلیمانیہ (عراق) میں ایرانی افواج کی والفجر 10 آپریشن میں کامیابی کے بعد،[31]عراق نے حلَبچہ پر کیمیائی حملہ کیا جس کے نتیجے میں اس شہر کے ہزاروں باسی ہلاک اور زخمی ہوئے۔ اس سانحے کے بعد، سلامتی کونسل نے قرارداد 612 منظور کی، جس میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی مذمت کی گئی، مگر عراق کو بطور ذمہ دار ملک نامزد نہیں کیا گیا۔[32]

26 اگست 1988ء کو سلامتی کونسل نے قرارداد 620 منظور کی، جس میں ایران کو جنگ میں کیمیائی ہتھیاروں کا شکار قرار دیا گیا۔[33]

جنگ کے دوران، عراق کے کیمیائی حملوں کے نتیجے میں ایران کے ایک لاکھ سے زائد افراد زخمی اور 3,500 شہید ہوئے۔[34] جنگ کے بعد، 45 ہزار کیمیائی متاثرین کو بنیاد جانبازان کی طبی اور خدماتی کفالت میں شامل کیا گیا، جو علاج و بحالی، صحت و پیشگیری اور ادویات و آلات کی فراہمی کے تین بڑے شعبوں میں معاونت فراہم کرتی ہے۔[35]

عراق نے زیادہ تر کیمیائی حملے سرد موسم میں کیے، کیونکہ اس موسم میں کم ہوا چلنے اور سردی کے باعث آلودگی دیر تک برقرار رہتی ہے۔[36] ایران–عراق جنگ کے دوران، جرمنی، امریکہ، برطانیہ، فرانس، آسٹریا، بیلجیم، اٹلی، سوئٹزرلینڈ، اسپین، جاپان، بھارت، جنوبی کوریا، چین، ارجنٹائن، برازیل، مصر، اردن، روس اور یوکرین سمیت 278 کمپنیوں نے عراق کو کیمیائی اور ایٹمی ہتھیار فروخت کیے۔[37]

عراق کے اُس وقت کے وزیرِ خارجہ طارق عزیز نے جولائی 1988ء میں اعلان کیا کہ ایران–عراق جنگ میں کیمیائی ہتھیار استعمال ہوئے۔[38] 1991ء میں صدام حسین نے اعتراف کیا کہ عراق کی کیمیائی ہتھیاروں کی صلاحیت، امریکہ اور سوویت یونین کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔

14 مئی 2004ء کو تہران میں جرمن سفارت خانے کے سامنے کیمیائی جانبازوں کی یادگار تختی نصب کی گئی۔[39] 2005ء میں میوزیمِ امن (Peace Museum) نے تہران میں کام کا آغاز کیا، جس کا مرکزی ہدف ایران کے خلاف جنگ میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو اجاگر کرنا، جنگ کی ہولناکی کو دکھانا اور امن کی اہمیت کو فروغ دینا ہے۔[40]

ایران–عراق کی آٹھ سالہ جنگِ تحمیلی کے دوران، امام خمینی ؒ کے اس فتوے کی روشنی میں کہ:
"ہم مقدس دفاع کرنا چاہتے ہیں … یہ ایک ایسا دفاع ہے جس سے عقل اور اسلام دونوں متفق ہیں"،
ایران نے عراق کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں کیے[41]۔

 

 

 

 

 

 

 

[1] درویشی، فرهاد، جنگ ایران و عراق: پرسش‌ها و پاسخ‌ها، تهران: مرکز مطالعات و تحقیقات سپاه پاسداران انقلاب اسلامی، 2007، ص274.

[2] قمصریان، مهدی، عملیات استانچ، تهران: امیری، 2010، ص218.

[3] علایی، حسین، جنگ شیمیایی تهدید فزاینده، تهران: اطلاعات، 1988، ص23ـ17.

[4] مرادپیری، هادی، شربتی، مجتبی، آشنایی با علوم و معارف دفاع مقدس، تهران: بنیاد حفظ آثار و نشر ارزش‌های دفاع مقدس، چ یازدهم، 2012، ص138.

[5] سابق،ص192.

[6] احمدی، کورش، شورای امنیت سازمان ملل و مسئله خلع سلاح عراق، تهران: مرکز چاپ و انتشارات وزارت امور خارجه، 2005، ص10.

[7] مرادپیری، هادی، شربتی، مجتبی، آشنایی با علوم و معارف دفاع مقدس، ص141.

[8] علایی، حسین، جنگ شیمیایی تهدید فزاینده، ص110 و 118؛ گودرزیانی، احد، قطعه‌ای از آسمان: پیرانشهر، تهران: بنیاد حفظ آثار و نشر ارزش‌های دفاع مقدس، 2015،

[9] علایی، حسین، جنگ شیمیایی تهدید فزاینده، ص118؛ دهقان نیری، حسین، قطعه‌ای از آسمان: بانه، تهران: بنیاد حفظ آثار و نشر ارزش‌های دفاع مقدس، 2015، ص17.

[10] رشید، محسن،‌ اطلس جنگ ایران و عراق، تهران: مرکز اسناد و تحقیقات دفاع مقدس سپاه پاسداران انقلاب اسلامی،‌ 2000، ص72.

[11] علایی، حسین، جنگ شیمیایی تهدید فزاینده، ص110.

[12] فروتن، عباس، جنگ شیمیایی عراق و تجارب پزشکی آن، تهران: تیمورزاده، طبیب، 2003، ص100.

[13] خاطری، شهریار، جنتی محب، احمد، جنگ شیمیایی عراق علیه ایران به روایت اسناد سازمان ملل متحد، کرج: حنظله، بنیاد حفظ آثار و نشر ارزش‌های دفاع، 2007، ص22 و 23.

[14] سابق، ص23.

[15] علایی، حسین، جنگ شیمیایی تهدید فزاینده، ص115.

[16] علایی، حسین، اطلس جنگ ایران و عراق، ص74.

[17] علایی، حسین، جنگ شیمیایی تهدید فزاینده، ص116.

[18] روزنامه اعتماد، ش4264، 3 دی 1397، ص7.

[19] خامه‌یار، محمد، اولین‌های دفاع مقدس، تهران: پارسا اندیش، چ سوم: 1389، ص176.

[20] شماره سند S/17932 شورای امنیت.

[21] علایی، حسین، جنگ شیمیایی تهدید فزاینده، ص116.

[22] احمدی، کورش، شورای امنیت سازمان ملل و مسئله خلع سلاح عراق، ص11.

[23] مرادپیری، هادی، شربتی، مجتبی، آشنایی با علوم و معارف دفاع مقدس، ص141.

[24] علایی، حسین، جنگ شیمیایی تهدید فزاینده، ص118؛ خاطری، شهریار، جنتی محب، احمد، جنگ شیمیایی عراق علیه ایران به روایت اسناد سازمان ملل متحد، ص24.

[25] علایی، حسین، جنگ شیمیایی تهدید فزاینده، ص118؛ فرهنگ جغرافیایی آبادی‌های استان کردستان، تهران: سازمان جغرافیایی نیروهای مسلح، 2006، ص60.

[26] علایی، حسین، جنگ شیمیایی تهدید فزاینده، ص119.

[27] خاطری، شهریار، جنتی محب، احمد، جنگ شیمیایی عراق علیه ایران به روایت اسناد سازمان ملل متحد، ص24 و 25.

[28] صادقی، رضا، اطلس راهنما12: آذربایجان غربی در جنگ با ضدانقلاب و دفاع مقدس، تهران: مرکز اسناد و تحقیقات دفاع مقدس،2012، ص66.

[29] لطف‌الله‌زادگان، علی‌رضا، روزشمار جنگ ایران و عراق، کتاب چهل‌ونهم: تصویب قطعنامه 598، تهران: مرکز اسناد دفاع مقدس سپاه، 2008، ص369.

[30] خاطری، شهریار، جنتی محب، احمد، جنگ شیمیایی عراق علیه ایران به روایت اسناد سازمان ملل متحد، ص25؛ صادقی، رضا، اطلس راهنما12، ص66.

[31] رشید، محسن،‌ اطلس جنگ ایران و عراق، ص99.

[32] خاطری، شهریار، جنتی محب، احمد، جنگ شیمیایی عراق علیه ایران به روایت اسناد سازمان ملل متحد، ص25 و 26.

[33] سابق، ص28.

[34] فروتن، عباس، جنگ شیمیایی عراق و تجارب پزشکی آن، ص270.

[35] حیدریان مقدم، محمد، خاطری، شهریار، جانبازان شیمیایی، تهران: پژوهشکده مهندسی و علوم پزشکی جانبازان، 2002ص10.

[36] علایی، حسین، جنگ شیمیایی تهدید فزاینده، ص121.

[37] روزنامه ایران، ش3533، 5 دی 1385، ص15.

[38] احمدی، کورش، شورای امنیت سازمان ملل و مسئله خلع سلاح عراق، ص12.

[39] روزنامه اطلاعات، ش23053، 15،مئی، 2004، ص2.

[40] روزنامه شرق، ش2376، 20،اگست 2015، ص9.

[41] تقی زادہ اکبری، علی، عوامل معنوی و فرھنگی دفاع مقدس، تہران: مرکز تحقیقات اسلامی، 2001، ص170۔